Reserved Page.................
Similar Threads:
Reserved Page.................
Similar Threads:
Last edited by intelligent086; 09-02-2014 at 09:57 PM.
ساعت ہجراں ہے اب کیسےجہانوں میں رہوں
کن علاقوں میں بسوں میں کن مکانوں میں رہوں
ایک دشتِ لامکاں پھیلا ہے میرے ہر طرف
دشت سے نکلوں تو جا کر کن ٹھکانوں میں رہوں
علم ہے جو میرے پاس کس جگہ افشا کروں
یا ابد تک اس خبر کے راز دانوں میں رہوں
وصل کی شام سیہ اس سے پرے آبادیاں
خواب دائم ہے یہی میں جن زمانوں میں رہوں
یہ سفر معلوم کا معلوم تک ہے اے منیر
میں کہاں تک ان حدوں کے قید خانوں میں رہوں
٭٭٭
محفل آرا تھے مگر پھر بھی کم نما ہوتے گئے
دیکھتے ہی دیکھتے کیا سے کیا ہوتے گئے
ناشناسی دہر کی تنہا ہمیں کرتی گئی
ہوتے ہوتے ہم زمانے سے جدا ہوتے گئے
منتظر جیسے تھے در شہرِ فراق آثار کے
اک ذرا دستک ہوئی در و بام وا ہوتے گئے
حرف پردہ پوش تھے اظہارِ دل کے باب میں
حرف جتنے شہر میں تھے حرفِ لا ہوتے گئے
وقت کس تیزی سے گزرا روزمرہ میں منیر
آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے
٭٭٭
کسی خوشی کے سراغ جیسا
وہ رخ ہے ہستی کے باغ جیسا
بہت سے پروں میں نور جیسے
حجابِ شب میں چراغ جیسا
خیال جاتے ہوئے دنوں کا
ہے گم حقیقت کے داغ جیسا
اثر ہے اس کی نظر کا مجھ پر
شراب گل کے ایاغ جیسا
منیر تنگی میں خواب آیا
کھلی زمیں کے فراغ جیسا
٭٭٭
سفر میں مسلسل ہم کہیں آباد بھی ہو ں گے
ہوئے ناشاد جو اتنے تو ہم دل شاد بھی ہوں گے
زمانے کو برا کہتے نہیں ہم ہی زمانہ ہیں
کہ ہم جو صید لگتے ہیں ہمیں صیاد بھی ہیں
بھلا بیٹھے ہیں وہ ہر بات اس گزرے زمانے کی
مگر قصے کچھ اس موسم کے ان کو یاد بھی ہوں گے
منیر افکار تیرے جو یہاں برباد پھرتے ہیں
کسی آتے سمے کے شہر کی بنیاد ہوں گے
٭٭٭
لمحہ لمحہ دم بہ دم
بس فنا ہونے کا غم
ہے خوشی بھی اس جگہ
اے میری خوئے الم
کیا وہاں ہے بھی کوئی
اے رہِ ملک عدم
رونقِ اصنام ہے
خم ہوئے غم کے علم
یہ حقیقت ہے منیر
خواب میں رہتے ہیں ہم
٭٭٭
میری ساری عمر کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر بسر اس نے کیا
میں بت کمزور تھا س ملک میں ہجرت کے بعد
پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا
راہبر میرا بنا گمراہ کرنے کے لیے
مجھ کو سیدھے راستے سے دربدر اس نے کیا
شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نا معتبر اس نے کیا
شہر کو برباد کر کے رکھ دیا اس نے منیر
شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا
٭٭٭
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
خراب صدیوں کی بے خوابیاں تھیں آنکھوں میں
اب ان بے انت خلاؤں میں خواب کیا دیتے
ہوا کی طرح مسافر تھے دلبروں کے دل
انھیں بس اک ہی گھر کا عذاب کیا دیتے
شراب دل کی طلب تھی شرع کے پہرے میں
ہم اتنی تنگی میں اس کو شراب کیا دیتے
منیر دشت شروع سے سراب آسا تھا
اس آئینے کو تمنا کی آب کیا دیتے
٭٭٭
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
خراب صدیوں کی بے خوابیاں تھیں آنکھوں میں
اب ان بے انت خلاؤں میں خواب کیا دیتے
ہوا کی طرح مسافر تھے دلبروں کے دل
انھیں بس اک ہی گھر کا عذاب کیا دیتے
شراب دل کی طلب تھی شرع کے پہرے میں
ہم اتنی تنگی میں اس کو شراب کیا دیتے
منیر دشت شروع سے سراب آسا تھا
اس آئینے کو تمنا کی آب کیا دیتے
٭٭٭
دل کا سفر بس ایک ہی منزل پہ بس نہیں
اتنا خیال اُس کا ہمیں اس برس نہیں
دیکھو گل بہار اثر دشت شام میں
دیوار و در کوئی بھی کہیں پیش و پس نہیں
آیا نہیں یقیں بہت دیر تک ہمیں
اپنے ہی گھر کا در ہے یہ بابِ قفس نہیں
ایسا سفر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں
ایسا مکاں ہے جس میں کوئی ہم نفس نہیں
آئے گی پھر بہار اسی شہر میں منیر
تقدیر اس نگر کی فقط خار و خس نہیں
٭٭٭
جو مجھے بھلا دیں گے میں انھیں بھلا دوں گا
سب غرور ان کا میں خاک میں ملا دوں گا
دیکھتا ہوں سب کی شکلیں سن رہا ہوں سب کی باتیں
سب حساب ان کا میں ایک دن چکا دوں گا
روشنی دکھا دوں گا ان اندھیر نگروں میں
اک ہوا ضیاؤں کی چار سو چلا دوں گا
بے مثال قریوں کے بے کنار باغوں کے
اپنے خواب لوگوں کے خواب میں دکھا دوں گا
میں منیر جاؤں گا اک دن اسے ملنے
اس کے در پہ جا کے میں ایک دن صدا دوں گا
٭٭٭
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks