کشتیِ زیست سلامت ہے نہ پتوار یہاں

موج در موج ہیں سو رنگ کے منجدھار یہاں



ہم سفر چھوٹ گئے، راہنما روٹھ گئے

یوں بھی آسان ہوئی منزلِ دشوار یہاں



تیرگی ٹوٹ پڑی، دور سے بادل گرجا

بجھ گئی سہم کے قندیلِ رخِ یار یہاں



کتنے طوفان اٹھے، کتنے ستارے ٹوٹے

پھر بھی ڈوبا نہیں اب تک دلِ بیدار یہاں



میرے زخمِ کفِ پا چومنے آئے گی بہار

میں اگر مر بھی گیا وادیِ پُر خار یہاں