----------------------------------------------
Page Reserved 4 introduction of Poet
Similar Threads:
Last edited by intelligent086; 09-02-2014 at 10:00 PM.
----------------------------------------------
سمجھ سکو تو یہ تشنہ لبی سمندر ہے
بقدرِ ظرف ہر اک آدمی سمندر ہے
ابھر کے ڈوب گئی کشتیِ خانل کہںہ
یہ چاند ایک بھنور، چاندنی سمندر ہے
جو داستاں نہ بنے دردِ بکرداں ہے وہی
جو آنکھ ہی میں رہے وہ نمی سمندر ہے
نہ سوچیے تو بہت مختصر ہے سلِہ حاہت
جو سوچئے تو ییخ زندگی سمندر ہے
تو اس مں ڈوب کے شاید ابھر سکے نہ کبھی
مرے حببں مری خامشی سمندر ہے
حسنِ فردا غمِ امروز سے ضَو پائے گا
چاند ڈوبا ہے تو سورج بھی اُبھر آئے گا
آندھیوں میں بھی فروزاں ہے چراغِ امّید
خاک ڈالے سے یہ شعلہ کہیں بجھ جائے گا
کو بہ کو دام بچھے ہوں کہ کڑکتی ہو کماں
طائرِ دل پرِ پرواز تو پھیلائے گا
توڑ کے حلقۂ شب، ڈال کے تاروں پہ کمند
آدمی عرصۂ آفاق پہ چھا جائے گا
ہم بھی دو چار قدم چل کے اگر بیٹھ گئے
کون پھر وقت کی رفتار کو ٹھہرائے گا
راہ میں جس کی دیا خونِ دل و جاں ہم نے
وہ حسیں دور بھی آئے گا، ضرور آئے گا
اب یہ ویران دن کیسے ہوگا بسر
رات تو کٹ گئی درد کی سیج پر
بس یہیں ختم ہے پیار کی رہگزر
دوست اگلا قدم کچھ سمجھ سوچ کر
اس کی آوازِ پا تو بڑی بات ہے
ایک پتّہ بھی کھڑکا نہیں رات بھر
گھر میں طوفان آئے زمانہ ہوا
اب بھی کانوں میں بجتی ہے زنجیرِ در
اپنا دامن بھی اب تو میسّر نہیں
کتنے ارزاں ہوئے آنسوؤں کے گہر
یہ شکستہ قدم بھی ترے ساتھ تھے
اے زمانے ٹھہر، اے زمانے ٹھہر
اپنے غم پر تبسّم کا پردہ نہ ڈال
دوست، ہم ہیں سوار ایک ہی ناؤ پر
روشن ہں دل کے داغ نہ آنکھوں کے شب چراغ
کوشں شام ہی سے بجھ گئے محفل کے سب چراغ
وہ دن نہںں کرن سے کرن مںآ لگے جو آگ
وہ شب کہاں چراغ سے جلتے تھے جب چراغ
تر ہ ہے خاکداں، تو فلک بے نجوم ہے
لائے کہاں سے مانگ کے دست طلب چراغ
روشن ضمرں آج بھی ظلمت نصبے ہں
تم نے دیے ہں پوچھ کے نام و نسب چراغ
وہ تر گی ہے دشتِ وفا مں کہ الاماں
چمکے جو موجِ ریگ تو پائے لقب چراغ
دن ہو اگر تو رات سےتعبری کوےں کریں
سورج کو اہلِ ہوش دکھاتے ہں کب چراغ
اے بادِ تند وضع کے پابند ہم بھی ہںہ
پتھر کی اوٹ لے کے جلائں گے اب چراغ
ساحل تمام اشکِ ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا
لگتا تھا بے کراں مجھے صحرا میں آسماں
پہونچا جو بستیوں میں تو خانوں میں بٹ گیا
یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر
یا اتنا نرم دل کہ رگِ گل سے کٹ گیا
بانہوں میں آ سکا نہ حویلی کا اک ستون
پُتلی میں میری آنکھ کی صحرا سمٹ گیا
اب کون جائے کوئے ملامت کو چھوڑ کر
قدموں سے آ کے اپنا ہی سایہ لپٹ گیا
گنبد کا کیا قصور اسے کیوں کہوں بُرا
آیا جدھر سے تیر، اُدھر ہی پلٹ گیا
رکھتا ہے خود سے کون حریفانہ کشمکش
مںھ تھا کہ رات اپنے مقابل ہی ڈٹ گا
جس کی اماں مںن ہوں وہ ہی اکتا گار نہ ہو
بوندیں یہ کویں برستی ہںت، بادل تو چھٹ گا
وہ لمحۂ شعور جسے جانکنی کہںو
چہرے سے زندگی کے نقابںس الٹ گای
ٹھوکر سے مرعا پاؤں تو زخمی ہوا ضرور
رستے مں جو کھڑا تھا وہ کہسار ہٹ گا
اک حشر سا بپا تھا مرے دل مںر اے شکبؔ
کھولںر جو کھڑکاھں تو ذرا شور گھٹ گا
آتا ہے ہر چڑھائی کے بعد اک اُتار بھی؟
پستی سے ہم کنار ملے کوہسار بھی؟
دل کیوں دھڑکنے لگتا ہے اُبھرے جو کوئی چاپ
اب تو نہیں کسی کا مجھے انتظار بھی!
جب بھی سکوتِ شام میں آیا ترا خیال
کچھ دیر کو ٹھہر سا گیا آبشار بھی
کچھ ہو گیا ہے دھوپ سے خاکستری بدن
کچھ جم گیا ہے راہ کا مجھ پر غبار بھی
اس فاصلوں کے دشت میں رہبر وہی بنے
جس کی نگاہ دیکھ لے صدیوں کے پار بھی
اے دوست، پہلے قرب کا نشّہ عجیب تھا
میں سُن سکا نہ اپنے بدن کی پُکار بھی
رستہ بھی واپسی کا کہیں بن میں کھو گیا
اوجھل ہوئی نگاہ سے ہرنوں کی ڈار بھی
کچھ عقل بھی ہے باعثِ توقیر اے شکیبؔ
کچھ آ گئے ہیں بالوں میں چاندی کے تار بھی
پردۂ شب کی اوٹ مںت زہرہ جمال کھو گئے
دل کا کنول بجھا تو شہر ترٹہ و تار ہو گئے
ایک ہمںھ ہی اے سحر نندا نہ آئی رات بھر
زانوئے شب پہ رکھ کر سر، سارے چراغ سو گئے
راہ مں تھے ببول بھی رودِ شرر بھی دھول بھی
جانا ہمںی ضرور تھا گل کے طواف کو گئے
دیدہ ورو بتائںھ کاا تم کو یںم نہ آئے گا
چہرے تھے جن کے چاند سے سنےا مں داغ بو گئے
داغِ شکست دوستو دیکھو کسے نصبک ہو
بٹھے ہوئے ہںس تزک رو سست خرام تو گئے
اہلِ جنوں کے دل شکبؔے نرم تھے موم کی طرح
تۂلِ یاس جب چلا تودۂ سنگ ہو گئے
مرجھا کے کالی جھل مںک گرتے ہوئے بھی دیکھ
سورج ہوں، مرؔا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ
ہر چند راکھ ہو کے بکھرنا ہے راہ مںھ
جلتے ہوئے پروں سے اڑا ہوں مجھے بھی دیکھ
عالم مںئ جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر
دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ
تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
بچھتی تھںھ جس کی راہ مں پھولوں کی چادریں
اب اس کی خاک گھاس کے پریوں تلے بھی دیکھ
کا شاخ با ثمر ہے جو تکتا ہے فرش کو
نظریں اٹھا شکبؔ کبھی سامنے بھی دیکھ
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks