تم جو چاہو
تو ہم
آج بھی اپنی سانسوں کا ہر سر
تمھیں سونپ دیں
صرف بیتی ہوئی چاہتوں کے عِوض
***
Similar Threads:
تم جو چاہو
تو ہم
آج بھی اپنی سانسوں کا ہر سر
تمھیں سونپ دیں
صرف بیتی ہوئی چاہتوں کے عِوض
***
Similar Threads:
Last edited by intelligent086; 09-02-2014 at 09:46 PM.
رات اور دن کی بیابانی
رات اور دن کی بیابانی سے محسوس ہوا
کچھ نہ کچھ غائب ہے
کچھ نہ کچھ ایسا جسے ہونا تھا
تو، تیرے خواب، تمنائیں یا امید کوئی
منتظر دل، لب بے آب یا چشم پرنم
کوئی محرومی یا بے چینی کوئی
کچھ خلا ایسے بھی ہوتے ہیں کہ آ جاتی ہے رونق جن سے
عمر کے اجڑے ہوئے شہروں میں
زندگی ہوتی ہے کچھ زہروں میں
ہم جو تریاق سمجھ کر تجھے بھولے تو سمجھ آیا کہ جیون کیا ہے
تیرے آ جانے کی امید پہ اٹکی ہوئی سانسوں کی قسم
زندگی کچھ نیںک اندوہ بنا
تیرے اندوہ کو دیکھا ہے الگ کر کے تو پھر کچھ بھی نہیں باقی بچا
تیری یادوں میں بہائے ہوئے آنسو جیون
تیرے خوابوں سے بسائی ہوئی بستی جیون
تیرے زخموں سے سجایا ہوا رستہ جیون
رات اور دن کی بیابانی سے محسوس ہوا
ساری ویرانی تیرے بعد ہوئی ہے پیدا
***
Last edited by intelligent086; 08-24-2014 at 11:36 PM.
ویرانی
درد کی کالی کوٹھڑی میں
عمر قید کے سزا یافتہ
بے قرار اور گھبرائے ہوئے دل کا عالم
اور دل میں قدد
شکستہ اور کملائی ہوئی آرزوئیں
اور آرزوؤں میں بند
تھکا ہار اور شکست خوردہ انتظار
اور انتظار کے بعد
دور دور تک خلا اور کھوکھلا پن
خلا اور خاموشی دور دور تک
خاموشی اور ویرانی
***
خواب
میں نے تمہیں خواب میں دیکھا ہے
اور تم سے ملا ہوں
ایک دکھ دینے والے خواب میں
پھر بھی مجھے لگا میں بیدار ہو گیا ہوں
کسی گہری اور دھند آلود نیند سے
میری غمزدہ بیداری مجھے حیرت سے تکنے لگی
اور میں تمہیں تکنے لگا
تم مجھے ویسے نہیں لگے
جیسے تم ہو
میں نے تمہیں ایسا دیکھا
جیسے میرے دل میں تھا
ایک دکھ دینے والے خواب میں اور کیا دیکھا جا سکتا ہے
وہی نا ! جو سچ نہیں ہوتا
میں نے سوچا
مجھے سو جانا چاہیے
میں نے خواب کو لپیٹا اور تکیہ بنا کے
احتیاط کے ساتھ بستر کے نیچے رکھ لیا
***
یہاں تو کچھ بھی ممکن ہے
یہاں تو یہ بھی ممکن ہے
ہم اتنی دیر سے بچھڑے کبھی ملنے ملانے کو چلیں
تو بھاگ کر کوئی جدائی ساتھ ہی ہو لے
کبھی بازار کو جائیں تو تنہائی لپٹ جائے
یہاں تو یہ بھی ممکن ہے
کبھی ہم دیر سے گھر آئیں تو
باہر گلی میں بھیڑ ہو
گھر میں کوئی ماتم، کوئی کہرام برپا ہو
تو دل ٹکڑوں میں بٹ جائے
یہاں تو یہ بھی ممکن ہے
کسی میلے میں بھگدڑ سی مچے
گولی چلے
چیخیں سنائی دیں بہت
بارود پھٹ جائے
یہ جیون اور گھٹ جائے
***
مری جاں
میری جاں میں سمجھتا ہوں یہ راتیں چور ہوتی ہیں
ہماری نیند اور دُکھ سکھ چرا کر بھاگ جاتی ہیں
ذرا سوچو تو یہ نیندیں کہاں جاتی ہیں اڑ اڑ کر
مجھے لگتا ہے یہ نیندیں پیا کہاں جاتی ہیں اڑ اڑ کر
یہ راتیں کتنا کچھ آخر چھپا جاتی ہیں دامن میں
یہی راتیں ان گنت باتوں میں پر اسرار ہوتی ہیں
یہ بے چینی نہ جانے کیوں مجھے ٹکنے نہیں دیتی
ہمیں دیکھو ہمارا حال بھی کچھ کم نہیں تم سے
میں اکثر خواب میں بھی ڈھونڈتی رہتی ہوں خوشبو کو
تم اچھی ہو بہت ہی اور تمہارے خواب عمدہ ہیں
مگر یہ خواب اور خوشبو دکھوں میں چھوڑ جاتے ہیں
گھڑی بھر میں سفر کے عہد سارے توڑ جاتے ہیں
بتاؤ! بے وفا کہتے ہیں جن کو کون ہوتے ہیں
وہی جو آدھے رستے میں مہاریں موڑ جاتے ہیں
***
احساس کو حسیں بنایا
خیال کو جب حسیں بنایا میرے خدا نے
اندھیری شب میں دیا جلایا میرے خدا نے
یہ فاصلے سانپ بن کے جیون کو گھیر لیتے
یہ دشت جنگل پہاڑ تن من کو گھیر لیتے
مگر ہمیں راستہ دکھایا میرے خدا نے
ہمارے آنکھوں میں آنسوؤں کے دیے جلائے
چراغ سے پہلے جگنوؤں کے دیے جلائے
دلوں میں چاہت شجر اُگایا میرے خدا نے
خلاؤں میں قہمقوں سے چمکی فضا بکھیری
زمین پر خوشبوؤں میں ڈوبی ہوا بکھیری
جہان کو پھول سا کھلایا میرے خدا نے
***
وابستگی
میں اکثر بھول جاتا ہوں اسے
مجھ کو
اداسی یاد رکھتی ہے
دور دل میں اترنا پڑتا ہے
روح کی خاک چھاننے کے لیے
آپ کو خود نکلنا پڑتا ہے
اپنی ہی ذات جاننے کے لیے
سینکڑوں راتیں جاگتے گزریں
کشف کی رات جاننے کے لیے
زندگی کی نفی ضروری ہے
عشق کی بات ماننے کے لیے
منفیوں کی نفی بھی لازم ہے
کوئی اثبات جاننے کے لیے
اک رستہ اک غم
چاروں جانب پھیل گیا ہے
اک رستہ اک غم
جیسے کوئی دھیرے دھیرے
کھینچ رہا ہو دم
چاروں جانب
جہاں بھی جاؤں
ساتھ میں تیرا رستہ بھی آ جائے
جیسے ناری گَت لہرائے یا ناگن بل کھائے
یوں بھی نہ کوئی دل والوں کے تن من میں بس جائے
چاروں جانب
دِل سے تیرے دروازے تک تیری آس بچھی ہے
جہاں جہاں تک نظریں جائیں پیلی گھاس بچھی ہے
ساتھ میں اک رستہ ہے جس پر تیری باس بچھی ہے
چاروں جانب پھیل گیا ہے
آنکھوں میں کچھ آن بسا ہے مجھ کو ایسا لاگے
یا کوئی خواہش بل کھائے یا کوئی سپنا جاگے
یا تیرا رستہ ہے جاناں دل کے آگے آگے
چاروں جانب پھیل گیا ہے
اک رستہ اک غم
جیسے کوئی دھیرے دھیرے
کھینچ رہا ہو دم
***
عشق اک مجنون بوڑھا دیوتا
عشق اک مجنون بوڑھا دیوتا
ناشناسائی پہ حیراں
بے حسی پر سخت نالاں دہر کی
ہاتھ میں اک لے کے پڑیا زہر کی
بال بکھرائے
سمیٹے دھجیاں ملبوس کی
پاؤں میں پہنے ہوئے زخموں کی نعلینِ کہن
پتھروں کو کھٹکھٹاتا پھر رہا ہے
ڈالتا پھرتا ہے نظریں قہر کی
اپنے جھولے میں لیے کچھ بت پرانے
اور کچھ گڑیاں کسی بیتے زمانے کی
نہ جانے زیر لب کیا بڑبڑاتا پھر رہا ہے
بے خبر ہے اپنی حالت سے
خلقت ہنس رہی ہے ہر گلی کے موڑ پر
اور سن رہا ہے سسکیاں بھی فطرت نمناک کی
پر بیچ رستوں کی لگامیں تھام کر بھی
کائناتوں تجردّ انگلیوں سے باندھ کر بھی
دل میں کوئی غم چھپائے پھر رہا ہے
وقت کی دھڑکن پہ رکھتا اپنے قدموں کے نشاں
چکرا رہا ہے
اڑتے پھرتے کاغذوں پتوں پروں کے درمیاں
ہنس رہا ہے
روتے روتے
رو رہا ہے ہنستے ہنستے
پتھروں، پتھر گروں کے درمیاں
عشق اک مجنون بوڑھا دیوتا
ہاتھ میں اک لے کے پڑیا زہر کی
***
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks