_________________________________
__________________
Similar Threads:
_________________________________
__________________
Similar Threads:
Last edited by intelligent086; 09-02-2014 at 10:02 PM.
کسی کا نام مکاں کی پلیٹ پر لکھا
یہ انتظار کدہ ہے ، یہ گیٹ پر لکھاا
پھر ایک تازہ تعلق کو خواب حاضر ہیں
مٹا دیا ہے جو پہلے سلیٹ پر لکھا
میں دستیاب ہوں ، اک بیس سالہ لڑکی نے
جوارِ ناف میں ہیروں سے پیٹ پر لکھا
لکھا ہوا نے کہ بس میری آخری حد ہے
’اب اس اڑان سے اپنے سمیٹ پر‘ لکھا
جہانِ برف پگھلنے کے بین لکھے ہیں
ہے نوحہ آگ کی بڑھتی لپیٹ پر لکھا
جناب ِ شیخ کے فرمان قیمتی تھے بہت
سو میں نے تبصرہ ہونٹوں کے ریٹ پر لکھا
ہے کائنات تصرف میں خاک کے منصور
یہی فلک نے زمیں کی پلیٹ پر لکھا
آنکھیں مری تھیں جھیل سا سپنا کہیں کا تھا
مرغابیوں کا سرمئی جوڑا کہیں کا تھا
اے دھوپ گھیر لائی ہے میری ہوا جسے
وہ آسماں پہ ابر کا ٹکرا کہیں کا تھا
کچھ میں بھی تھک گیا تھا طوالت سے شام کی
کچھ اس کا انتظار کمینہ کہیں کا تھا
جلنا کہاں تھا دامنِ شب میں چراغِ غم
پھیلا ہوا گلی میں اجالا کہیں کا تھا
حیرت ہے جا رہا ہے ترے شہر کی طرف
کل تک یہی تو تھا کہ یہ رستہ کہیں کا تھا
پڑھنے لگا تھا کوئی کتابِ وفا مگر
تحریر تھی کہیں کی ، حوالہ کہیں کا تھا
چہرہ بھی اپنا تھا ، مری آنکھیں بھی اپنی تھیں
شیشے میں عنکبوت کا جالا کہیں کا تھا
آخر خبر ہوئی وہی میرا مکان ہے
منظر جو آنکھ کو نظر آتا کہیں کا تھا
کھلتی کسی چراغ پہ کیسے شبِ فراق
آنکھیں کہیں لگی تھیں دریچہ کہیں کا تھا
کیا پوچھتے ہو کتنی کشش ہے گناہ میں
آیا کہیں ہوں اور ارادہ کہیں کا تھا
اتری کہیں پہ اور مرے وصل کی اڑان
منصور پاسپورٹ پہ ویزہ کہیں کا تھا
جب قریہ ء فراق مری سرزمیں ہوا
برق تجلٰی اوڑھ لی سورج نشیں ہوا
جا کر تمام زندگی خدمت میں پیش کی
اک شخص ایک رات میں اتنا حسیں ہوا
میں نے کسی کے جسم سے گاڑی گزار دی
اور حادثہ بھی روح کے اندر کہیں ہوا
ڈر ہے کہ بہہ نہ جائیں در و بام آنکھ کے
اک اشک کے مکاں میں سمندر مکیں ہوا
ہمت ہے میرے خانہ ء دل کی کہ بار بار
لٹنے کے باوجود بھی خالی نہیں ہوا
منظر جدا نہیں ہوا اپنے مقام سے
ہونا جہاں تھا واقعہ بالکل وہیں ہوا
کھڑکی سے آ رہا تھا ابھی تو نظر مجھے
یہ خانماں خراب کہاں جاگزیں ہوا
سینے کے بال چھونے لگی ہے دھکتی سانس
منصور کون یاد کے اتنے قریں ہوا
اس نے پہلے مارشل لاء مرے انگن میں رکھا
میری پیدائش کا لمحہ پھر اسی سن میں رکھا
صحن میں پھیلی ہوئی ہے گوشت جلنے کی سڑاند
جیسے سینے میں نہیں کچھ اس نے اوون میں رکھا
جب سوئمنگ پول کے شفاف پانی سے ملی
موتیوں والا فقط اک ہار گردن میں رکھا
ہونٹ ہیٹر پہ رکھے تھے اس کے ہونٹوں پر نہیں
تھا جہنم خیز موسم اس کے جوبن میں رکھا
سانپ کو اس نے اجازت ہی نہیں دی وصل کی
گھر کے دروازے سے باہر دودھ برتن میں رکھا
میں اسے منصور بھیجوں کس لئے چیتر کے پھول
جس نے سارا سال مجھ کو غم کے ساون میں رکھا
پیڑ پر شعر لگے ، شاخ سے ہجراں نکلا
اور اس ہجر سے پھر میرا دبستاں نکلا
رات نکلی ہیں پرانی کئی چیزیں اس کی
اور کچھ خواب کے کمرے سے بھی ساماں نکلا
نقش پا دشت میں ہیں میرے علاوہ کس کے
کیا کوئی شہر سے پھر چاک گریباں نکلا
خال و خد اتنے مکمل تھے کسی چہرے کے
رنگ بھی پیکرِ تصویر سے حیراں نکلا
لے گیا چھین کے ہر شخص کا ملبوس مگر
والی ء شہر پناہ ، بام پہ عریاں نکلا
صبح ہوتے ہی نکل آئے گھروں سے پھر لوگ
جانے کس کھوج میںپھر شہر ِ پریشاں نکلا
وہ جسے رکھا ہے سینے میں چھپا کر میں نے
اک وہی آدمی بس مجھ سے گریزاں نکلا
زخم ِ دل بھرنے کی صورت نہیں کوئی لیکن
چاکِ دامن کے رفو کا ذرا امکاں نکلا
ترے آنے سے کوئی شہر بسا ہے دل میں
یہ خرابہ تو مری جان ! گلستاں نکلا
زخم کیا داد وہاں تنگی ء دل کی دیتا
تیر خود دامنِ ترکش سے پُر افشاں نکلا
رتجگے اوڑھ کے گلیوں کو پہن کے منصور
جو شب ِ تار سے نکلا وہ فروزاں نکلا
آپ کا غم ہی علاجِ غم دوراں نکلا
ورنہ ہر زخم نصیب سر مژگاں نکلا
اور کیا چیز مرے نامہ ء اعمال میں تھی
آپ کا نام تھا بخشش کا جو ساماں نکلا
محشرِ نور کی طلعت ہے ،ذرا حشر ٹھہر
آج مغرب سے مرا مہر درخشاں نکلا
آپ کی جنبشِ لب دہر کی تقدیر بنی
چشم و ابرو کا چلن زیست کا عنواں نکلا
ظن و تخمین ِ خرد اور مقاماتِ حضور؟
شیخ عالم تھا مگر بخت میں ناداں نکلا
جب بھی اٹھی کہیں تحریک سحر کی منصور
غور کرنے پہ وہی آپ کا احساں نکلا
درد مرا شہباز قلندر ، دکھ ہے میرا داتا
شام ہے لالی شگنوں والی ، رات ہے کالی ماتا
اک پگلی مٹیار نے قطرہ قطرہ سرخ پلک سے
ہجر کے کالے چرخ ِکہن پر شب بھرسورج کاتا
پچھلی گلی میں چھوڑ آیا ہوں کروٹ کروٹ یادیں
اک بستر کی سندر شکنیں کون اٹھا کر لاتا
شہرِ تعلق میں اپنے دو ناممکن رستے تھے
بھول اسے میں جاتا یا پھر یاد اسے میں آتا
ہجرت کر آیا ہے ایک دھڑکتا دل شاعر کا
پاکستان میں کب تک خوف کو لکھتا موت کو گاتا
مادھولال حسین مرا دل ، ہر دھڑکن منصوری
ایک اضافی چیز ہوں میں یہ کون مجھے سمجھاتا
وارث شاہ کا وہ رانجھا ہوں ہیر نہیں ہے جس کی
کیسے دوہے بُنتا کیسے میں تصویر بناتا
ہار گیا میں بھولا بھالا ایک ٹھگوں کے ٹھگ سے
بلھے شاہ سا ایک شرابی شہر کو کیا بہکاتا
میری سمجھ میں آ جاتا گر حرف الف سے پہلا
باہو کی میں بے کا نقطہ بن بن کر مٹ جاتا
ذات محمد بخش ہے میری۔۔شجرہ شعر ہے میرا
اذن نہیں ہے ورنہ ڈیرہ قبرستان لگاتا
میں ہوں موہجوداڑو۔مجھ میں تہذبیوں کی چیخیں
ظلم بھری تاریخیں مجھ میں ، مجھ سے وقت کا ناطہ
ایک اکیلا میں منصور آفاق کہاں تک آخر
شہرِ وفا کے ہر کونے میں تیری یاد بچھاتا
پیر فرید کی روہی میں ہوں ، مجھ میں پیاس کا دریا
ڈوب گیا ہے تھل مارو میں میری آس کا دریا
عمرِ رواں کے ساحل پر اوقات یہی ہیں دل کے
صبح طلب کی بہتی کشتی ، شب وسواس کا دریا
سورج ڈھالے جاسکتے تھے ہر قطرے سے لیکن
یوں ہی بہایا میں نے اشکوں کے الماس کا دریا
جس کے اک اک لمحے میں ہے صدیوں کی خاموشی
میرے اندر بہتا جائے اس بن باس کا دریا
لوگ ہیں آبِ چاہ شباں کے لوگ حمام سگاں کے
شہر میں پانی ڈھونڈھ رہے ہو چھوڑ کے پاس کا دریا
تیری طلب میں رفتہ رفتہ میرے رخساروں پر
سوکھ رہا ہے قطرہ قطرہ تیز حواس کا دریا
سورج اک امید بھرا منصور نگر ہے لیکن
رات کو بہتا دیکھوں اکثر خود میں یاس کا دریا
ایک حیرت کدہ ہے نگر رات کا
آسمانوں سے آگے سفر رات کا
بام و در تک گریزاں سویروں سے ہیں
میرے گھر سے ہوا کیا گزر رات کا
صبح نو تیرے چہرے کے جیسی سہی
جسم ہے برگزیدہ مگر رات کا
چل رہا ہوں یونہی کب کڑی دھوپ میں
آ رہا ہے ستارہ نظر رات کا
پوچھ منصور کی چشمِ بے خواب سے
کتنا احسان ہے شہر پر رات کا
میں جنابِ صدر ملازمت نہیں چاہتا
مگر اب فریب کی سلطنت نہیں چاہتا
مرا دین صبح کی روشنی مری موت تک
میں شبوں سے کوئی مصالحت نہیں چاہتا
میں حریصِ جاہ و حشم نہیں اِسے پاس رکھ
یہ ضمیر زر سے مباشرت نہیں چاہتا
کرے آکے گفت و شیند مجھ سے چراغ بس
کسی شب زدہ کی مشاورت نہیں چاہتا
میں کنارِ آب رواں نہیں شبِ یاد میں
کسی چاندنی سے مناسبت نہیں چاہتا
مجھے موت تیرے محاصرے میں قبول ہے
میں عدو سے کوئی مفاہمت نہیں چاہتا
شبِ ظلم سے میں لڑوں گا آخری وار تک
کوئی ظالموں سے مطابقت نہیں چاہتا
مجھے جلتی کشیاں دیکھنے کی طلب نہیں
میں مزاحمت میں مراجعت نہیں چاہتا
مرے پاس اب کوئی راستہ نہیں صلح کا
مجھے علم ہے تُو مخالفت نہیں چاہتا
انہیں ’بھوربن‘ کی شکار گاہ عزیز ہے
ترا لشکری کوئی پانی پت نہیں چاہتا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks