Page Reserved 4 introduction of Poet
Similar Threads:
Page Reserved 4 introduction of Poet
Similar Threads:
Last edited by intelligent086; 09-02-2014 at 10:00 PM.
کون جانے کہاں ہے شہرِ سکوں
قریہ قریہ بھٹک رہا ہے جنوں
نورِ منزل مجھے نصیب کہاں
میں ابھی حلقۂ غبار میں ہوں
یہ ہے تاکید سننے والوں کی
واقعہ خوشگوار ہو تو کہوں
کن اندھیروں میں کھو گئی ہے سحر
چاند تاروں پہ مار کر شب خوں
تم جسے نورِ صبح کہتے ہو
میں اسےگردِ شام بھی نہ کہوں
اب تو خونِ جگر بھی ختم ہوا
میں کہاں تک خلا میں رنگ بھروں
جی میں آتا ہے اے رہِ ظلمت
کہکشاں کو مروڑ کر رکھ دوں
کہاں رکیں گے مسافر نئے زمانوں کے
بدل رہا ہے جنوں زاوئے اُڑانوں کے
یہ دل کا زخم ہے اک روز بھر ہی جائے گا
شگاف پُر نہیں ہوتے فقط چٹانوں کے
چھلک چھلک کے بڑھا میری سمت نیند کا جام
پگھل پگھل کے گرے قفل قید خانوں کے
ہوا کے دشت میں تنہائی کا گزر ہی نہیں
مرے رفیق ہیں مُطرِب گئے زمانوں کے
کبھی ہمارے نقوشِ قدم کو ترسیں گے
وہی جو آج ستارے ہیں آسمانوں کے
میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں
مرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں
سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں
صحرا کی بود باش ہے اچھی نہ کیوں لگے
سوکھی ہوئی گلاب کی ٹہنی گلاس میں
چمکے نہیں نظر میں ابھی نقش دور کے
مصروف ہوں ابھی عملِ انعکاس میں
دھوکے سے اس حسیں کو اگر چوم بھی لیا
پاؤ گے دل کا زہر لبوں کی مٹھاس میں
تارہ کوئی ردائے شبِ ابر میں نہ تھا
بیٹھا تھا میں اداس بیابان یاس میں
جوئے روانِ دشت! ابھی سوکھنا نہیں
ساون ہے دور، اور وہی شدّت کی پیاس ہے
رہتا تھا سامنے ترا چہرہ کھلا ہوا
پڑھتا تھا میں کتاب یہی ہر کلاس میں
کانٹوں کی باڑھ پھاند گیا تھا مگر شکیبؔ
رستہ نہ مل سکا مجھے پھولوں کی باس میں
تارے ہیں نہ ماہتاب یارو
کچھ اس کا بھی سدِّ باب یارو
آنکھوں میں چتائیں جل رہی ہیں
ہونٹوں پہ ہے آب آب یارو
تا حدِّ خیال ریگ صحرا
تا حدِّ نظر سراب یارو
رہبر ہی نہیں ہے ساتھ اپنے
رہزن بھی ہے ہم رکاب یارو
شعلے سے جہاں لپک رہے ہیں
برسے گا وہیں سحاب یارو
وہی جھکی ہوئی بیلیں، وہی دریچا تھا
مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا
میں لوٹ آیا ہوں خاموشیوں کے صحرا سے
وہاں بھی تیری صدا کا غبار پھیلا تھا
قریب تیر رہا تھا بطوں کا ایک جوڑا
میں آب جو کے کنارے اداس بیٹھا تھا
شب سفر تھی قبا تیرگی کی پہنے ہوئے
کہیں کہیں پہ کوئی روشنی کا دھبا تھا
بنی نہیں جو کہیں پر، کلی کی تربت تھی
سنا نہیں جو کسی نے، ہوا کا نوحہ تھا
یہ آڑھی ترچھی لکیریں بنا گیا ہے کون
میں کیا کہوں مرے دل کا ورق تو سادا تھا
میں خاکداں سے نکل کر بھی کیا ہوا آزاد
ہر اک طرف سے مجھے آسماں نے گھیرا تھا
اُتر گیا ترے دل میں تو شعر کہلایا
میں اپنی گونج تھا اور گنبدوں میں رہتا تھا
اِدھر سے بارہا گزرا مگر خبر نہ ہوئی
کہ زیرِ سنگ خُنُک پانیوں کا چشما تھا
وہ اس کا عکس بدن تھا کہ چاندنی کا کنول
وہ نیلی جھیل تھی یا آسماں کا ٹکڑا تھا
میں ساحلوں میں اترا کر شکیبؔ کیا لیتا
ازل سے نام مرا پانیوں پہ لکھا تھا
اتریں عجیب روشنیاں رات خواب میں
کیا کیا نہ عکس تیر رہے تھے سراب میں
کب سے ہیں ایک حرف پہ نظریں جمی ہوئی
وہ پڑھ رہا ہوں جو نہیں لکھا کتاب میں
پانی نہیں کہ اپنے ہی چہرے کو دیکھ لوں
منظر زمیں کے ڈھونڈتا ہوں ماہتاب میں
پھر تیرگی کے خواب سے چونکا ہے راستہ
پھر روشنی سی دوڑ گئی ہے سحاب میں
کب تک رہے گا روح پہ پیراہنِ بدن
کب تک ہوا اسیر رہے گی حباب میں
یوں آئنہ بدست ملی پربتوں کی برف
شرما کے دھوپ لوٹ آ گئی آفتاب میں
جینے کے ساتھ موت کا ہے ڈر لگا ہوا
خشکی دکھائی دی ہے سمندر کو خواب میں
گزری ہے بار بار مرے سر سے موجِ خشک
اُبھرا ہوا ہوں ڈوب کے تصویرِ آب میں
اک یاد ہے کہ چھین رہی ہے لبوں سے جام
اک عکس ہے کہ کانپ رہا ہے شراب میں
چوما ہے میرا نام لبِ سُرخ سے شکیبؔ
یا پھول رکھ دیا ہے کسی نے کتاب میں
تمہیں بھی علم ہو اہل وفا پہ کیا گزری
تم اپنے خون جگر سے کبھی وضو تو کرو
نہیں ہے ریشم و کمخواب کی قبا نہ سہی
ہمارے دامن صد چاک کو رفو تو کرو
نگار صبح گریزاں کی تابشوں کو کبھی
ہمارے خانہ ظلمت کے رو برو تو کرو
طلوع مہر درخشاں ابھی کہاں یارو
سیاہیوں کے افق کو لہو لہو تو کرو
شفق جو روئے سحر پر گلال ملنے لگی
یہ بستیوں کی فضا کیوں دھواں اگلنے لگی
اسی لئے تو ہوا رو پڑی درختوں میں
ابھی میں کھل نہ سکا تھا کہ رت بدلنے لگی
اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہوا
زمیں پہ پاؤں دھرا تو زمین چلنے لگی
کسی کا جسم اگر چھو لیا خیال میں بھی
تو پور پور مری مثل شمع جلنے لگی
مری نگاہ میں خواہش کا شائبہ بھی نہ تھا
یہ برف سی ترے چہرے پہ کیوں پگھلنے لگی
ہوا چلی سرِ صحرا تو یوں لگا جیسے
ردائے شام مرے دوش سے پھسلنے لگی
کہیں پڑا نہ ہو پرتَو بہارِ رفتہ کا
یہ سبز بوند سی پلکوں پہ کیا مچلنے لگی
نہ جانے کیا کہا اس نے بہت ہی آہستہ
فضا کی ٹھہری ہوئی سانس پھر سے چلنے لگی
جو دل کا زہر تھا، کاغذ پہ سب بکھیر دیا
پھر اپنے آپ طبیعت مری سنبھلنے لگی
جہاں شجر پہ لگا تھا تبر کا زخم شکیبؔ
وہیں پہ دیکھ لے، کونپل نئی نکلنے لگی
ساحل سے دور جب بھی کوئی خواب دیکھتے
جلتے ہوئے چراغ تہِ آب دیکھتے
ہم نے فضول چھیڑ دی زخمِ نہاں کی بات
چپ چاپ رنگِ خندۂ احباب دیکھتے
غم کی بس ایک موج نے جن کو ڈبو دیا
اے کاش وہ بھی حلقۂ گرداب دیکھتے
بیتے دنوں کے زخم کریدے ہیں رات بھر
آئی نہ جن کو نیند وہ کیا خواب دیکھتے
کشکولِ شعرِ تر لیے پھرتے نہ ہم شکیبؔ
اس ریشمیں بدن پہ جو کمخواب دیکھتے
رعنائیِ نگاہ کو قالب میں ڈھالیے
پتھر کے پیرہن سے سراپا نکالیے
گزرا ہے دل سے جو رمِ آہو سا اک خیال
لازم ہے اس کے پاؤں میں زنجیر ڈالئیے
دل میں پرائے درد کی اک ٹیس بھی نہیں
تخلیق کی لگن ہے تو زخموں کو پالیے
یہ کہر کا ہجوم درِ دل پہ تابہ کے
بامِ یقیں سے ایک نظر اس پہ ڈالیے
احساس میں رچائیے قوسِ قزح کے رنگ
ادراک کی کمند ستاروں پہ ڈالیے
ہاں کوزہ ہائے گل پہ ہے تنقید کیا ضرور
گرہو سکے تو خاک سے خورشید ڈھالیے
امید کی کرن ہو کہیں حسرتوں کے داغ
ہر دم نگار خانۂ دل کو اجالیے
شاید کہ ان کی سمت بڑھے کوئی دستِ شوق
روندے ہوئے گلاب فضا میں اچھالیے
ہاں کوہِ شب کو کاٹ کے لانا ہے جوئے نور
ہاں بڑھ کے آفتاب کا تیشہ سنبھالیے
وجدان کی ترنگ کا مصرف بھی ہو شکیبؔ
شاعر کی عظمتوں کو ہنسی میں نہ ٹالیے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks