مری جاں

میری جاں میں سمجھتا ہوں یہ راتیں چور ہوتی ہیں
ہماری نیند اور دُکھ سکھ چرا کر بھاگ جاتی ہیں
ذرا سوچو تو یہ نیندیں کہاں جاتی ہیں اڑ اڑ کر
مجھے لگتا ہے یہ نیندیں پیا کہاں جاتی ہیں اڑ اڑ کر
یہ راتیں کتنا کچھ آخر چھپا جاتی ہیں دامن میں
یہی راتیں ان گنت باتوں میں پر اسرار ہوتی ہیں
یہ بے چینی نہ جانے کیوں مجھے ٹکنے نہیں دیتی
ہمیں دیکھو ہمارا حال بھی کچھ کم نہیں تم سے
میں اکثر خواب میں بھی ڈھونڈتی رہتی ہوں خوشبو کو
تم اچھی ہو بہت ہی اور تمہارے خواب عمدہ ہیں
مگر یہ خواب اور خوشبو دکھوں میں چھوڑ جاتے ہیں
گھڑی بھر میں سفر کے عہد سارے توڑ جاتے ہیں
بتاؤ! بے وفا کہتے ہیں جن کو کون ہوتے ہیں
وہی جو آدھے رستے میں مہاریں موڑ جاتے ہیں
***