اس بت کدے میں تو جو حسیں تر لگا مجھے

اپنے ہی اک خیال کا پیکر لگا مجھے

جب تک رہی جگر میں لہو کی ذرا سی بوند

مٹھی میں اپنی بند سمندر لگا مجھے

مرجھا گیا جو دل میں اجالے کا سُرخ پھول

تاروں بھرا یہ کھیت بھی بنجر لگا مجھے

اب یہ بتا کہ روح کے شعلے کا کیا ہے رنگ

مَرمَر کا یہ لباس تو سندر لگا مجھے

کیا جانیے کہ اتنی اداسی تھی رات کیوں

مہتاب اپنی قبر کا پتھّر لگا مجھے

آنکھوں کو بند کر کے بڑی روشنی ملی

مدھّم تھا جو بھی نقش، اُجاگر لگا مجھے

یہ کیا کہ دل کے دیپ کی لَو ہی تراش لی

سورج اگر ہے، کرنوں کی جھالر لگا مجھے

صدیوں میں طے ہوا تھا بیاباں کا راستہ

گلشن کو لَوٹتے ہوئے پل بھر لگا مجھے

میں نے اسے شریکِ سفر کر لیا شکیبؔ

اپنی طرح سے چاند جو بے گھر لگا مجھے