یا رب! مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
زخمِ ہُنر کو حوصلہ لب کشائی دے
لہجے کو جُوئے آب کی وہ نے نوائی دے
دُنیا کو حرف حرف کا بہنا سنائی دے
رگ رگ میں اُس کا لمس اُترتا دکھائی دے
جو کیفیت بھی جسم کو دے ، انتہائی دے
شہرِ سخن سے رُوح کو وہ آشنائی دے
آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے
تخئیل ماہتاب ہو، اظہارِ آئینہ
آنکھوں کو لفظ لفظ کا چہرہ دکھائی دے
دل کو لہو کروں تو کوئی نقش بن سکے
تو مجھ کو کربِ ذات کی سچی کمائی دے
دُکھ کے سفر میں منزلِ نا یافت کُچھ نہ ہو
زخمِ جگر سے زخمِ ہُنر تک رسائی دے
میں عشق کائنات میں زنجیر ہو سکوں
مجھ کو حصارِ ذات کے شہر سے رہائی دے
پہروں کی تشنگی پہ بھی ثابت قدم رہوں
دشتِ بلا میں ، رُوح مجھے کربلائی دے
***
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote
Bookmarks