افشائےرازِ عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن اُسےجتا تو دیا، جان تو گیا
گو نامہبر سے خوش نہ ہوا، پر ہزار شکر
مجھ کووہ میرے نام سے پہچان تو گیا
بزمِ عدومیں صورت پروانہ دل میرا
گو رشکسے جلا تیرے قربان تو گیا
ہوش وہواس و تاب و تواںداغجا چکے
اب ہمبھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
بت کو بت اور خدا کو جو خدا کہتے ہیں
ہم بھی دیکھیں تو اسے دیکھ کے کیا کہتے ہیں
پہلے تو داغ کی تعریف ہوا کرتی تھی
اب خدا جانے وہ کیوں اس کو برا کہتے ہیں
چھپ کر کہاں گئے تھے وہ شب کو کہ میرے گھر
سو بار آ کے ان کا نگہبان پھر گیا
رونق جو آ گئی پسینے سے موت کے
پانی ترے مریض پر اک آن پھر گیا
گریے نے ایک دم میں بنا دی وہ گھر کی شکل
میری نظر میں صاف بیابان پھر گیا
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks