Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
سمجھو وہاں پھلدار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جِس میں کوئی پتھر نہیں گرتا
اِتنا تو ہوا فائدہ بارش کی کمی سے
اِس شہر میں اب کوئی پھسل کر نہیں گرتا
انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی
اتنا تو کبھی کوئی سخنور نہیں گرتا
حیراں ہے کوئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کوئی کنکر نہیں گرتا
اس بندۂ خوددار پہ نبیوں کا ہے سایا
جو بھوک میں بھی لقمۂ تر پر نہیں گرتا
کرنا ہے جو سر معرکۂ زیست تو سُن لے
بے بازوئے حیدر، درِ خیبر نہیں گرتا
قائم ہے قتیل اب یہ میرے سر کے ستوں پر
بھونچال بھی آئے تو مرا گھر نہیں گرتا
یارو کہاں تک محبت نبھاؤں میں
دو مجھ کو بددعا کہ اسے بھول جاؤں میں
دل تو جلا گیا ہے وہ شعلہ سا آدمی
اب کس کو چھو کے اپنا ہاتھ جلاؤں میں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks