حکایت ہے کہ ایک بوڑھا کسان اور اس کا بیٹا گدھا لئے کہیں جا رہے تھے- منظر کچھ یوں تھا کہ باپ کے ہاتھ میں لگام تھی اور بیٹا چھمکیاں مارتا پیچھے چلا آ رہا تھا
رستے میں انہیں ایک پٹواری ملا
اس نے یہ منظر دیکھ کر سینے پہ دوہتڑ مارا اور کہا او پئ جے تبدیلی تے او پِیا جے بیانیہ- میاں صاحب کے دور میں اس کھوتے پر چھ چھ بیٹھتے تھے- آج بمشکل چِھمکیاں کھا کے چل رہا ہے- افسوس ایسی تبدیلی پر
یہ طعنہ ، بلکہ اولاہما اس بوڑھے کسان پر بہت بھاری گزرا- چنانچہ اس نے یوٹرن لیا- باگ بیٹے کو پکڑائ اور پلاکی مار کے گدھے پہ جا بیٹھا- مخے انج نئیں تے فیر انج سہی
باپ بیٹے نے ابھی کچھ فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ ایک سفید ریش جماعتی سے ملاقات ہو گئ- اس گُرگ باراں دیدہ نے دونوں کو بڑے تاسف سے دیکھا پھر داڑھی پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا بخدا ھم گدھے کی سواری کے منکر نہیں- لیکن کوئ اصول ، کوئ طریقہ ، کوئ ضابطہ ہونا چاھئے- قومی حمیّت کا جنازہ نکالنے کو یہ امر کافی نہیں کہ ہٹا کٹا باپ تو سواری کے مزے لے اور معصوم بچہ دھکّے کھاتا پھرے ؟؟
کسان شرمسار ہوا اور موقع پر ہی دوسرا یو ٹرن لیا- چنانچہ بیٹا گدھے پہ سوار ہوا اور باپ باگ تھامے بڑے فخر سے آگے آگے چلنے لگا
کچھ اور آگے چلے تو ایک جمیعت والے شِکرے سے ملاقات ہو گئ- اس نے دور سے ہی صدا لگائ لعنت اس اسرائیل نواز پالیسی پر کہ لفنٹر بیٹا تو گدھے پہ عیش کرتا پھرے اور بوڑھا باپ ، جس میں چلنے کی سکت نہیں ، پاؤں گھسیٹتا پھرے
باپ نے سوچا کہ یوٹرن لینا قائدین کا شیوہ ہے ، کیوں نہ ٹرن مار کے اس مولوی کے دانت بھی کھٹے کر ہی دئے جائیں- چنانچہ اس نے فورا جست لگائ اور بیٹے کے پیچھے گدھے پر جا بیٹھا- ہُن آرام اِیں ؟
دو چار کوس چلنے کے بعد رستے میں ایک کھوہ آیا- باپ بیٹا سستانے کو رُکے تو ایک خوُنی لبرل سے ملاقات ہو گئ- اس نے ہمیشہ کی طرح اپنا ساڑ پھونکا اور باپ بیٹے کو حقوقِ جانوراں پر لیکچر دینا شروع کر دیا
کسان کے پاس یو ٹرن کا کوٹہ ختم ہو چکا تھا- لے دے کے بس کھوتا ہی بچا تھا- اس نے بیٹے کو اشارہ کیا- دونوں باپ بیٹا اس معصوم جانور پر پل پڑے اور جیک لگا کر کھوتے کو موڈھے پہ اٹھانے کی کوشش کی
گدھا جو بار بار یو ٹرن سے پہلے ہی ہلکان تھا احتجاجاً زور سے ہینگا ، پھڑکا ، تڑپا اور اس پھڑک تڑپ میں سیدھا کھوہ میں جا گرا- دونوں باپ بیٹا اس معاشی نقصان پر ہاتھ ملتے رہ گئے
برسوں بعد اس کھوہ سے ایک پٹواری کا گزر ہوا- اس نے دیکھا کہ لوگ کنویں سے پانی کے ڈول بھر بھر کے زمین پر گرا رہے ہیں- اس نے عوام سے اس معاملے کی وضاحت چاھی- لوگوں نے بتایا کہ برسوں پہلے اس کھوہ میں ایک کھوتا گر کر مرا تھا
پٹواری عوام کی جاھلیت پر نفرین کرتا ہوا بولا میاں صاب کے دور میں جب کوئ کھوتا کھوہ میں گرتا تھا تو پورا لاہور خالی پلیٹیں لئے اس کھوہ کا محاصرہ کر لیتا تھا
تم لوگ ہو ہی اس قابل — ہُن سٹّو پانڑیں باھر