بے ارادہ میری نظر اس نوجوان پر پڑی- اس وقت وہ گلی کے نکڑ پر کھڑا مجھے  تک رہا تھا- میری نظرپڑتے ہی وہ وہاں سے غائب ہو گیا- پہلے تو میں نے اسے  کوئی اہمیت نہیں دی- اگلے ہی لمحے یہ بات مجھے کھٹکی کہ دیکھتے ہی یوں  غائب کیوں ہو گیا- شاید اب تک وہاں میرا ہی منتظر تھا- کہیں میری ٹوہ میں  تو نہیں لگا ہوا تھا- یہ سب سوچ کر میرا اعتماد لڑکھڑانے لگا- مجھے گھبراہٹ  سی ہونے لگی-
گھر پہنچ کر چند لمحے میں نے اپنے آپ کو سمبھالا- پھر کپڑے تبدیل کر کے  کھانا گرم کرنے لگا- اس دوران برابر اسی نوجوان کا دھیان رہا- نا جانے اس  میں ایسی کونسی بات تھی- اس سے پہلے میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا- اگر  دیکھا بھی ہوگا تو اتنی توجہ نہیں دی تھی- مجھے اس سے ایک انجانا خوف محسوس  ہوا جو رفتہ رفتہ میرے وجود میں سرایت کرنے لگا- کھانے سے فارغ ہو کر حسب  عادت میں اخبار لے کر بیٹھ گیا- ذہن اسی کی طرف رہا- ساتھ ساتھ یہ فکر دامن  گیر ہوئی کہ مجھے تنہا دیکھ کر کہیں گھر میں نا گھس آئے- میں نے ہمت کر کے  کھڑکی سے باہر جھانکا- وہ ان پھر اسی نکڑ پر کھڑا تھا- کسی سے بتائیں کرتے  ہوئے بار بار میرے گھر کی طرف اشارے کر رہا تھا- یہ دیکھ کر میں وہاں سے  ہٹ گیا اور اپنی سانس درست کرنے لگا- اب مجھے یہ نئی پریشانی ہونے لگی کہ  ایدھر اشارے کیوں کر رہا تھا- کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آئی- نہ پڑھنے میں جی  لگ رہا تھا اور نہ آرام کرنے میں یکسوئی محسوس ہو رہی تھی- اسی وقت  ٹیلیفون کی دو تین گھنٹیاں بھی سنائی دیں- فون اٹینڈ کرنے سے مجھے خوف آنے  لگا- ابھی میں اپنے آپ کو سنبھال بھی نہیں پایا تھا کہ گھر کی اطلاعی گھنٹی  بجی- اس نئی افتاد سے میں میں سہم گیا- اس وقت مجھ میں دروازہ کھولنے کا  حوصلہ قطئی نہیں تھا- کیونکہ مجھے یقین تھا کہ دروازہ کھلتے ہی وہی داخل ہو  جائے گا- مگر جب دروازے پر دستک بھی ہونے لگی تو میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ  دروازہ کھولا- میری بیوی آئی تھی- وہ ہفتے بھر سے اپنے میکے گئی ہوئی تھی-  میری گھبراہٹ دیکھ کر اس نے مشکوک انداز میں ہر کمرے کو جھانک کر دیکھا-  پھر حسب عادت مجھ پر برس پڑی کہ دروازہ اتنی دیر میں کیوں کھولا- میں نے  کوئی جواب نہیں دیا- کہے بغیر میرے دل کی بات وہ کبھی نہیں سمجھ پاتی تھی-  پھر گھر کی بکھری ہوئی حالت دیکھ کر بہت دیر تک بڑبڑاتی اور ساتھ ساتھ  چیزوں کو سمیٹتی رہی-
