_________________________________
__________________
Similar Threads:
_________________________________
__________________
Similar Threads:
Last edited by intelligent086; 09-02-2014 at 10:02 PM.
تری ہر پرت میں کوئی پرت نہیں چاہتا
میں پیاز ایسی کہیں صفت نہیں چاہتا
اسے رقص گاہ میں دیکھنا کبھی مست مست
مرے دوستو میں اسے غلط نہیں چاہتا
کسی ذہن میں ، کسی خاک پر یا کتاب میں
میں یزید کی کہیں سلطنت نہیں چاہتا
مرے چشم و لب میں کرختگی ہے شعور کی
میں سدھارتھا، ترے خال وخط نہیں چاہتا
فقط ایک جام پہ گفتگو مری شان میں
سرِ شام ایسی منافقت نہیں چاہتا
مرے ساتھ شہر نے جو کیا مجھے یاد ہے
میں کسی کی کوئی بھی معذرت نہیں چاہتا
شکست ِجاں سے حصارِ الم کو توڑ دیا
ہزار ٹوٹ کے بھی طوقِ غم کو توڑ دیا
یہ احتجاج کا لہجہ نہیں بغاوت ہے
لکھے کو آگ لگا دی قلم کو توڑ دیا
قریب تر کسی پب کے مری رہائش تھی
اسی قرابت ِ مے نے قسم کو توڑ دیا
قدم قدم پہ دل ِمصلحت زدہ رکھ کر
کسی نے راہ ِ وفا کے بھرم کو توڑ دیا
ہزار بار کہانی میں میرے ہیرو نے
دعا کی ضرب سے دست ِستم کو توڑ دیا
سلام اس کی صلیبوں بھری جوانی پر
وہ جس نے موت کے جاہ و حشم کو توڑ دیا
یہ انتہائے کمالِ شعور ہے منصور
یہی کہ کعبہ ء دل کے صنم کو توڑ دیا
وہ بات نہیں کرتا، دشنام نہیں دیتا
کیا اس کی اجازت بھی اسلام نہیں دیتا
بندوق کے دستے پر تحریر تھا امریکا
میں قتل کا بھائی کو الزام نہیں دیتا
کچھ ایسے بھی اندھے ہیں کہتے ہیں خدا اپنا
پیشانی پہ سورج کی کیوں نام نہیں دیتا
رستے پہ بقا کے بس قائم ہے منافع بخش
اُس پیڑ نے کٹنا ہے جو آم نہیں دیتا
اب سامنے سورج کے یہ اشکِ مسلسل کی
برسات نہیں چلتی ،غم کام نہیں دیتا
جو پہلے پہل مجھ کو بازار میں ملتے تھے
کوئی بھی خریدار اب وہ دام نہیں دیتا
بیڈ اپنا بدل لینا منصور ضروری ہے
یہ خواب دکھاتا ہے ، آرام نہیں دیتا
کوئی چہرہ کوئی مہتاب دکھائی دیتا
نیند آتی تو کوئی خواب دکھائی دیتا
خواہشیں خالی گھڑے سر پہ اٹھا لائی ہیں
کوئی دریا کوئی تالاب دکھائی دیتا
ڈوبنے کو نہ سمندر نہ کوئی چشم ِ سیہ
جام ہی میں کوئی گرداب دکھائی دتیا
توُ وہ ریشم کہ مرا ٹاٹ کا معمولی بدن
تیرے پیوند سے کمخواب دکھائی دیتا
دوستو آگ بھری رات کہاں لے جائوں
کوئی خس خانہ و برفاب دکھائی دیتا
دل میں چونا پھری قبروں کے اِمٰج ہیں منصور
کیسے میں زندہ و شاداب دکھائی دیتا
گھر سے سفید داڑھی حاجی پہن کے نکلا
پھر سود خور کیسی نیکی پہن کے نکلا
خوشبو پہن کے نکلامیں دل کے موسموں میں
اور جنگ کے رُتوں میں وردی پہن کے نکلا
کیسا یہ’’گے ادب ‘‘کا افتی مباحثہ تھا
ہر مرد گفتگو میں تلخی پہن کے نکلا
لندن کے اک کلب سے بلی کی کج روی پر
ساقی کے ساتھ میں بھی وسکی پہن کے نکلا
شہوت عروج پر تھی آنکھوںمیں ڈاکیے کی
چلمن سے ہاتھ کیا وہ مہندی پہن کے نکلا
بازار ِجسم و جاں میں کہرا جما ہوا تھا
میں لمس کی دکاں سے گرمی پہن کے نکلا
کہتے ہیں چشم ولب کی بارش میں وسوسے ہیں
منصور دوپہر میں چھتری پہن کے نکلا
موسموں کا رزق دونوں پر بہم نازل ہوا
پھول اترا شاخ پراور مجھ پہ غم نازل ہوا
اپنے اپنے وقت پر دونوں ثمرآور ہوئے
پیڑ کو ٹہنی ملی مجھ پر قلم نازل ہوا
اوس کی مانند اُترا رات بھر مژگاں پہ میں
پھر کرن کا دکھ پہن کر صبح دم نازل ہوا
میں نے مٹی سے نکالے چند آوارہ خیال
آسمانوں سے کلامِ محترم نازل ہوا
یوں ہوا منصور کمرہ بھر گیا کرنوں کے ساتھ
مجھ پہ سورج رات کو الٹے قدم نازل ہوا
میری آنکھوں پر مرا حسن نظر نازل ہوا
دیکھنا کیا ہے مگر یہ سوچ کر نازل ہوا
اس پہ اترا بات کو خوشبو بنا دینے کا فن
مجھ پہ اس کو نظم کرنے کا ہنر نازل ہوا
کوئی رانجھے کی خبردیتی نہیں تھی لالٹین
ایک بیلے کا اندھیرا ہیر پر نازل ہوا
اس محبت میں تعلق کی طوالت کا نہ پوچھ
اک گلی میں زندگی بھر کا سفر نازل ہوا
وقت کی اسٹیج پربے شکل ہوجانے کا خوف
مختلف شکلیں بدل کر عمربھر نازل ہوا
جاتی کیوں ہے ہر گلی منصور قبرستان تک
یہ خیالِ زخم خوردہ دربدر نازل ہوا
کیا خواب تھا ، پیکر مرا ہونٹوں سے بھرا تھا
انگ انگ محبت بھرے بوسوں سے بھرا تھا
کل رات جو کمرے کا بجھایا نہیں ہیٹر
اٹھا تو افق آگ کے شعلوں سے بھرا تھا
ہلکی سی بھی آواز کہیں دل کی نہیں تھی
مسجد کا سپیکر تھا صدائوں سے بھرا تھا
اونچائی سے یک لخت کوئی لفٹ گری تھی
اور لوہے کا کمرہ بھی امنگوں سے بھرا تھا
اک ،پائوں کسی جنگ میں کام آئے ہوئے تھے
اک راستہ بارودی سرنگوں سے بھرا تھا
آوارہ محبت میں وہ لڑکی بھی بہت تھی
منصور مرا شہر بھی کتوں سے بھرا تھا
یاد کچھ بھی نہیں کہ کیا کچھ تھا
نیند کی نوٹ بک میں تھا ، کچھ تھا
میں ہی کچھ سوچ کر چلا آیا
ورنہ کہنے کو تھا ، بڑا کچھ تھا
چاند کچھ اور کہہ رہا تھا کچھ
دل ِ وحشی پکارتا کچھ تھا
اس کی پائوں کی چاپ تھی شاید
یہ یونہی کان میں بجا کچھ تھا
میں لپٹتا تھا ہجر کی شب سے
میرے سینے میں ٹوٹتا کچھ تھا
کُن سے پہلے کی بات ہے کوئی
یاد پڑتا ہے کچھ ، کہا کچھ تھا
آنکھ کیوں سوگوار ہے منصور
خواب میں تو معاملہ کچھ تھا
سیاہ رنگ کا امن و سکوں تباہ ہوا
سفید رنگ کا دستور کجکلاہ ہوا
زمیں سے کیڑے مکوڑے نکلتے آتے ہیں
ہمارے ملک میں یہ کون بادشاہ ہوا
کئی دنوں سے زمیںدھل رہا ہے بارش سے
امیرِ شہر سے کیسا یہ پھر گناہ ہوا
شرارِ خاک نکلتا گرفت سے کیسے
دیارِ خاک ازل سے جنازہ گاہ ہوا
وہ شہر تھا کسی قربان گاہ پر آباد
سو داستان میں بغداد پھر تباہ ہوا
جلے جو خیمے تو اتنا اٹھا دھواں منصور
ہمیشہ کے لئے رنگ ِعلم سیاہ ہوا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks