موجوں کے آس پاس کوئی گھر بنا لیا
بچے نے اپنے خواب کا منظر بنا لیا

اپنی سیاہ بختی کا اتنا رکھا لحاظ
گوہر ملا تو اس کو بھی کنکر بنا لیا

بدلی رُتوں کو دیکھ کے اک سرخ سا نشاں
ہر فاختہ نے اپنے پروں پر بنا لیا

شفاف پانیوں کے اجالوں میں تیرا روپ
دیکھا تو میں نے آنکھ کر پتھر بنا لیا

ہر شام بامِ دل پہ فروزاں کئے چراغ
اپنا مزار اپنے ہی اندر بنا لیا

پیچھے جوچل دیا میرے سائے کی شکل میں
میں نے اُس ایک فرد کو لشکر بنا لیا

اس کی گلی تھی جاں سے گزرنا تھا زندگی
سو موت کو حیات سے بہتر بنا لیا

شاید ہر اک جبیں کا مقدر ہے بندگی
مسجد اگر گرائی تو مندر بنا لیا

کھینچی پلک پلک کے برش سے سیہ لکیر
اک دوپہر میں رات کا منظر بنا لیا

پھر عرصہ ء دراز گزارا اسی کے بیچ
اک واہموں کا جال سا اکثر بنا لیا

بس ایک بازگشت سنی ہے تمام عمر
اپنا دماغ گنبد ِ بے در بنا لیا

باہر نکل رہے ہیں ستم کی سرنگ سے
لوگوں نے اپنا راستہ مل کر بنا لیا

گم کرب ِ ذات میں کیا یوں کرب ِ کائنات
آنکھوں کے کینوس پہ سمندر بنا لیا

منصور بام و در پہ جلا کر چراغِ دل
ہجراں کو میں نے کوچہ ء دلبر بنا لیا