تم جو چاہو
تو ہم
آج بھی اپنی سانسوں کا ہر سر
تمھیں سونپ دیں
صرف بیتی ہوئی چاہتوں کے عِوض
***
Similar Threads:
تم جو چاہو
تو ہم
آج بھی اپنی سانسوں کا ہر سر
تمھیں سونپ دیں
صرف بیتی ہوئی چاہتوں کے عِوض
***
Similar Threads:
Last edited by intelligent086; 09-02-2014 at 09:46 PM.
آنکھ بن جاتی ہے ساون کی گھٹا شام کے بعدلوٹ جاتا ہے اگر کوئی خفا شام کے بعدوہ جو ٹل جاتی رہی سر سے بلا شام کے بعدکوئی تو تھا کہ جو دیتا تھا دعا شام کے بعدآہیں بھرتی ہے شب ہجر یتیموں کی طرحسرد ہو جاتی ہے ہر روز ہوا شام کے بعدشام تک رہا کرتے ہیں دل کے اندردرد ہو جاتے ہیں سارے ہی رہا شام کے بعدلوگ تھک ہار کے سو جاتے ہیں لیکن جاناںہم نے خوش ہو کے ترا درد سہا شام کے بعدخواب ٹکرا کے پلٹ جاتے ہیں*بند آنکھوں سےجانے کس جرم کی کس کو ہے سزا شام کے بعدچاند جب رو کے ستاروں سے گلے ملتا ہےاک عجب رنگ کی ہوتی ہے فضا شام کے بعدہم نے تنہائی سے پوچھا کہ ملو گی کب تکاس نے بے چینی سے فورا ہی کہا شام کے بعدمیں اگر خوش بھی رہوں پھر بھی مرے سینے میںسوگواری کوئی روتی ہے سدا شام کے بعدتم گئے ہو تو سیہ رنگ کے کپڑے پہنےپھرتی رہتی ہے مرے گھر میں قضا شام کے بعدلوٹ آتی ہے مری شب کی عبادت خالیجانے کس عرش پہ رہتا ہے خدا شام کے بعددن عجب مٹھی میں*جکڑے ہوئے رکھتا ہے مجھےمجھ کو اس بات کا احساس ہوا شام کے بعدکوئی بھولا ہوا غم ہے جو مسلمل مجھ کودل کے پاتال سے دیتا ہے صدا شام کے بعدمار دیتا ہے اجڑ جانے کا دہرا احساسکاش ہو کوئی کسی سے نہ جدا شام کے بعد***
اک کہانی سبھی نے سنائی مگر ، چاند خاموش تھااس کی آواز کا منتظر تھا نگر ، چاند خاموش تھاکون تھا جس کی آہوں کے غم میں ہوا سرد تھی شہر کیکس کی ویران آنکھوں کا لے کے اثر، چاند خاموش تھاوہ جو سہتا ریا رت جگوں کی سزا چاند کی چاہ میںمرگیا تو نوحہ کناں تھے شجر، چاند خاموش تھااس سے مل کے میں یوں خامشی اور آواز میں قید تھااک صدا تو مرے ساتھ تھی ہم سفر ، چاند خاموش تھاکل کہیں پھر خدا کی زمیں پر کوئی سانحہ ہو گیامیں نے کل رات جب بھی اٹھائی نظر ، چاند خاموش تھا***
لگ رہا ہے شہر کے آثار سے
آ لگا جنگل در و دیوار سے
جن کو عادت ہو گئی صحراؤں کی
مطمئن ہوتے نہیں گھر بار سے
یہ تو سارا بازوؤں کا کھیل ہے
شہ رگیں کٹتی نہیں تلوار سے
آ گرے ہیں عین ویرانی کے بیچ
کچھ پرندے کچھ شجر بیمار سے
راستوں پہ گھاس اُگ آئی اگر
کون لوٹے گا سمندر پار سے
پھٹ نہ جائے دل کہیں اصرار سے
اس لیے گزرے نہیں بازار سے
***
اڑتے اڑتے آخر چاند
دل کی شاخ سے الجھا ہے
ہم تھک ہار کے سوئے ہیں
درد بھلا کب سویا ہے
سرد مزاجی کا موسم
اک مدت سے ٹھہرا ہے
رستے خالی خالی ہیں
کوئی رہ سے گزرا ہے
ایسا زور نصیب میرا
جانے کس نے لکھا ہے
تیرا وعدہ ابھی تلک
طاق کے اوپر رکھا ہے
اتنا کڑوا عشق سبھی
لوگوں نے کب چکھا ہے
***
بس اِک چراغ یہ روشن دِل تباہ میں ہے
کہ اُس کی میری جدائی ابھی نِباہ میں ہے
تمہارا ہجر صدی دو صدی تو پالیں گے
ابھی کچھ اِتنی سکت تو ہماری چاہ میں ہے
میں مطمئن ہوں کہ تو مطمئن نہیں دشمن
ابھی تو ایک یہی چال رزم گاہ میں ہے
عجب غرور میرے قلبِ منکسر میں ہے
عجیب عجز میری ذاتِ کج کلاہ میں ہے
میں پُرسکوں ہوں مضافات میں بسیرے پر
کہ شہر بھر کا تماشا میری نگاہ میں ہے
***
وہ تم جو چھوڑ گئے تھے دُکھا ہوا میرا دل
سفر نے ڈھونڈ لیا ہے رہا سہا میرا دل
کچھ اس طرح سے تعزیت کی آس میں تھا
کسی نے ہنس کے بھی دیکھا تو رو دیا میرا دل
ہے اپنی اپنی رسائی رہ محبت میں
ہے اپنا اپنا طریقہ ترا خدا میرا دل
نگر نے معجزہ مانگا تیری محبت کا
تو جھوم جھوم کے صحراؤں سے اٹھا میرا دل
کسی نے جب بھی یہ پوچھا کہ کون ہے فرحت
تو مسکرا کے ہمیشہ یہی کہا میرا دل
***
کہو کسی پہ کبھی درد آشکار کیا؟
کبھی کبھی کئی لوگوں کو سوگوار کیا
کبھی کسی کے لیے خود کو بے قرار کیاَ؟
تمام عمر محبت کا انتظار کیا
کسی کو سونپی کبھی اپنے وقت کی تقسیم ؟
کبھی کبھی تیری یادوں سے کاروبار کیا
یہ شہر بھر میں بھلا کیوں اکڑ کے پھرتے ہو؟
ہمیں غرور بہت ہے کہ ہم نے پیار کیا
کوئی تضاد کوئی اختلاف اس دوراں؟
غموں کو کُند کیا دل کو تیز دھار کیا
کہو جو لوگوں پہ احسان کرتے پھرتے ہو؟
خود اپنے دل کو سدا میں نے زیر بار کیا
بتاؤ دُکھ کی ریاضت میں کیا کیا تم نے ؟
اجل کو پھول کیا، زندگی کو خار کیا
***
دکھ ایسا دریا ہے جو
آنکھ کے رستے بہتا ہے
تنہائی کی بات نہ کر
سارا شہر ہی تنہا ہے
غم میرے دروازے پر
دھرنا مار کے بیٹھا ہے
ہم نے اپنا آپ سدا
اس کے کھوج میں پایا ہے
کالا درد وچھوڑے کا
دور دور تک پھیلا ہے
دل کو دیکھ کے روتا ہوں
کتنا بھولا بھالا ہے
رونے والے بھول گئے
کون کہاں کھویا ہے
***
بے چین مزاجی میں عجب کچھ بھی نہیں تھا
سوچا تو بچھڑنے کا سبب کچھ بھی نہیں تھا
اس بخت میں اب لاکھ زمانہ تجھے چاہے
ہم نے تو تجھے چاہا، تُو جب کچھ بھی نہیں تھا
تو نے میری جاں جھانک کے دیکھا نہ تھا دل میں
چہرے پہ جو تھا وہ تو غضب کچھ بھی نہیں تھا
جو مجھ سے فقیروں کے دلوں میں تھا وہی تھا
لوگوں نے جسے پوجا وہ رب کچھ بھی نہیں تھا
فرحت جو کوئی بھی تھا کہاں سے تھا بس اس کا
اک عشق سوا نام و نسب کچھ بھی نہیں تھا
***
مدتوں بعد میرا سوگ منانے آئے
لوگ بھولا ہوا کچھ یاد دلانے آئے
بڑھ گیا دل کے جنازے میں ستاروں کا ہجوم
کتنے غم ایک تیرے غم کے بہانے آئے
رات اک اُجڑی ہوئی سوچ میرے پاس آئی
اور پھر اُجڑے ہوئے کتنے زمانے آئے
ایک اک کر کے حوادث بڑی ترتیب کے ساتھ
مرحلہ وار میرا ساتھ نِبھانے آئے
نقش پختہ تھا تیرے غم کا وگرنہ موسم
بارہا دل سے میرے اس کو مٹانے آئے
***
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks