تم جو چاہو
تو ہم
آج بھی اپنی سانسوں کا ہر سر
تمھیں سونپ دیں
صرف بیتی ہوئی چاہتوں کے عِوض
***
Similar Threads:
تم جو چاہو
تو ہم
آج بھی اپنی سانسوں کا ہر سر
تمھیں سونپ دیں
صرف بیتی ہوئی چاہتوں کے عِوض
***
Similar Threads:
Last edited by intelligent086; 09-02-2014 at 09:46 PM.
محبت ذات ہوتی ہے
محبت ذات ہوتی ہے
محبت ذات کی تکمیل ہوتی ہے
کوئی جنگل میں جا ٹھہرے
کسی بستی میں بس جائے
محبت ساتھ ہوتی ہے
محبت خوشبوؤں کی لے
محبت موسموں کا دھن
محبت آبشاروں کے نکھرتے پانیوں کا من
محبت جنگلوں میں رقص کرتی مورنی کا تن
محبت چلچلاتے گرم صحراؤں میں ٹھنڈی چھاؤں کی مانند
محبت اجنبی دنیا میں اپنے گاؤں کی مانند
محبت دل
محبت جاں
محبت روح کا درماں محبت مورتی ہے
اور کبھی دل کے مندر میں کہیں پر ٹوٹ جائے تو
محبت کانچ کی گڑیا
فضاؤں میں کسی کے ہاتھ سے گر چھوٹ جائے تو
محبت آبلہ ہے کرب کا
اور پھوٹ جائے تو
محبت روگ ہوتی ہے
محبت سوگ ہوتی ہے
محبت شام ہوتی ہے
محبت رات ہوتی ہے
محبت جھلملاتی آنکھ میں برسات میں آنکھ ہوتی ہے
محبت نیند کی رت میں حسین خوابوں کے رستوں پر سلگتے جان کو
آتے رت جگوں کی گھات ہوتی ہے
محبت جیت ہوتی ہے
محبت مات ہوتی ہے
محبت ذات ہوتی ہے
***
بین
زندگی جیسے کوئی زرد سفر موت زدہ
سنگ، حیوان، شجر، موت زدہ
مسکرائیں تو ہنسے جاتی ہے
زخم کھائی ہوئی تقدیر ڈگر موت زدہ
اور رونے کے لیے بیٹھیں تو رومالوں پر
جھرجھراتا ہوا ایمان سلگ اٹھتا ہے
جذب ہونے ہی نہیں دیتا کسی آنسو کو
بھیگ جاتی ہے جبیں صدمے کی
دن چمکتا ہے سر وہم تمنا اور پھر
دور گرتی ہوئی پیلاہٹ میں
چُرمرائی ہوئی اک شام لٹک آتی ہے
رات پڑتی ہے تو کرتے ہیں بسر موت زدہ
اس طرح جیسے صلیبوں سے بندھی بے چینی
موت سے اگلا کوئی خوف بسر کرتی ہے
کس فرشتے کا گریبان پکڑ کر پوچھیں
ہنستے بستے ہوئے بازاروں پر
کس نے ڈالی ہے نظر موت زدہ
دل لب درد
پریشان خیالات کی چوکٹپ سے لگا بیٹھا ہے
جس طرح سے کوئی پس ماندہ عزیز
دم بہ دم ڈوبتی یادوں کی صف ماتم پر
تھام کر بیٹھا ہو سر موت زدہ
زندگی
زندگی، درد کا گھر موت زدہ
کھڑکیاں سرد
دریچے خاموش
صحن ویران
شجر موت زدہ
روح سنسان
خبر موت زدہ
دل بیابان
اثر موت زدہ
بستیاں، گاؤں، محلے، چوپال
ادھ مری آس، بشر موت زدہ
***
دل
دل کعبہ
دل مسجد مندر
دل دربار فقیراں
دل دنیا
دل اڑن کٹھولا
دل زندانِ اسیراں
***
ایک نظم
خوبصورت پھولوں
اور رنگ برنگی تتلیوں کی قسم
تم میری روح اور میرے بدن کے درمیان
یوں ہو
جیسے زمین اور آسمان کے درمیان
ٹمٹماتے ہوئے ستارے
جیسے بے کنار اور وسیع و عریض
ریگستانوں میں
نوٹ کے لٹکی ہوئی چھتوں نے
روشن دان پرو ڈالے ہیں
انتظار نوکیلی سلاخوں کی طرح
دل میں اترتا جا رہا ہے
اور دل نا امیدی کی گہری اور تاریک کھائیوں میں
کنوئیں میں گرتے ہوئے پتھر کی طرح
سیلاب
تالے
اور پتھر
بہت زیادہ ہیں
اور ان کے مقابلے میں
میں اور تم اور وہ بھی ایک دوسرے کے بغیر
بہت کم
بہت ہی کم
***
محبت کی ادھوری نظم
رات کا سمندر ہے
رات بھی محبت کی
بات کا اجالا ہے
بات بھی محبت کی
گھات کی ضرورت ہے
گھات بھی محبت کی
نرم گرم خاموشی
سہج سہج سرگوشی
چور چور دروازے
کون چھپ کے آیا ہے
آرزو نے جنگل میں
راستہ بنایا ہے
جھینپتے ہوئے آنگن
نے درخت سے مل کر
کچھ نہ کچھ چھپایا ہے
آسماں کی کھڑکی میں
سکھ بھری شرارت سے
چاند مسکرایا ہے
چاند مسکرایا ہے
چاندنی نہائی ہے
خوشبوؤں نے موسم میں
آگ سی لگائی ہے
عشق نے محبت کی
آنکھ چومنا چاہی
اور ہوا کے حلقے میں
شوخ سی نزاکت سے
شاخ کمسائی ہے
رات کا سمندر ہے
رات بھی محبت کی
بات کا اجالا ہے
رات بھی محبت کی
بات کے سویرے میں
زندگی کے گھیرے میں
روح ٹمٹمائی ہے
وصل جھلملایا ہے
دل نے بند سینے میں
حشر سا اٹھایا ہے
کون چھپ کے آیا ہے
***
مجھ سے ناراض نہ ہو
مجھ سے ناراض نہ ہو
تجھ سے بے چینی کو ٹکرانے کی نیت تو نہیں
تجھ سے گھبرائے ہوئے دن کے تعارف میں میری مرضی
نہیں ہے شامل
تیری ویران خیالی میں میرا ہاتھ نہیں
میں تو کملائی ہوئی شاخ کی مانند ہوں بہت افسردہ
میں تو ذروں کی طرح چپ ہوں بہت
ایک ہی تلوے تلے
ایک ہی بار کئی مرتبہ آ جاتا ہے دل
اور میں چپ ہوں بہت
مجھ سے ناراض نہ ہو
تیری ناراضی سے ڈرتی ہے ہوا
اور مجھے غصے سے آ لگتی ہے
اور میری سانسوں کی ترتیب بدل دیتی ہے
تیری ناراضی سے ہوتا ہے سفر خوفزدہ
اور میری راہیں بدل دیتا ہے
اور میرے پاؤں جما دیتا ہے انگاروں پر
میں کئی روز سے کچھ باتوں سے جلتا ہوں بہت
ہائے جو ٹوٹ کے کرتے ہیں محبت وہ لوگ
ہائے جو دل میں بساتے نہیں نفرت وہ لوگ
میں کئی روز مر جاتا ہوں
تیری ناراضگی مجھے مارتی ہے
میں کئی روز سے جیتا ہوں بہت
تیرا پچھتاوا مجھے زندہ کیسے رکھتا ہے
مجھ سے ناراض نہ ہو
تیری ناراضگی سے شامیں بھی اڑاتی ہیں خاک
مجھ پہ ہنستی ہیں بہت راتیں بھی
اور مجھے دیر تلک تکتی ہیں برساتیں بھی
مجھ سے ناراض نہ ہو
میں نے ملنا بھی ہے بہت ہے تم سے
اور کرنا ہیں بہت باتیں بھی
مجھ سے ناراض نہ ہو
***
بین۔2
آخر شب تو ابھی دور تھی
کیوں ٹوٹ گرا
وہ ستارہ کہ جیسے سر پہ چمکنا تھا ابھی
کیسے دوپہر پہ ڈھل آئی اچانک کوئی ویران سی شام
ہم تو پہلے ہی بہت زرد تھے دل کے اپنے
کس نے توڑی خزاں سینے میں
ٹوٹ کر پھیل جاتی ہے بڑی سرعت سے
آنکھ سے روح کی بینائی تلک
جو نظر آتا ہے پیلا ہے بہت
دل کے سرطان سے کل عالم تنہائی تلک
جو سمجھ آتا ہے نیلا ہے بہت
سوگ کا اپنا اثر ہوتا ہے
سوگ میں لگتا ہے آئے ہی نہیں
روگ سے لگتا نکلے ہی نہیں
اس ستارے کا چمکنا خواہش تھی
کون اس خام خیالی کی ہوا میں آتا
درد کی دیدہ دلیری ہے کہ پیشانی پہ آ چمکا ہے
ورنہ بے نور دیاروں میں
چراغوں کا کوئی کام نہیں
***
بین۔3
کب تلک دل کو چھپا رکھیں گے
دکھ کے دیمک کی نظر پار اتر جاتی ہے
زندگی جیسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بسر ہوتی ہے
ناگہانی کسی بپھرے ہوئے وحشی کی طرح
روح کی دھول اڑا جاتی ہے
سکھ کی بے سود تمناؤں کی پاداش میں یکطرفہ سزا
آن گرتی ہے کسی غیب سے نادیدگی عدل کے پلڑوں پہ سفر کرتی ہوئی
سو رہے ہوتے ہیں تھک ہار کے پنچھی غم کے
ڈار کے ڈار آ جاتی ہے
کب تلک دل کو چھپا رکھیں گے
خون میں اتری ہوئی موت سے کیا اوجھل ہے
شاخ سے لپٹے ہوئے سانپ کی مانند بہت دھیرے سے
آشیانے کی طرف بڑھتی ہے
جھر جھری بھی نہیں لینے دیتی
بین عزت ہی سہی میت کی مگر بعد کی باتوں سے کبھی
سائباں جڑتے نہیں ٹوٹے ہوئے
آسماں زندہ نہیں ہو جاتے
آسماں مرتے ہیں اور وقت بگڑ جاتا ہے
آسماں مرتے ہیں اور شہر اجڑ جاتا ہے
کون سی صبح جگائیں گے سر عہد وفا، کون سی رات سلا رکھیں گے
صبر کو کوچہ آزاد و بیابان مسافت کی تہی مٹی پر
کب تلک ‘اور بھلا کس کس سے خفا رکھیں گے
کوئی آواز لوٹے گی
کوئی محروم دلاسہ بھی نہیں پلٹے گا
کب تلک دل کو چھپا رکھیں گے
سو گ کا سوگ منا لینے سے کیا ہوتا ہے
***
اسے مجھ سے محبت نہیں تھی
اسے مجھ سے محبت نہیں تھی
پھر بھی اس نے ہمیشہ تسلیم کیا
کہ میں اس کا آنے والا وقت ہوں
لیکن
اسے یہ علم نہیں تھا
کہ آنے والا وقت ہمیشہ دور ہی دکھائی دیتا ہے
اور پھر اچانک ہی گزر جاتا ہے
یہ بتائے بغیر
کہ وہ گزر رہا ہے
***
شاید اس طرح تم سمجھ جاؤ
تم نے کہا
بہت سارے ناموں میں لکھا ہوا نام
محبوب نہیں کہلا سکتا
اور بہت ساری تصویروں میں لگی ہوئی تصویر
پسندیدہ ترین
ثابت نہیں ہوتی
جبکہ میرا خیال یہ ہے کہ
بہت سارے نام نہیں ہوں گے تو ایک نام سر فہرست کس طرح آئے گا
اور سب سے زیادہ اپنا کیسے لگے گا
اور اگر کافی ساری تصویریں نہیں ہوں گی
تو ان میں سے ایک کو
اٹھا کر آنکھوں سے لگا لینے کی لذت
کیسے نصیب ہو سکتی ہے
میں کچھ کہہ نہیں سکتا
کہ میں اپنی بات سمجھانے میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں
تم یوں کرو
کہ کسی دن کسی قد آئینے کے سامنے
دیر تک خاموش بیٹھے خود کو جھانکتے رہو اور آنکھوں کو مل مل کے بار بار جھانکو
یا کسی گنبد میں
دیر تک اپنا نام لے کر زور زور سے آوازیں دو
اور پھر کبھی بہت سارے لوگوں کے درمیان خود کو دیکھو
اور بہت ساری آوازیں میں
اپنی آواز سنو
شاید اس طرح تم
زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکو
جو میں تمھیں سمجھانا چاہتا ہوں
باتوں سے پہلے بھی اور بعد بھی
باتوں کے درمیان بھی
اور کہیں باتوں کے پیچھے بہت اندر بھی
شام ہر روز کیوں آ جاتی ہے
اداس اور خاموش
اور سوگوار
تم ہر روز کیوں آ جاتے ہو
ہر روز اور بہت زیادہ
***
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks