شام کی سُرخیوں میں پنہاں ہیں
وہ درد جن کو مٹانا چاہا
وہ درد جن کو بُھلانا چاہا
وہ درد تم نے جو دیئے تھے ہمیں
جو درد ہنس کے لےلیے تم سے
وہ درد جن سے شام ہوتی ہے
وہ درد جن پہ شام روتی ہے
درد میرے سمٹ نہیں سکتے
ان سے اب ہم نمٹ نہیں سکتے
شبنمی شام میری آنکھوں سے
بات کرتی ہے بات سنتی ہے
اپنے افسردگی کے عالم میں
میری تنہائیاں بھی چُنتی ہے
شام کی ان اداسیوں کے سوا
میرے دامن میں اور ہے بھی تو کیا
شام سے ہی لپٹ کے روتے ہیں
شام کو اوڑھ کر ہی سوتے ہیں
شام ہی درد کی وجہ بھی ہے
شام ہی درد کی دوا بھی ہے
.
.
.
آمنہ رانی
Bookmarks