آٹھ اکتوبر ۲۰۰۵ء
لکھوں تو کیا لکھوں!
کیسے لکھوں!
لفظوں کی ٹوٹی ہڈّیوں کو کیسے جوڑوں
سبھی روندے ہوۓ حرفوں سے،
نقطوں سے
جو پھوٹا پڑ رہا ہے جیتا جیتا خوں
صفحۂ قرطاس پر چنگاریاں بن کر ٹپکتا ہے
زباں کچلی پڑی ہے
اور اگر بولوں
تو لگتا ہے
مجھے چیخوں کے سوا کچھ بھی نہیں آتا
جنازوں پر یہاں زندہ جنازے سینہ زن ہیں
کچھ اگر باقی ہے تو رگ و پے میں اترتا درد ہے
قلب و جگر کو چیرتا دُکھ ہے
مجھے تو یہ کہنا نہیں آتا
کچھ آتا ہے
تو ایسے المیے پر
اور عناصر کے مقابل اپنی فطری بے بسی پر
ٹوٹ کر رہنا ہی آتا ہے
لکھوں تو کیا لکھوں!
بشکریہ ’کتاب نما‘ اگست ۲۰۰۶ء
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote
Bookmarks