اگلے روز میں آفس کے لیۓ نکلا تو ادھر ادھر دیکھتا رہا- وہ مجھے نظر  نہیں آیا- میں ہلکا پھلکا ہو کر آگے بڑھ گیا- البتہ آفس میں سرے وقت یہی  کھد بد رہی کہ وہ میری تک میں ضرور ہوگا- اپنی اسی کیفیت میں فائلوں پر کچھ  سے کچھ لکھ گیا- یہ بات میرے افسر نے مجھے بلا کر بتائی- تب مجھے شرمندگی  ہوئی- اس نے اس کا سبب جاننا چاہا تو میں محض ہکلا کر رہ گیا- بتاتا بھی تو  کیا بتاتا- وہاں سے اٹھ کر تمام وقت اپنی سیٹ پر بیٹھا رہا- کئی ساتھیوں  نے قریب آ کر پوچھا بھی کہ کیا تمہارے پاس آج کام زیادہ ہے- میں صرف ہوں  ہاں کر کے رہ گیا- سہ پہر کو گھر واپس جاتے ہوئے بھی یہی خدشہ رہا کہ وہ  کہیں آس پاس موجود ہے- پھر اگلے ہی لمحے وہ مجھے گلی سے گزرتے ہوئے دکھائی  دیا- میں گھبراہٹ میں گھر کے دروازے پر دستک کے ساتھ کال بیل بھی دینے لگا-  دروازہ جونہی کھلا تو میں غڑپ سے اندر داخل ہو گیا- یہ دیکھ کر بیوی حیران  ہوئی- مگر خاموش رہی- اور سوالیہ انداز سے دیکھتی رہی- میں نے اس سے اپنے  خوف کا جان بوجھ کر ابھی تک کوئی ذکر نہیں کیا تھا- کیونکہ وہ مجھے تسلی  دینے کے بجائے مزید الجھا دیتی-
اب وہ نوجوان میرے اعصاب پر پوری طرح چھا چکا تھا- میں نے کہیں آنا جانا  کم کر دیا- میری بیوی اس تبدیلی پر حیران ہونے سے زیادہ خوش تھی- میری  بگڑتی ہوئی حالت دیکھ کر اس نے کسی ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کے لۓ کہا- میں نے  کوئی جواب نہیں دیا- میں جانتا تھا کہ میرا علاج کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں-  میں نے آس پاس رہنے والے دو تین جان پہچان والوں سے باتوں باتوں میں اس  نوجوان کا تذکرہ کیا- کسی نے کوئی جواب نہیں دیا اور ہر کسی نے بات بدل دی-  میں نے یہی اندازہ لگایا کہ وہ جان بوجھ کر کچھ کہنے سے اجتناب برت رہے  ہیں- یہ بھی ممکن تھا کہ انہوں نے میری اس بات کو کوئی اہمیت نا دی ہو- میں  یہی سوچتا رہتا کہ آخر وہ میرے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے- اسے مجھ سے کیا عناد  ہے- اس دشمنی کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی- کبھی اس سے مل کر اپنے زہن  کو صاف کرنے کی سوچتا- یہ میرے بس میں نہیں تھا- اس لئے یہ سوچ کر مجبورا  اپنے آپ کو تسلی دے لیتا کہ موجودہ معاشرے میں بعض لوگ بلا مقصد بھی کسی کے  دشمن ہو جاتے ہیں-
چھٹی کے روز کچھ مہمان آنے والے تھے- بیوی نے کھانے پینے کی چیزیں لانے  کے لئے کہا تو میں بادل نخواستہ تیار ہو گیا- لیکن اسی لمحے میرے وجود میں  ہلچل مچ گئی- میں نے بیوی پر اپنی یہ کیفیت ظاہر نہیں ہونے دی- گھر سے نکل  کر جیسے ہی آگے بڑھا تو یکایک میری نظر اسی نوجوان پر جا پڑی- وہ ذرا فاصلے  پر تنہا کھڑا تھا- میرے قدم لڑکھڑانے لگے- مجھے دیکھتے ہی وہ پھر غائب ہو  گیا- میں اپنے وجود کو کمزور قدموں پر لادے آگے بڑھتا رہا- لمحے بھر میں  مجھے کئی برے برے خیال آئے- میں نے اپنے بچاؤ کی خاطر راستہ بدل لیا-  کیونکہ مجھے سودا ضرور لے کر آنا تھا- ورنہ بیوی کی بدمزاجی کا سامنا کرنا  پڑتا- میں جیسے ہی کسی اور گلی میں مڑا- میری چیخ حلق میں گھٹ کر رہ گئی-  وہ اب میرے سامنے تھا- مجھے اتنے قریب پاتے ہی وہ خوف سے چیختا ہوا بھاگ  کھڑا ہوا- 
Similar Threads:
						
					
Bookmarks