تارے ہیں نہ ماہتاب یارو

کچھ اس کا بھی سدِّ باب یارو



آنکھوں میں چتائیں جل رہی ہیں

ہونٹوں پہ ہے آب آب یارو



تا حدِّ خیال ریگ صحرا

تا حدِّ نظر سراب یارو



رہبر ہی نہیں ہے ساتھ اپنے

رہزن بھی ہے ہم رکاب یارو



شعلے سے جہاں لپک رہے ہیں

برسے گا وہیں سحاب یارو