زیر بار اُس کے ہوئے ایسے، نہ رُخ موڑا گیا
ہوتے ہوتے درد سے ایسی سفارت ہو گئی
رہبری کا اہل ٹھہرا ہے وہی اپنے یہاں
رہزنی کے باب میں جس کو مہارت ہو گئی
لمس اُس پارس کا سپنوں تک کو کندن کر گیا
اُس کے دم سے اپنی غربت بھی امارت ہو گئی
کھٹکا ہے یہ، کسی بھی پھسلتی چٹان پر
ٹوٹے نہ یہ غضب بھی ہماری ہی جان پر
یک بارگی بدن جو پروتا چلا گیا
ایسا بھی ایک تیر چڑھا تھا کمان پر
تاریخ میں نہ تھی وہی تحریر ، لازوال
جو خون رہ گیا تھا عَلَم پر، نشان پر
کیلنڈر کا ہر ہندسہ سمجھائے مجھے
اپنے تساہل پر کیوں شرم نہ آئے مجھے
درس نہیں ہوں، میں ہوں اکائی زینے کی
وقت کا بالک کاہے کو دُہرائے مجھے
جو حرفِ حق ہے اُسے، دلنشیں بنانے کو
کچھ اور سابقے اور لاحقے تلاش کروں
There are currently 7 users browsing this thread. (0 members and 7 guests)
Bookmarks