تم جو چاہو
تو ہم
آج بھی اپنی سانسوں کا ہر سر
تمھیں سونپ دیں
صرف بیتی ہوئی چاہتوں کے عِوض
***
Similar Threads:
تم جو چاہو
تو ہم
آج بھی اپنی سانسوں کا ہر سر
تمھیں سونپ دیں
صرف بیتی ہوئی چاہتوں کے عِوض
***
Similar Threads:
Last edited by intelligent086; 09-02-2014 at 09:46 PM.
آ لگا جنگل درد دیوار سے
اپنے آپ کو ایک شعلہ بیاں مقرر سے
ہمشکل بچاتے ہوئے
لوگو ں اور جھانسوں کی بھیڑ سے نکل تو آیا
لیکن باہر آ کر پتہ چلا
کہ میرے پاؤں میری ٹانگوں کے ساتھ نہیں ہیں
میں واپس پلٹا
اور خاصی کوشش کے بعد صرف جوتے تلاش کر سکا
سڑک پار کرتے ہوئے
ایک رفتاری گاڑی کی زد میں آیا تو بچ نہ سکا
گاڑی مجھے اچھال کر دور پھینک گئی
اور جاتے جاتے میری ٹانگ اپنے ساتھ لے گئی
میرے جوتے وہیں پڑے رہ گئے
اور مجھے ہسپتا ل پہنچا دیا گیا
جہاں میری آنکھ
میری بے ہوشی کے عالم میں عطیے کے طور پہ لے لی گئی
کچھ دنوں بعد ہسپتال سے فارغ ہو کر نکلا
تو ایک جیب کترے سے ٹکرا گیا
جو جیب کو بالکل خالی پا کر
میری انگلیاں ہی کاٹ کر لے گیا
میں رپورٹ درج کرانے گیا تو
محافظوں نے کہا
کہ حالات ایسے نہیں کہ کوئی بھی
اتنے صحیح سلامت بازو کھلے عام ساتھ لیے پھرے
اور پھر انھوں نے احتیاطاً میرے ہاتھ جسم سے کاٹ کے اپنے
مال خانے میں رکھ لیے
وہاں سے چلا اور بازار میں آیا
تو جگہ جگہ اشتہاروں بینروں سے دیواریں بھری نظر آئیں
جن میں ایمان والوں سے
ملک، قوم اور مذہب کے نام پر
سروں اور گردنوں کی قربانی پیش کرنے کی اپلیں کی گئی تھیں
اس سے پہلے کہ کچھ سمجھتا یا سوچتا
عقیدوں اور نظریات کا ایک اژدہام مجھ پر حملہ آور ہو چکا تھا
جو بالآ خر میرا سر میرے تن سے جدا کر کے لے گیا
میں لڑکھڑایا اور زمین پر آ رہا
دو تین پتھریلی ایڑیاں مجھے کچلتے ہوئے گزر گئیں
ابھی کچھ زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ
دو یخ برفیلے ہاتھوں نے اٹھایا میرا کٹا پھٹا اور ٹوٹا پھوٹا بدن
اور ہاتھ سے دھکیلے جانے والے ایک چھوٹے سے لکڑی کے
چھکڑے لٹا دیا
چھکڑا ہلا اور ایک سمت دھکیلا جانے لگا
ساتھ ہی ایک آواز میرے کانوں میں پڑی
" دے غریب کو اللہ تجھے ساری دنیا کی بادشاہت دے "
" دے غریب کو اللہ تجھے زندگی میں کوئی دکھ نہ دے "
کچھ ہی دیر بعد
چھوٹے چھوٹے سکے میرے شکستہ جسم پر گرنے لگے
٭٭٭
مجھے تم یاد آتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
کسی سنسان سپنے میں چھپی خواہش کی حدت میں
کسی مصروفیت کے موڑ پر
تنہائی کے صحراؤں میں
یا پھر کسی انجان بیماری کی شدت میں
مجھے تم یاد آتے ہو
کسی بچھڑے ہوئے کی چشم پرنم کے نظارے پر
کسی بیتے ہوئے دن کی تھکن کی اوٹ سے
یا پھر تمھارے ذکر میں گزری ہوئی شب کے اشارے پر
کسی بستی کی با رونق سڑک پر
اور کسی دریا، کسی ویران جنگل کے کنارے پر
مجھے تم یاد آتے ہو
میری چپ کے کنویں میں
آرزوؤں کے بدن جب تیرتے ہیں
اور کنارے سے کوئی بولے
تو لگتا ہے اجل آواز دیتی ہے
میری بے چینیوں میں جب تمھاری تند خو بخشش کھٹکتی ہے
تمھاری بے سبب دوری سلگتی ہے
یا پھر جب بھی میری آنکھوں کے صحرا میں
تمھاری یاد کی تصویر جلتی ہے، جدائی ہاتھ ملتی ہے
مجھے تم یاد آتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
مقدر کے ستاروں پر
زمانوں کے اشاروں پر
اداسی کے کناروں پر
کبھی ویران شہروں میں
کبھی سنسان رستوں پر
کبھی حیران آنکھوں میں
کبھی بے جان لمحوں پر
مجھے تم یاد آتے ہو
سہانی شام ہو کوئی
کہیں بدنام ہو کوئی
بھلے گل فام ہو کوئی
کسی کے نام ہو کوئی
مجھے تم یاد آتے ہو
کہیں بارش برس جائے
کہیں صحرا ترس جائے
کہیں کالی گھٹا اترے
کہیں باد صبا ٹھہرے
تمھارے اور میرے درمیاں آ کر خدا ٹھہرے
تو میری زندگی کے اول و آخر
تم اس لمحے
خدا کے بعد آتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
***
wonderful collection.........![]()
nyc collection
سمے سمے کی خلش میں ترا ملال رہے
جدائیوں میں بھی یوں عالمِ وصال رہے
انا کی جنگ میں ہم جیت تو گئے لیکن
پھر اس کے بعد بہت دیر تک نڈھال رہے
رہِ جنوں میں یہی زادِ راہ ہوتا ہے
کہ جستجو بڑھے دیوانگی بحال رہے
حسین راتیں بھی مہکیں تمہاری یادوں سے
کڑے دنوں میں بھی پل پل ترا خیال رہے
تو ایک بار ذرا کشتیاں جلا تو سہی
ہے کیا مجال کہ اک لمحہ بھی زوال رہے
***
تم جو ہوتے تو ہمیں کتنا سہارا ہوتا
ہم نے اوروں کو نہ یوں دکھ میں*پکارا ہوتا
جتنی شدت سے میں *وابستہ تھا تم سے فرحت
کس طرح میرا ترے بعد گزارا ہوتا
مجھ کو یہ سوچ ہی کافی ہے جلانے کے لئے
میں نہ ہوتا تو کوئی اور تمہارا ہوتا
اور ہم بیٹھ کے خاموشی سے روئے جاتے
شام ہوتی کسی دریا کا کنارا ہوتا
دل سے دیکھی نہیں جاتی تھی خاموشی گھر کی
کس طرح اجڑا ہوا شہر گوارا ہوتا
تو نے سوچا ہے کبھی کتنا محبت کے بغیر
روح فرسا دلِ ویراں کا نظارا ہوتا
***
آگ ہو تو جلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
برف کے پگھلنے میں* دیر کتنی لگتی ہے
چاہے کوئی رک جائے، چاہے کوئی رہ جائے
قافلوں کو چلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
چاہے کوئی جیسا بھی ہمسفر ہو صدیوں سے
راستہ بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
یہ تو وقت کے بس میں ہے کہ کتنی مہلت دے
ورنہ بخت ڈھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
موم کا بدن لے کر دھوپ میں نکل آنا
اور پھر پگھلنے میں* دیر کتنی لگتی ہے
سوچ کی زمینوں میں راستے جدا ہوں تو
دور جا نکلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
***
Last edited by intelligent086; 09-02-2014 at 10:18 PM.
پھول بھی ابر بھی مہتاب بھی میرے کب تھے
میرے جو خواب تھے وہ خواب میرے کب تھے
ہاتھ تیرا ہی تھا سب میری رتوں کے پیچھے
باغ جو سبز تھے شاداب تھے میرے کب تھے
میرے سینے کے جو صحرا تھے کہاں تھے میرے
میری آنکھوں کے جو سیلاب تھے میرے کب تھے
کب مرے پاس کتابوں کے سوا بھی کچھ تھا
تاریخ کے کچھ باب تھے میرے کب تھے
میں تو اس پیاس کا وارث ہوں کہ بنجر پن کا
گاؤں کے کھیت جو سیراب تھے میرے کب تھے
***
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks