پاداش
کبھی اس سبک روندی کے کنارے گئے ہی نہیں ہو
تمہیں کیا خبر ہے
وہاں ان گنت کھر درے پتھروں کو
سجل پانیوں نے
ملائم رسلیے مدھر گیت گا کر
امٹ چکنی گولائیوں کو ادا سونپ دی ہے
وہ پتھر نہیں تھا
جسے تم نے بے ڈول ان گھڑ سمجھ کر
پرانی چٹانو سے ٹکرا کے توڑا
اب اس کے سلگتے تراشے
اگر پاؤں میں چبھ گئے ہیں
تو کیوں چیختے ہو؟
Bookmarks