دُکھ نوشتہ ہے تو آندھی کو لکھا! آہستہ
اے خدا اب کے چلے زرد ہوا ، آہستہ
خواب جل جائیں ، مری چشمِ تمنّا بُجھ جائے
بس ہتھیلی سے اُڑے رنگ حِنا آہستہ
زخم ہی کھولنے آئی ہے تو عجلت کیسی
چھُو مرے جسم کو ، اے بادِ صبا! آہستہ!
ٹوٹنے اور بکھرنے کا کوئی موسم ہو
پھُول کی ایک دُعا ۔۔۔۔ موجِ ہوا! آہستہ
جانتی ہوں کہ بچھڑنا تری مجبوری ہے
مری جان! ملے مجھ کو سزا آہستہ
میری چاہت میں بھی اب سوچ کا رنگ آنے لگا
اور ترا پیار بھی شدّت میں ہوا آہستہ
نیند پر جال سے پڑنے لگے آوازوں کے
اور پھر ہونے لگی تیری صدا آہستہ
رات جب پھُول کے رُخسار پہ دھیرے سے جھُکی
چاند نے جھک کے کہا ، اور ذرا آہستہ!
***
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote



Bookmarks