*بچے کے خواجہ سرا بننے کی طبی وجوہات*

قرآن مجید کے مطالعہ سے کسی بھی ذی عقل کو اندازہ ہو سکتا ہے کہ کتاب الٰہی کا اصل موضوع انسان اور مخاطب بھی بنی نوع انسان اور جنات ہی ہیں۔ جگہ جگہ انسانوں، گروہ جن و انس کی اصطلاحات کو ایک ساتھ کر کے یا الگ الگ مرد اور خواتین کو مخاطب کر کے احکامات اور ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ یعنی مخاطب افراد کو عمومی اورخصوصی دونوں انداز میں مخاطب کیا گیا ہے۔

لیکن کیا ہماری اس دنیا میں یہی دو جنس (مرد اور عورت) ہی پائی جاتی ہیں؟ یقینا اس سوال کے جواب میں سب کے ذہنوں میں تیسری صنف کا نام بھی آیا ہوگا۔ اردو زبان میں اس صنف کو ہیجڑا، کھسرا، زنخا یا خواجہ سرا ء کے ناموں سے جانا جاتا ہے جبکہ عربی میں ان کو مخنث کہا جاتا ہے۔ اگر ان رکھے گئے ناموں پر ہی ایک عام سی نظر ڈالی جائے تو کسی کو بھی ایک لمحے میں اندازہ ہو جائے کہ یہ نام تضحیکی اور کم وزن ہیں۔ ا ب لفظ ہیجڑا کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ ان کے لئے مستعمل ہوتا تھا جو کہ نامرد قرار پائے جاتے تھے اسی طرح لفظ کھسرا دراصل خسرہ کی بگڑی شکل ہے جو کہ ایک متعدی بیماری ہے۔ زنخا فارسی کے لفظ زنکہ سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ہے پتلی کمر والا۔

پڑھی لکھی اور وضعدار محافل میں ان افراد کو خواجہ سراء کے نام سے محترم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی تاریخ کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ مغلیہ دور میں بادشاہوں کو بڑے بڑے حرم رکھنے کا شوق نسل در نسل پروان چڑھنے لگا اور جب حرم سراء میں موجود خواتین کی تعداد سال کے دنوں اور دن کے پہروں سے بھی تجاوز کرگئی تو بادشاہوں کو احساس ہوا کہ ان کے حرم میں موجود ملکائیں اور شہزادیاں عدم توجہ اور دلچسپی کی کمی کے باعث خدا نخواستہ محل کے اندرونی عملہ کے ساتھ نامناسب روابط نہ قائم کر لیں سو حرم سراء کی دربانی کے فرائض کے لئے انھیں اس جنس سے زیادہ موزوں کوئی اور نہ دکھائی دیا کیونکہ اپنی نا مردی کی وجہ سے ملکاؤں اور شہزادیوں کو ان میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آئے گی اور گھر کی عزت گھر میں ہی رہ جائے گی۔ اس طرح اس جنس کو حرم سراء کے افسرکے طور پر متعارف کروادیا گیا چونکہ فارسی میں افسر کو خواجہ کہا جاتا ہے اس لئے یہ افسران خواجہ سراء یعنی محل سراء کے افسران پکارے جانے لگے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اشرف المخلوقات میں شامل کی گئی اس تیسری صنف کو مخاطب کیوں نہیں کیا؟ کیا اس صنف کی اہمیت نہیں ہے یا پھر اس صنف پر کوئی احکامات لاگو نہیں ہوتے؟ اس کا جواب ہے کہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جو رب العالمین ہے اور وہ تمام مخلوقات کا خالق اور پالنے والا ہے تو پھر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ذات باری تعالیٰ اپنی مخلوق کو نظر انداز کردے۔ بات صرف پیدا کی گئی اس غلط فہمی کی ہے جو کہ مذہبی اور معاشرتی اکابرین نے خدا جانے کیوں کبھی قابل توجہ گردانی ہی نہیں۔

اصل مسئلہ کے حل کے لئے ہم 1942 میں Harry Klinefelter نامی ایک امریکن ریسرچر کی ایک ریسرچ کا حوالہ ضرور دیکھیں گے۔ جس نے اپنی ریسرچ میں ایک بیماری Klinefelter Syndrome کی دریافت کی جو کہ اسی کے نام سے منسوب کی گئی ہے۔ اس محقق کے مطابق ہیجڑا، یا خواجہ سراء انسانوں میں مرد یا عورت کی طرح سے کوئی تیسری صنف نہیں بلکہ ایک جسمانی بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مرد اور عورت کے روپ میں ہی پیدا فرمایا ہے لیکن جس طرح دیگر پیدائشی بیماریوں کی وجہ سے اکثر بچوں میں پیدائشی اندھا گونگا اور بہرا پن آجاتا ہے تو بالکل اسی طرح کروموسومز X اور Y کی تعداد کے عدم مطابقت کی وجہ سے بچہ کی جنس کا تعین نہیں ہو پاتا اور بچہ پیدائشی طور پر ابنارمل ہو جاتا ہے۔

کروموسومز کو اردو زبان میں لون جسمیہ کہا جاتا ہے جو کہ دو الفاظ لون یعنی رنگ اور جسمیہ یعنی جسم کا مرکب ہے۔ انگریزی زبان میں بھی لگ بھگ اس کا مطلب یہی بنتا ہے۔ chromo یعنی رنگ اور somes یعنی اجسام۔ کروموسومز دراصل انسانی جسم کے خلیات کے مرکزوں میں پائے جانے والے Macromalecules کو کہا جاتا ہے جو کہ DNA اور لحمیات سے مل کر بنے ہوتے ہیں۔ ان کروموسومز کی تبدیلی کو طفرہ یعنی Mutation کہا جاتا ہے۔ نسل انسانی کی افزائش اور ارتقاء میں ان کروموسومز کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ ایک نسل سے دوسری نسل تک نسلی اور انسانی خصوصیات کی منتقلی کا کام جینز کے ذریعے ہوتا ہے اور یہ جینز کروموسومز پر مشتمل ہوتے ہیں۔

دھاگے نما ان کروموسومز پر مختلف پیغامات درج ہوتے ہیں جن کا تعلق انسان کے رنگ، نسل، زبان، ذہنی سوچ اور رہن سہن کے طور طریقوں سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو والدین کے کروموسومز کا مجموعہ رکھنے کی وجہ سے بچہ اس رنگ، نسل، زبان اور ماحول کے لئے اجنبی نہیں ہوتا بلکہ اس میں والدین کے جینز میں موجود بہت ساری ظاہری خوبیاں جیسے آنکھوں کا رنگ، چہرے کی بناوٹ اور چال ڈھال وغیرہ اور اسی طرح بہت سی باطنی خوبیاں جیسے پسند ناپسند کا ملنا، بول چال کے طور طریقے اور ذہنی ہم آہنگی تک پائی جاتی ہے۔

ہر انسان میں 23 کروموسومز کے جوڑے پائے جاتے ہیں اور ہر جوڑا دو کرومیٹین پر مشتمل ہوتا ہے۔ یعنی مجموعی طور پر 46 کرومیٹین پائے جاتے ہیں۔ کرومیٹین کی شکل کو دیکھا جائے تو یہ انگریزی زبان کے حروف X اور Y سے ملتے جلتے ہوتے ہیں اس لئے ان کو X اور Y کرومیٹین کہا جاتا ہے۔ عورت کے خلیے میں موجود ہر کروموسومز کے جوڑے میں دو کرومیٹین XX پائے جاتے ہیں جبکہ مرد میں کے ہر کروموسومز کے جوڑے میں ایک X اور Y کرومٹین پایا جاتا ہے۔ اس طرح مرد کے 23 کروموسومز کے جوڑوں میں 23 کرومیٹین X اور 23 کرومیٹینY پائے جاتے ہیں۔ انسان کے نئے پیدا ہونے والے بچے میں بھی کروموسومز کے 23 جوڑے بنتے ہیں جو کہ ماں باپ کے کرومیٹینز کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ جن میں سے 22 جوڑے رنگ، نسل، زبان اور دیگر خصوصیات کو ظاہر کرتے ہیں جبکہ 23 واں جوڑا پیدا ہونے والے بچے کی جنس کا تعین کرتا ہے۔ اگر 23 ویں جوڑے میں ماں کی طرف سے مہیاکیے گئے کرومیٹین Xکے ساتھ باپ کے کرومیٹین X کا ہی جوڑا بن جائے تو بچہ کی جنس لڑکی ہو گی اور اگر اسی 23 ویں جوڑے میں ماں کے X کرومیٹین کے ساتھ باپ کا Y کرومیٹین جوڑا بنا لے تو بچہ کی جنس لڑکا ہوگی۔ اور اس طرح پیدا ہونے والے لڑکے میں بھی کروموسومز XY کے 23 جوڑے ہوں گے یا لڑکی کی صورت میں اس میں کروموسومز XX کے 23 جوڑے ہوں گے۔

1942 میں Klinefelter نے ایسی ہی ایک بیماری کی طرف نشاندہی کی تھی کہ کروموسومز کی تبدیلی کے وقت مرد وں میں بعض اوقات ایک زائد کرومیٹین X پیدا ہو جاتا ہے اور اس طرح اس انسانی جسم میں 46 کی بجائے 47 کرومیٹین پائے جاتے ہیں اور نتیجتاً 23 واں بننے والا جوڑا XXY کی شکل میں سامنے آتا ہے جس سے ایک ابنارمیلٹی پیدا ہوتی ہے جس کو سائنسی زبان میں 47، XXY اور عام فہم زبان میں Klinefelter Syndromکہا جاتا ہے۔ غالباًاسی ایک زائد کروموسومز کی وجہ سے انگریزی میں اس صنف کو Transgender کہتے ہیں انگریزی کے لفظ Trans کے معنی زائد کے ہیں اور عربی میں ان کے لئے لفظ مخنث تجویز کیا گیا ہے جس کا مادہ لفظ خنث سے لیا گیا ہے جس کے معنی کسرکے ہیں۔

سائنسدانوں کے مطابق مرد میں XXY کروموسومز کی ابنارملٹی ایک عام عنصر ہے اور ایک اندازے کے مطابق ہر 500 افراد میں سے ایک فرد میں یہ ابنارملیٹی پائی جاتی ہے ویسے اس کی تو کوئی ظاہری علامت بھی نہیں ہوتی۔ لیکن اگر بچہ کی پیدائش کے وقت یہی ابنارمل جوڑا باپ کی طرف سے XX یا XY کی شکل میں ماں کے کرومیٹین X سے جوڑا بنا لے تو بچہ پیدائشی طور پر اس دردناک بیماری 47، XXY یا 47، XXXکا شکار ہوکر ایک Mutational Disorder کی صورت میں جنم لے گا۔

واضح رہے کہ ماں کی طرف سے ہر صورت ایک ہی کرومیٹین X آتا ہے جبکہ باپ کی طرف سے X، Y دونوں میں سے کسی ایک کرومیٹین کے آنے کے مساوی امکانات ہوتے ہیں یعنی بچہ کی جنس کا تعین مکمل طور پر باپ کے کرومیٹین پر منحصر ہوتا ہے اور بدقسمتی سے اگر باپ کی طرف سے ہونے والے بچہ کو دونوں کرومیٹینز XY کا تحفہ مل جائے تو ماں کے X کے ساتھ مل کر وہ بچہ دنیا میں آتے ہی اس اونچی ناک اور غیرت مند باپ کے لئے ایک گالی بن جاتا ہے۔ اور ماں اور بچہ کو اس ناکردہ گناہ کی سزا مرتے دم تک بھگتنا پڑتی ہے۔

مندرجہ بالا معلومات اس بات کو دوبارہ واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت دو ہی جنس میں انسان کو پیدا فرمایا ہے لیکن دیگر پیدائشی بیماریوں اندھا گونگا اور بہرا پن کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک بیماری ہے جو کہ قابل علاج ہے نا کہ قابل نفرت۔ قرآن و حدیث میں کس طرح اس بیماری کا ذکر ہے اور کیا احکامات لاگو کیے گئے ہیں یہ ایک لمبی اور تفصیل طلب بحث ہے جوکسی دوسرے مضمون میں کروں گا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اب اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے کہ جس طرح دیگر پیدائشی کمزوریوں کے شکار بچوں کو خصوصی بچے Special Child سمجھا جاتا ہے اسی طرح یہ بھی خصوصی بچے ہوتے اور یکساں حقوق رکھتے ہیں۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اپنی بہت سی معاشرتی خامیوں کو مذہب کی آڑ دے کر اپنایا ہوا ہے۔ ہمارا معاشرہ اس بیماری میں مبتلا افراد کو اچھوت سے بھی بد تر زندگی گزارنے پر مجبور کردیتا ہے اور عامل فاضل افراد کی ایک کثیر تعداد ہونے کے باوجود بہت ہی کم افراد ان کو تحفظ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے ہی گھر سے بے دخل اور ہر معاشرتی حق سے محروم یہ افراد زندگی کی سانسوں کو پورا کرنے کی خاطر ہر جائز و نا جائز کام کرنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں اور ایک حقارت بھری چھاپ ان کی منتظر ہوتی ہے۔

جاہل اور کم پڑھے لکھے افراد کے نزدیک ایسے افراد قابل تحقیر کیوں قرار پائے جاتے ہیں کوئی وجہ آج تک سمجھ نہیں لگی۔ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ خدا کی یہ بے بس اور بے گناہ مخلوق صرف اپنی ہی آزمائش نہیں جی رہی بلکہ من حیث القوم و ملت ہم بھی اس آزمائش میں برابرکے حصہ دار ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت جائیداد میں حصہ اور ایک پر سہل آسان زندگی مہیا کرنا ان کے بنیادی حقوق ہیں جو کہ میں نے یا آپ نے نہیں بلکہ ان کے خالق اللہ نے ان کو عطاکیے ہیں۔ ان کے ماں باپ سے ان کے ہر ہر اس فعل کا حساب لیاجائے گا جو ان ماں باپ سے دیگر بچوں کے بارے میں ہوگا۔ یاد رکھیں اللہ کے نزدیک یہ کوئی تیسری جنس نہیں بلکہ مرد اور عورت کی جنس میں سے ایک جنس ہے جس کے علاج اور دیگر بنیادی حقوق معاشرے اور حکومت پر اسی طرح عائد ہیں جس طرح اسلامی فلاحی مملکت پر باقی بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کے مواقع میسر کرنا ہے۔

کیا ہی اچھا اور احسن فعل ہو کہ ان کے حقوق کو سمجھا جائے اوراس بیماری میں مبتلا افراد کو آدم اور حوا کی اولاد تسلیم کرکے باعزت انداز میں لکھا اور پڑھا جانے کے لئے ان کے لئے حوادم کی اصطلاح متعارف کروائی جائے تاکہ سب سے پہلے تو حوا اور آدم کی اس اولاد کو اس کا باعزت اور قابل احترام تعارف دیا جا سکے۔ بعد ازاں ان کی تعلیم و تربیت کے لئے بھی خصوصی تعلیم Special Education کے مراکز قائم کیے جائیں اور ملازمت میں ان کے لئے یکساں مواقع Special Persons Quota فراہم کیے جائیں۔ اور جن کا نفسیاتی یا طبعی علاج ممکن ہو ان کو علاج کی سہولت فراہم کی جائے تاکہ نا صرف معاشرہ میں بہت سی اخلاقی برائیاں ختم کرنے میں مدد ملے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی اللہ کے حضور ہمارا معاشرہ شرمندہ اور سزاوار نہ ہو۔
٭٭✦┈٭٭