تم جو چاہو
تو ہم
آج بھی اپنی سانسوں کا ہر سر
تمھیں سونپ دیں
صرف بیتی ہوئی چاہتوں کے عِوض
***
Similar Threads:
تم جو چاہو
تو ہم
آج بھی اپنی سانسوں کا ہر سر
تمھیں سونپ دیں
صرف بیتی ہوئی چاہتوں کے عِوض
***
Similar Threads:
Last edited by intelligent086; 09-02-2014 at 09:46 PM.
عشق اک مجنون بوڑھا دیوتا
عشق اک مجنون بوڑھا دیوتا
ناشناسائی پہ حیراں
بے حسی پر سخت نالاں دہر کی
ہاتھ میں اک لے کے پڑیا زہر کی
بال بکھرائے
سمیٹے دھجیاں ملبوس کی
پاؤں میں پہنے ہوئے زخموں کی نعلینِ کہن
پتھروں کو کھٹکھٹاتا پھر رہا ہے
ڈالتا پھرتا ہے نظریں قہر کی
اپنے جھولے میں لیے کچھ بت پرانے
اور کچھ گڑیاں کسی بیتے زمانے کی
نہ جانے زیر لب کیا بڑبڑاتا پھر رہا ہے
بے خبر ہے اپنی حالت سے
خلقت ہنس رہی ہے ہر گلی کے موڑ پر
اور سن رہا ہے سسکیاں بھی فطرت نمناک کی
پر بیچ رستوں کی لگامیں تھام کر بھی
کائناتوں تجردّ انگلیوں سے باندھ کر بھی
دل میں کوئی غم چھپائے پھر رہا ہے
وقت کی دھڑکن پہ رکھتا اپنے قدموں کے نشاں
چکرا رہا ہے
اڑتے پھرتے کاغذوں پتوں پروں کے درمیاں
ہنس رہا ہے
روتے روتے
رو رہا ہے ہنستے ہنستے
پتھروں، پتھر گروں کے درمیاں
عشق اک مجنون بوڑھا دیوتا
ہاتھ میں اک لے کے پڑیا زہر کی
***
ہم مسافر ہیں میری جان
ہم مسافر ہیں میری جان مسافر تیرے
ہم تو بارش سے بھی ڈر جاتے ہیں
اور دھوپ سے بھی
اپنے قدموں کے نشانوں سے مٹائیں جو لہو کے دھبے
راستے غصے میں آ جاتے ہیں
ہم مسافر ہںی
کرایوں کو ترستے ہوئے خیموں میں گھرے
گھر سے گھبرائے ہوئے یونہی ہوا کرتے ہیں
اجنبی شہروں کے وہموں میں پڑے
خوف اور عدم تحفظ سے چراتے ہیں نگاہیں
تو کہیں اور ہی جا پڑتے ہیں
کب تلک کون ہمیں رکھے گا مہمان محبت کے سوا
اور کسی روز ہمیں یہ بھی کہے گی کہ خدا ہی حافظ
ہم جو لوگوں سے جھجھکتے ہیں تو مجبوری ہے
ہم جو رستوں میں بھٹکتے ہیں تو محصوری ہے
ہم مسافر ہیں میری جان مسافر تیرے
ہم اگر تجھ سے بچھڑتے ہیں تو مہجوری ہے
***
پتے
پرانے زرد پتوں کے بہانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
یہ پتے خاک کا زیور نہیں تھے
یہ سارے ہی بلندی پر کہیں تھے
جو مارے مارے پھرتے ہیں دیوانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
ہیں اپنے درد کے ہمراز پتے
ہر اک موسم سے ہیں ناراض پتے
انھیں اب کون آئے گا منانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
یہ پیلے دل ہوا کے آسرے پر
پڑے ہیں بس خدا کے آسرے پر
کوئی آیا نہیں ان کو اٹھانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
کبھی شاخوں سے تھے پھوٹے پرندے
یہ ہرجائی بڑے جھوٹے پرندے
یہ پتے یہ خزاؤں کے فسانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
پرانے زرد پتوں کے بہانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
***
یادداشت
تمھیں یاد ہے؟
تم نے مجھے کبھی خط نہیں لکھا
اور نہ کبھی کوئی سندیسہ بھجوایا ہے
تم نے کبھی میرا انتظار نہیں کیا
اور نہ کبھی بلوا بھیجا ہے
تمھیں یاد ہے ؟
تم نے مجھے کبھی چُھوا نہیں
اور نہ کبھی خواہش کی ہے
تم نے کبھی کسی ایسی خواہش کا اظہار نہیں کیا جو میں چاہتا ہوں
نہ تم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ میں کیا چاہتا ہوں
تم نے کبھی کسی درخت پر میرا نام نہیں لکھا
کسی کاغذ پر بھی نہیں
تمھیں یاد ہے ؟
یاد ہے تمھیں ؟
نہیں نا ؟
مجھے تو سب کا سب
بہت بہت بہت اچھی طرح یاد ہے
آنکھوں کے پار چاند
اس کائنات رنگ میں
دنیائے سنگ میں
ہم قید تو نہیں تھے مگر
اس کے باوجود
آزادیوں نے لطف رہائی نہیں دیا
چاہا بہت کہ اپنے ہی اندر کبھی کہیں
اتریں، اتر کے خود کو تلاشیں کچھ اس طرح
ہاتھوں میں اپنا کھوج ہو
دل میں وصال آگ
پیروں میں آگہی کی بلندی راستے
لیکن بدن سے روح کی ان منزلوں کے بیچ
وہ رات تھی کہ کچھ بھی سمجھائی نہیں دیا
کوئی وجود تھا کہ جو طاری تھا ذات پر
آنکھوں کے پار چاند دکھائی نہیں دیا
***
محبت کرنے والی لڑکی
جیسے تپتے صحراؤ ں میں گم کردہ راہ مسافر
جیسے خالی رستوں پر مدتوں سے اٹکی ہوئی نمناک نگاہ
جیسے ویران ہو جانے والا جزیرہ
جیسے وسیع و عریض فضاؤ ں میں دور دور تک تنہا بدلی
یا
جیسے اجنبی شہر میں اپنوں سے بچھڑ جانے والی بچی
***
ِ
ساجن سیدھا سادہ
ابھی سے پوچھ رہا ہے مجھ سے ساجن سیدھا سادہ
تم کو پیار زیادہ ہے یا مجھ کو پیار زیادہ
جھوٹ بھی کہہ دو تب بھی مانوں
میں تو اپنا ہی جانوں
میں تم سے کچھ بھی نہ کہوں گی
کرتی ہوں یہ وعدہ
تم کو پیار زیادہ ہے یا مجھ کو پیار زیادہ
پیار کے لاکھوں دیپ جلائیں
اک دوجے کا ساتھ نبھائیں
اک دوجے کا مان رکھیں گے
کر لیں آج ارادہ
تم کو پیار زیادہ ہے یا مجھ کو پیار زیادہ
ویرانی کو شہر بنا دیں
چاند کا پہلا پہر بنا دیں
دل میں سب جیون آ جائے
اتنا کریں کشادہ
تم کو پیار زیادہ ہے یا مجھ کو پیار زیادہ
***
اے عشق مجھے آزاد کرو
کتنی ہی
زنجیریں
دل میں
نوکیلے تپتے آہن سے بھی
کہیں زیادہ چبھتی ہیں
اور گھٹن کی بوجھل دیواریں تو
جیسے پشت اور سینے پر تعمیر ہوئی ہوں
عجب عجب سے پچھتاوے
اور بلا جواز پیشمانی سی
سانسوں اور آنکھوں میں اکثر
پسی ہوئی مرچوں کی سُلگن دور دور تک بھر دیتی ہے
بے چینی کے حلقے روح کو
سختی سے جکڑے رکھتے ہیں
آنسو گلے کو
اندر سے پکڑے رکھتے ہیں
ہجر کی جیلیں
شہر کی جیلوں سے بڑھ چڑھ کر
عمر دبوچ لیا کرتی ہیں
جو کچھ کرنا ہو آخر میں
پہلے سوچ لیا کرتی ہیں
***
ِ
غم کے بیابان میں آ
ہم سفر
آ راہ کے کاٹنے چنیں
گر اسی میں کچھ سفر طے ہو گیا تو
اک غنیمت جان لیں گے
مان لیں گے کچھ سفر طے ہو گیا ہے
ورنہ ان راہوں میں تو اک خار کی تلوار بھی
کچھ کم نہیں ہے
ایک منزل پڑاؤ ان گنت
ایک پڑاؤ اور ہزاروں منزلیں
رنگ، خوشبو، چھاؤں، یخ بستہ شجر کا
اور سکوں کا کیوں کوئی دھوکہ سہیں، سپنے بنیں
لاشعور بے قراری
جسم کے گھاؤ سے بدتر ہے
کبھی تو آ
کھلی دیوانگی سے
دوسروں کے ساتھ اپنی بھی سبھی چیخیں سنیں
ہم سفر آ راہ کے کانٹے چنیں
***
پس کائنات
نیم عریاں شب نگوگوں
آنکھ میں
آنکھ میں خواب بھی
خواب بھی خوف کا
آندھیوں کے تلے
ذات کی ریت پر
بھید کی انگلیوں کے کسی چھید میں
جاگتی زندگی بھاگتی زندگی
نیم عریاں شب نیلگوں
درد میں
درد میں آس بھی
آس بھی موت کی
ایک دکھ کے تلے
ان گنت دائرے
دائروں میں گھری بے نوا زندگی بے وفا زندگی
نیم عریاں شب نیلگوں
شہر میں
شہر میں قہر میں
قہر بھی وقت کا
وقت کے بے بصر سائباں کے تلے
مسئلہ رخت کا
ہر گھڑی زہر کی دلدلوں میں بجھی
پل بہ پل اپنے پر نوچتی زندگی سوچتی زندگی
نیم عریاں شب نیلگوں
راکھ میں بھاگ بھی
بھاگ بھی جبر کے
صبر کرتے کراتے پہنچ آئے ہیں قبر کی آگ تک
آگ میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئیں
اتنی صدیاں مگر کچھ ملا ہے کہاں
سائباں، آسماں، آستاں سب جہاں رائیگاں
رائیگاں زندگی بے نشاں زندگی
نیم عریاں شب نیلگوں
خاک میں
خاک بھی خواب کی
خواب بھی خوف کا
خوف سے ہانپتی کانپتی زندگی
خوف سے ہانپتی کانپتی زندگی
***
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks