آج کل سوشل میڈیا کی غلام گردشوں میں یوٹرن کے حوالے سے انتہائی منفی پروپیگنڈہ زیر گردش ہے۔ یوٹرن سے مراد یہ ہے کہ آپ ایک راستے پر الی طول چلتے ہوئے اچانک واپس پلٹ جائیں۔ یہ واپسی کسی بھی وجہ سے ہوسکتی ہے۔ مثلاً آپ کو رفع حاجت کی ضرورت محسوس ہوئی اور آپ کی برداشت جواب دینے کے قریب ہے، یا آپ کو یاد آیا کہ آپ پچھلے ریستوران پر کھانے کے بعد سوٹا لگاتے اپنی چرس کی پڑیا ریستوران میں بھول آئے، یا یاد آئے کہ میجک پاؤڈر کی لکیریں گھر بھول آئے، یا آپ کو احساس ہوا کہ راستہ منزل مقصود کی جانب نہیں لے جا رہا یا آپ نے دنیا بھر کو بتا رکھا تھا کہ یہ ایک خوبصورت راستہ ہے مگر راستے میں اس قدر مشکلات تھیں کہ آپ نے واپسی کا فیصلہ کر لیا، وغیرہ وغیرہ۔ بطور استعارہ یوٹرن سے مراد اپنی بات یا وعدے سے پھر جانا ہوا کرتا ہے۔
پاکستانی سیاست میں یوٹرنز کے مؤجد جناب حضرت پیر، کپتان، لیڈر، راہنما، منزل، قائداعظمِ ثانی، مہاتیرِ پاکستان، منڈیلا دوئم، جانشینِ مہاتما، مقابل گدی نشینِ پاک پتن، خاتمِ کرپشن، بانیِ ریاستِ مدینہ ثانی، فاتحِ عالمی کپ، مجاہدِ بائیس سالہ جد و جہد، وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب عمران احمد خان نیازی مد ظلہ علیہ کہلائے جاتے ہیں۔ ناعاقبت اندیش و خبیث مخالفینِ کا اگرچہ اس روایت پر اجماع ہے البتہ مقلدین و مجاہدین ناموسِ نیازی کے ثقہ راویان میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مقلدین کے نزدیک یوٹرن کی اصطلاح مختلف ناموں سے زمانۂ جاہلیت یعنی جولائی ۲۰۱۸ سے پہلے تاریخ کے سیاہ پنوں میں ملتی رہی ہے۔
زمانۂ جاہلیت میں یوٹرنز کو ایک منفی اصطلاح سمجھا جاتا تھا تاہم پھر جولائی ۲۰۱۸ کے پر نور دور میں اکابرینِ جماعتِ انصافیہ نے پیر عمران خان صاحب کو یہ نکتہ سمجھایا کہ۔۔

سجے تے اک سجا تے فیر سجا تے فیر سجا
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا تو ہے عمراں

علامہ فواد چوہدری جیسے عظیم صاحب خرد سمیت باقی کے جملہ اکابرینِ انصافیہ نے پیر مطلق حضرت عمران خان کی خدمت میں مدلل دلائل پیش کر کے انہیں فضائل یوٹرنز سے آگاہ کیا اور انہیں یوٹرنز سے متعلق اپنی پچھلی خفت پر یوٹرن لینے پر آمادہ کیا۔ الحمد للّٰہ۔ ثم الحمد للّٰہ۔ پس مستقبل قریب میں آئین پاکستان کی انیسویں ترمیم اٹھارویں کی تنسیخ کا باعث ضرور بنے گی جبکہ اس ترمیم کا محور یوٹرن کی اصطلاح کو تمام لغات سے نیست و نابود کرنا طے ہے۔ مزیدبرآں جماعت انصافیہ کے مذہبی ونگ نے اپنی پوری نیک نیتی کے ساتھ یوٹرن کو مذہبی اصطلاح “رجوع کرنا” سے تبدیل کرنے کی سفارش فرمائی ہے۔ راقم کو ایمان کی حد تک یقین ہے کہ اس بابت جلد ہی اسلامی نظریاتی کونسل کی نظر ٹیسٹ کرانے کو یہ معاملہ سپرد مجاہدین کیا جائے گا جس کے بعد مخالفت کی صورت میں بڑے پیمانے پر کونسل کی تشکیل میں اتھل پتھل کا اندیشہ ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل ویسے بھی اب تک کائنات میں برپا تبدیلی کے اثرات سے محروم ہے لہذا اس میں موجود افراد و افکار کی تبدیلی اب ناگزیر ہے۔ تحریک لبیک ہزار ہزار روپے کی حالیہ ناکامی کے بعد ویسے بھی ہر قسم کے اسلامسٹوں کو سیکولر اسباق سے روشناس کرانا ضروری ہوچکا ہے۔
مزید کوئی وقت ضائع کیے اب ہم حضرت پیر صاحب جناب عمران خان نیازی مد ظل علیہ کے تاریخی یوٹرنز میرا مطلب ہے افکار سے رجوع و توبہ کے اذکار چھبیس عدد ایمان افروز مثالوں سے واضح کریں گے۔ صاحبانِ انصافیہ و عمرانیہ سے گزارش ہے کہ حالت وجد میں جانے کی تیاری پکڑیں۔

١۔ بجلی کی پیداوار پر رجوع
تیر اندازوں کی حکومت میں پیر نیازی صاحب جلال میں ہوا کرتے تھے۔ اکثر شیر نامی خونخوار جانوروں پر تبرا بھیجا کرتے کہ بجلی کی پیداوار صوبائی فرض ہے جسے حیوان پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ تیر اندازوں کی پسپائی کے بعد ۲۰۱۳ سے ۲۰۱۸ تک یہ فرض واپس مرکزی حکومت کو تفویض ہوا اور صوبہ اس سے مبرا پایا گیا۔ یہ نہایت خوبصورت رجوع تھا تاہم رجوعات کا باپ تب سامنے آیا جب حضرت پیر طریقت جناب عمران خان صاحب نے اپنی حکومت آنے کے بعد اس معاملے پر زباں بندی کا فیصلہ صادر فرمایا۔ فی الوقت اس بیڑے کا بیڑہ غرق کرنے کی ذمہ داری اسلام آباد میں واقع شلوار ٹانگنے کے کام آنے والی عمارت کے مکین نے اٹھائی ہوئی ہے۔

٢۔ متحدہ خونی موومنٹ سے تعلقات
پیر کامل جناب حضرت عمران مد ظل علیہ نے کمپنی کی مشہوری کا آغاز کراچی کی دیواروں پر اپنے بارے میں خرافات لکھوا کر کیا۔ اس بے برکت کام کے لیے متحد خونی موومنٹ کا انتخاب کیا گیا اور وہ بھی اس پرآشوب دور میں جب متحدہ مکمل متحد اور اپنی قاتل جوانی کے جوبن پر تھی۔ قائد محترم جناب عمران خان نے قائد محترم جناب الطاف حسین صاحب کی شان میں ہجو فرماتے ہوئے انہیں اور ان کے جملہ مصاحبین کو سینکڑوں لوگوں کا قاتل ثابت کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا۔ دور جہالت میں چونکہ متحدہ ابناءعساکر کی ضرورت تھی لہذا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا۔ تاہم اس خفیف رائے سے رجوع اس وقت کیا گیا جب ۲۰۰۹ میں اسی قاتل متحدہ کو “ہمارے قدرتی حلیف” کہہ کر عزت بخشی گئی۔ رجوع سے رجوع کرنا بھی چونکہ صاحب رجوع کا شیوہ ہے لہذا کچھ ہی عرصے بعد اپنی رجوع شدہ رائے سے واپس تائب ہوکر “اب بندہ مذاق بھی نہ کرے؟” کا پیغام دیا گیا اور پھر سے متحدہ کو خونی تحریک کا نام دے دیا گیا۔

٣۔ کمانڈو بہادر کی حمایت/مخالفت
مشرف بہادر کے دور عروج میں حضرت قائد اعظم ثانی آمریت کے پولیٹیکل ایجنٹ ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ جرنیل کی سیاسی حمایت الحمد للّٰہ تمام حامل ہما افراد کو حاصل رہی تاہم اس حمایت سے رجوع فرمانے کی فضیلت کسی کسی کو حاصل ہے جن میں حضرت عمران قابل ذکر ہیں۔ موصوف نے مشرف بہادر کے دورِ جاہلیت میں بھرپور ساتھ دیا تاہم بعد میں مشرف کے خلاف بھی ہوئے۔ ماضی قریب میں حضرت نے اس معاملے پر چپ سادھے سادھو بننے میں عافیت جانی جو اب تک قائم ہے۔

٤۔ آئی جی اسلام آباد سے محبت و شفقت
ادوار حلال دھرنہ جات کے دوران حضرت ایک شام اس قدر جلال میں آئے کہ ریاستی دارالحکومت کے انسپکٹر جرنل شرطہ جات کو اپنے مبارک ہاتھوں سے پھانسی چڑھانے کی خوشخبری سنائی۔ اپنی اس رائے سے البتہ جلد ہی رجوع کرتے اسی آئی جی کی روانگی پر پیر صاحب نے ان کے حق میں تعریفی کلمات بھی ادا فرمائے۔

٥۔ حرمتِ ریڈ زون اور حملہ
حضرت زبان کے اس قدر پابند رہے کہ اسلام آباد ریڈ زون میں نہ گھسنے کے تحریری وعدے کے باوجود اللہ کے حکم سے پیش قدمی فرمائی تاہم شکست خوردہ رہے۔ زمانہ جاہلیت بیشک ایک کٹھن دور گزرا ہے۔

٦۔ گھر یاد آتا ہے مجھے
زمانہ دھرنہ جات کی جد و جہد کا آغاز اس عزم سے ہوا کہ جب تک حکومت نہیں جائے گی میں گھر نہیں جاؤں گا۔ پیر صاحب حضرت عمران خان صاحب نے جلد ہی اپنی رائے اور عزم سے رجوع فرماتے ہوئے گھر کا چکر لگایا اور اللہ رب العزت کے کرم سے بار بار فرمایا۔

٧۔ ہمارے دوست طالبان کے خلاف آپریشن
تخت پر بیٹھنے سے پہلے شاہ عمران صاحب کی جانب سے طالبان ہمارے بھائی ہیں کی تکرار خوب دیکھنے کو ملتی۔ وزیرستان مارچ ہو یا طالبان کو دفتر کھول کر دینے کی بات، الحمد للّٰہ حضرت کپتان نے ہمیشہ ایک اصولی مؤقف اپنائے رکھا اور بعد میں اپنے اصول سے رجوع کرتے ہوئے پچھلے سے متصادم نیا اصول حلال بھی ثابت کیا۔ حرمت کے یہ اصول بھلا ہر کوئی کہاں جان سکتا ہے؟ یہ راز کی باتیں یہ اسرار کی باتیں

٨۔ عزت مآب افتخار چوہدری برائے فروخت
پیر کامل سابق قاضی القضاء افتخار چوہدری کو محبوب مانتے۔ یہ محبت اس قدر تھی کہ عدلیہ کے زیرانتظام انتخابات کروانے کی فرمائش بھی کر ڈالی جو قبول کر لی گئی۔ تاہم بعد ازاں ناقابل قبول نتائج آنے پر ایک بار پھر اپنی رائے سے رجوع فرمایا اور “اؤئے افتخار چوہدری تم کتنے میں بکے ہو” جیسا مشہور زمانہ جلالی کلام کے باعث شہرت بھی کمائی۔

٩۔ اسمبلیوں سے استعفے
جناب کپتان صاحب نے ببانگ دہل استعفے دینے کا اعلان فرمایا تاہم بعد میں اپنی رائے سے رجوع کرتے ہوئے ایسا کرنے سے باز رہے۔ اللہ جسے چاہے عزت دیتا ہے جسے چاہے ذلت، بس وسیلے الگ الگ بنائے رکھتا ہے۔

١٠۔ جعلی اسمبلی کی اصلی مراعات
طویل جد و جہد کے پرخار دور میں صاحبِ معرفت نے عوام کے ٹھاٹھیں مارتے نالے کے سامنے منتخب اسمبلی کو جعلی قرار دیا۔ دھرنا ختم ہونے کے بعد اپنی رائے سے رجوع فرماتے ہوئے ناصرف اسی جعلی اسمبلی میں واپس آئے بلکہ اس سے ایک نمبر اصل مراعات بھی وصول فرمائیں۔ حق کی خاطر جنگ لڑنا بھلا ہر کسی کو کہاں آتی ہے؟

١١۔ مشہور زمانہ پینتیس پنکچر
حضرت عمران خان نے اپنے پونے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے نجم سیٹھی جیسے صاحبِ چڑیا شخص پر پینتیس پنکچر یعنی پینتیس طریقوں سے دھاندلی کا الزام لگایا۔ اس الزام کو خوب پذیرائی ملی تاہم تحقیقات پر اپنی رائے سے رجوع فرمانے کو اصولی فیصلہ ہوا اور بالآخر فلاں کی فلاں سے روایت کے راوی جھوٹے نکلے۔

١٢۔ حرام آفشور حلال آفشور
معزز پیر صاحب نے عوام کو آفشور کمپنیوں سے متعلق اہم ترین معلومات فراہم میں جن کے تحت تمام آفشور کمپنیاں حرام ہوا کرتی تھیں۔ پیر عمران خان صاحب کی کھولی گئی عالم رویا کی آفشور کمپنیاں جب عالمِ نیازی سروسز تک پہنچیں تو اللہ پاک کے کرم سے حرام قرار پائیں۔ یوں اپنی رائے سے ایک بار پھر رجوع فرمایا۔

١٣۔ انگلی، ایمپائر کی انگلی
جن دنوں عساکرِ ریاست کی جانب سے دھرنے کی جدوجہد پر شدید برہمی پائی جاتی تھی ان دنوں حضرت کپتان کو غیب سے پیغام آیا کہ معاملات اپنے منطقی انجام پر پہنچنے کے قریب ہیں۔ پیر کامل نے عوام کو مژدہ سنایا کہ امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے جس سے مراد موجودہ حکمرانوں کا آؤٹ ہونا لیا گیا اور خوشیاں منائی گئیں۔ بعد ازاں اپنی رائے سے رجوع کرتے ہوئے حضرت بابا نے امپائر سے مراد اوپر والے کے نام کر دی۔ غیب کا اخبار ظاہر کرنے والا البتہ آج بھی ناپید ہے۔

١٤۔ گیس کا بل اور ٹھنڈا پانی
حال ہی میں ریاست کو چیلنج کرنے والے تحریک لبیک ہزار ہزار نوٹ کو ریاست سے نہ ٹکرانے کی مشورہ نما چتاؤنی دے کر ان سے معاہدہ کرنے والے جری و قانون پسند راہنما جناب عمران خان نے جدوجہدِ نیا پاکستان کے دوران برپا کیے جانے والے دھرنوں میں سول نافرمانی کی کامیاب ترین تحریک چلائی۔ سول نافرمانی کے اعلان کے بعد باقاعدہ عملی مظاہرے کے ذریعے بل جلائے گئے۔ تاہم عوامی سطح پر اس قدر خوبصورت عمل کے باوجود حضرت پیر نے تحریک کے دوران پورا عرصہ مسکنِ پیر طریقت بنی گالوی کے تمام بل باقاعدگی سے ادا کیے۔ اپنے اصولی فیصلے سے اصولی اختلاف کرنا اور خود سے اختلاف کے بعد رائے سے رجوع کرنے کا یہ بہترین طریقہ تھا۔ (اپنے گھر کے) بندوں کے حقوق پر تو اللہ کے حقوق بھی قربان کیے جاسکتے ہیں یہ تو پھر ایک تحریک تھی۔

١٥۔ فروخت شدہ فخرو بھائی
فخرالدین جی ابراہیم جیسے شریف النفس شخص پر اظہار اعتماد کے بعد جاہل عوام کی جانب سے ووٹ نہ ملنے اور دو سو فیصد دھاندلی کے بعد اپنی رائے سے رجوع فرمایا اور فخر الدین ابراہیم سے بھاؤ کنفرم کیا۔ منڈی کے یہ بھاؤ تاؤ پیر صاحب نے اگلی بار مکمل طرح سے استعمال کیے۔

١٦۔ شیخ رشید کوچوان
عوام الناس میں بواسیر کی منفرد حیثیت اور سیاستدانوں میں شیخ رشید کی وہی حیثیت زبان عام رہی۔ دور جاہلیت میں حضرت پیر صاحب نے اس عزم کا اعادہ فرمایا کہ وہ شیخ رشید کو کبھی چپراسی بھی نہیں رکھیں گے۔ دوسری جانب شیخ رشید، جناب پیر عمران خان صاحب کی جماعت کو پیار سے تانگہ پارٹی کہا کرتے۔ اس معاملے میں دلچسپ طور پر دونوں پیاروں نے اپنی رائے سے رجوع فرمایا اور خان صاحب نے شیخ صاحب کو اپنی تانگہ پارٹی کا کوچوان مقرر فرما دیا۔

١٧۔ آئی ایم ایف سے قرضہ اور حرام موت
حضرت مجاہد پاکستان جناب عمران خان صاحب ہمیشہ سے قرضہ لینے والوں پر لعنت بھیجتے آئے ہیں۔ وہ اتنے خوددار تھے کہ بقول ان کے انہوں نے کبھی اپنے والد سے پیسے نہ لیے۔ قرض لینے کے معاملے میں اس قدر شدید مخالفت کرتے کہ قرض لینے پر خودکشی کا اعلان کرتے۔ بعد ازاں اپنی رائے سے رجوع کا معاملہ فرمایا اور آج قوم کے چوڑے تر مفاد میں ملک در ملک قوم کی خاطر قرض لینے کی مہم پر ہیں۔

١٨۔ آزاد امیدواروں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
حضرت پیر صاحب ہمیشہ سے آزاد امیدواروں کو بکاؤ قرار دیتے آئے اور انہیں بلیک میلرز قرار دیتے۔ سخت تجربات سے گزرنے کے بعد البتہ حضرت نے اپنی رائے سے توبہ فرمائی اور رجوع کرتے ہوئے تمام آزاد امیدواروں سے محبت و شفقت کا معاملہ فرمایا۔

١٩۔ توہین رسالت کا معاملہ
کیلا ریپبلک میں مذہب ایک حساس معاملے کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسے میں اسے ہوا دے کر ان کے ساتھ بیٹھنے والے پیر صاحب نے ہمیشہ ان سے دست شفقت کا معاملہ فرمایا۔ تاہم کرسی پر براجمان ہونے کے بعد جب ذرا بلندی سے حالات کا جائزہ لیا تو اپنی رائے سے رجوع کرنا پڑا اور تحریک لبیک ہزار ہزار روپے کو سخت آپریشن کی وعید دے ڈالی۔

٢٠۔ مکا لات سے مکالمات تک
حضرت عمران مد ظل علیہ نے تحریک لبیک ہزار ہزار روپے کے امن پسند عناصر کو سختی سے خبردار فرمایا کہ دیکھو ریاست سے مت ٹکراؤ۔ تاہم اللہ پاک نے انہیں اپنی تنبیہ پر عمل کرنے سے باز رکھا اور اڑتالیس گھنٹے کے اندر ہی امن پسند شری عناصر سے معاہدہ کر ڈالا۔ بعد ازاں معاہدے سے بھی رجوع کا معاملہ اختیار فرمایا اور تحریک لبیک ہزار ہزار روپے کے سرغنوں کو نامعلوم مقام پر منتقل کر کے غائب کر دیا۔

٢١۔ تم کتنے حلقے کھولو گے کسی حلقے سے کچھ نہیں نکلے گا
الیکشن میں غیبی امداد کے ذریعے اللہ کی مدد اور فتح حاصل کرنے کے بعد واضح الفاظ میں اپوزیشن کی مرضی سے حلقے کھولنے کا اعلان کیا اور پھر صبح ہوتے ہی اپنی رائے سے رجوع فرمایا۔

٢٢۔ عاطف میاں، توبہ اور رجوع
اس معاملے پر رجوع در رجوع در رجوع در رجوع اختیار کیا گیا۔ پیر کامل نے کرسی حاصل کرنے سے پہلے عاطف میاں کو اپنا وزیر بنانے کا اعلان کیا جس پر کچھ ہی دنوں میں رجوع کر لیا گیا اور انکاری ہوکر اللہ کے نیک بندوں میں شامل ہوئے۔ اقتدار پاتے ہی عاطف میاں کا نام اقتصادی کونسل میں ڈالا گیا تاہم عوام کی جانب سے بھرپور تائید کے بعد رجوع فرما لیا گیا۔

٢٣۔ الیکٹیبلز کی سائینس
جملہ سیاستدانوں کی تمام انواع و اقسام پر لعنت بھیج کر اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے حضرت خان صاحب نے ہمیشہ سے نوجوان نسل اور پاک صاف قیادت کا وعدہ کیا تاہم بعد میں کئی ناگزیر وجوہات کو بنیاد بنا کر ہمیں عامر لیاقت اور اعظم سواتی جیسے پاک صاف سیاستدانوں سے روشناس کروایا۔ ابتداءً موچی، نائی، رکشہ ڈرائیورز کو اسمبلیوں کا امیدوار بنانے کا اعلان کیا تاہم اپنی رائے سے رجوع فرماتے ہوئے فرشتوں کی عدم دستیابی پر مایوسی کا اظہار کیا اور آخرکار شاہ محمود قریشی، چوہدری سرور اور حضرت فواد چوہدری جیسے صاف شفاف الیکٹیبلز عطاء فرمائے۔

٢٤۔ جنگلہ بس سے حلال میٹرو تک
حضرت پیرِ کامل عمران خان مد ظل علیہ لاہور میٹرو کی زندگی کے آغاز سے ہی اصولی طور پر اس نظریے کے مخالف رہے۔ مخالفت جائز بھی ٹھہری کیونکہ لاہور میں رکشے اور ان سے نکلتا دھواں ہی لاہور کی اصل خوبصورتی ہوا کرتا تھا۔ بانیِ ریاستِ مدینہ ہمیشہ کہا کرتے کہ یہ پراجیکٹس محض قوم کی دولت کا ضیاع ہیں۔ حوارین و مقلدین ہمیشہ ان کی حکمت سے بھری اس بات پر واہ واہ اور عش عش کرتے دکھائی دیتے۔ پھر یہ ہوا کہ ان کے صوبائی تخت نے پشاور میٹرو کی منظوری دے دی جس کے بعد تمام مقلدین کافی عرصے “اوہ شٹ” کہتے دکھائی دیے۔ تاہم چونکہ ہمیشہ کی طرح یہ ایک اصولی رجوع تھا لہذا کچھ عرصے میں سب ٹھیک ہوگیا۔ ویسے بھی پیر صاحب کچھ بھی کہیں ان کی فٹنیس کا جواب کہاں؟ الحمد للّٰہ۔

٢٥۔ لیپ ٹاپس کی حلال تقسیم
بدنام زمانہ شوباز شریف نے اپنے دور میں سرکاری خزانے لیپ ٹاپس کی طلباء و طالبات میں تقسیم کے لیے کھول ڈالے جس کا نتیجہ کھربوں ڈالر بلکہ عمانی ریال کے نقصان کی صورت میں نکلا۔ یہ ایک انتہائی گھٹیا اور بکواس پراجیکٹ تھا جس کا کوئی ایک فائدہ ہماری سمجھ میں نہ آسکا۔ ہمیں ویسے بھی ہر سال دفتر کی طرف سے لیپ ٹاپ مل جایا کرتا ہے سو ہمیں کیا۔ الحمد للّٰہ ہماری سوچ عین نیلسن منڈیلا دوم سے مطابقت رکھتی تھی تاہم ہمیں اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب نیلسن منڈیلا دوم نے اپنی رائے سے رجوع فرماتے ہوئے لیپ ٹاپ اپنے صوبائی خزانے سے بانٹنا شروع کیے۔ طریقت عمرانی کی پیروی چونکہ نئے سنہرے دور میں واجب ہے لہذا ہم بھی اپنی رائے بدل چکے ہیں اور اب اپنے انصافی بھائیوں کے شانہ بشانہ اس پراجیکٹ کے حق میں کھڑے ہیں۔