تابوت میں قاتل کی لاش
وہ کار انتہائی تیز رفتاری سے دنیا کے مشہور و معروف" ٹاور بریج لندن "کے اوپر سے جارہی تھی۔اس کو ڈرائیو کرنے والے ایک ریاضی کے پروفیسرآئن گلبرٹ تھے۔پورے برطانیہ میں ان کو نہایت عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا تھا۔وہ لندن کی مشہور ومعروف "کیمرج یونیورسٹی " کے ریاضی ڈیپارٹمنٹ کے ڈین تھے۔انکے زیرسایہ بہت سے طالب علموں نے اپنے نام اور کام پوری دنیا میں تھا۔عمرساٹھ کے قریب رہی ہوگی مگر انہوں نے اپنے آپ کو اب فٹ رکھارہواتھا۔ ٹاور بریج اب لندن کی ایک بنیادی علامت بند گیاہے۔یہ دریائے تھیمز کے اوپر دو ٹاور ز کو آپس میں ملا کر قدرے اونچائے پر بنایاگیا ہے جس میں دو افقی چلنے کے راستے ہیں۔ یہ لندن کے پانچ مشہور پلوں میں سے ایک ہے۔اسے 1886اور 1894کے درمیان تعمیر کیا گیا۔پھر اسے 30جون 1894عام لوگوں کے لئے کھول دیاگیا۔اس کی اونچائی 213فٹ اور لمبائی 270فٹ ہے۔اس وقت ٹریفک کے بہاؤ خلاف توقع کم تھا ورنہ گاڑیاں رینگ رینگ کر چلتیں۔پروفیسر آئن گلبرٹ اس وقت اپنے کسی ذاتی کام کے سلسلے میں باہر نکلے تھے اور انہیں وہاں سے گذرنا پڑرہاتھا۔ ایک دم کسی نے پوری قوت سے پیچھے سے ان کے سر کوپکڑکر جھٹکا دیا تو گاڑی انکے کنڑول سے باہر ہوگئی۔اچانک وہ سامنے والی گاڑی سے لگی تو انہوں نے لاشعوری طور پر بریک لگائی ہی تھی کہ پیچھے ایک بہت بڑا ٹرالر آکر انکی گاڑی سے پوری کے ساتھ لگااور گاڑی کوایک بھرپورجھٹکا لگا، پھر وہ اپنے راستے سے ہٹ کر مخالف سمت سے آنے والی ایک اور گاڑی سے ٹکرائی، گاڑی چونکہ اپنی رفتارکے حساب سے بہت تیز تھی اور پیچھے سے ٹرالر کی ایک اور ٹکر لگی تو وہ ایکدم پل کے ڈیوائیڈر سے لگی اور پھر فضا میں اچھلی اور پھر اڑتی ہوئی پانی میں جاگری۔
*********
حمیدبے بسی سے سرپکڑے تمام لاشوں کو دیکھ رہاتھا۔وہ سب کی سب لاشیں یقینً ریاضی دانوں کی ہی ہوسکتی تھیں۔اتنی دیر میں ایک سیاہ نقاب پوش ایک ڈی وی ڈی لے آیا جس کے اوپر سیاہ نیولا بنا ہوا تھا۔حمید نے اسے گھور کر دیکھا اور پھر اپنامنہ سختی سے بند کرلیا۔اس کا دماغ تیزی سے چل رہ تھا۔اسے اب چلانے کا مسئلہ تھا،حمید نے ایک نقاب پوش کو لیپ ٹاپ لانے کے لئے بھیج دیا۔اس اثنا ء میں اس نے گھوم پھر کر دیگر تابوت اور ان میں موجود باقی لاشوں کا موئنہ کیا۔ کوئی پندرہ منٹ بعد وہ آدمی سفیر کے پی اے کے ساتھ آیا جو بالکل اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا۔ بہت حیر ان اور پریشان تھا۔ اسکے تو وہم و گمان میں ہی نہیں تھا کہ کبھی ایسی وارادت بھی ہوسکتی ہے اور سفیر صاحب کے کمرے میں سے نکل کر کوئی ایسابھی راستہ بھی ہوسکتا ہے ،دوسرا سفیر کی تابوت میں لاش دیکھ کر اس کی حالت غیر ہورہی تھی۔اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ یہ سب کچھ کیا ہورہاہے۔ عام آدمی کے لئے لاش دیکھنا اور پھر اسے برداشت کرنا واقعی بہت مشکل ہوتاہے۔ جن کا یہ روز کا کام ہو انکے دل وقت کے ساتھ پتھر بن جاتے ہیں کیونکہ یہ سب انکی ڈیوٹی کا تقاضہ ہوتاہے۔ خیرڈی وی ڈی کو لیپ ٹاپ میں ڈالا گیا تو حسب سابق اسکرین پر ایک سیاہ نیولا جھومتا ہوانظر آیا اس دوران حمید نے پھرتی سے جیب سے موبائل فون نکال کر اس کی مدد سے ویڈیو بناناشروع کردی۔ایک دم وہ اسکرین ہٹی اور پھر اس پر سیاہ نیولا کی ایک نئی تصویر نظر آنی لگی ۔پھراچانک پس منظر سے ایک کرخت آواز آئی۔
"ویلکم مسٹر حمید !بس یہی فرق ہے تم میں اور کرنل فریدی میں ،تمہاری وجہ سے یہ سب ممکن ہوا اس پر میں تمہارا جتنا شکریہ ادا کروں وہ کم ہے۔یہ سب لاشیں دیکھ رہے ہو؟ کتنی اچھی لگ رہی ہیں ناں؟ تو پھر لگی میری یہ چال ہ؟۔۔۔۔۔ہاہاہا بلکہ چال پر چال ،اگر میں تم لوگوں کو نہ پھنساتا تو یہ سب کبھی ممکن نہ ہوتا۔یہ سب کچھ صرف صرف اور تمہیں اس انٹرنیشنل کانفرنس میں الجھائے رکھنے کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔بحرحال تم جتنی بھی کوشش کرلو ،کرنل فریدی کی جگہ نہیں لے سکتے ؟ اب تمہاے لئے ایک خوشخبری ہے اور وہ یہ کہ ساگالینڈمیں اب میرا مقصد پورا ہوا۔مبارک ہو اب تم لوگوں کو مزید تابوت اور اس میں موجود لاشوں کے تحفے نہیں ملیں گے ۔ اب تو میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے لگا ہوں۔روک سکو تو روک لو۔۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔اور ہاں جاتے جاتے میں ایک اور بات بتاتا چلوں موبائل سے ویڈیو بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ یہ ویڈیو تمہارے موبائل پر سیو نہیں ہوگی یاد رکھنا اور تمہیں پچھلا سبق تو یاد ہی ہوگا ناں کہ ویڈیو خوبخود کرپٹ ہوکر فارغ ہوجاتی ہے ۔اس بار بھی بنیادی سبق میں تبدیل نہیں ہوئی،لہذا ہوشیاری چھوڑو اور موبائل سائیڈ پر رکھ دو۔۔۔۔۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔"بے شمار قہقہوں کے بعد ویڈیو واقعی گزشتہ ویڈیو کی طرح کرپٹ ہوکر فارغ ہوگئی۔حمید نے جلد ی جلدی اپنے موبائل والی ویڈیو روک کر سیو کی اور پھر جب اس نے ویڈیو کو چلایا تو وہ واقعی وہ سیو تو ہوئی تھی مگرخالی تھی ۔اس نے نہایت بے بسی سے دیوار پر اپنا موبائل دے مارا، اب دیواروں میں ٹکریں مارنے کے سوا اور کچھ نہیں رہ گیا تھا۔
*********
"میرا نام شکیل خان ہے اور مجھے زمانے کی سختیوں نے سیاہ نیولا بنادیا۔سمجھ نہیں آتی کہ میں اپنی کہانی کہاں سے شروع کروں۔ میرے اندر شاید سانپ سے زیادہ زہرہے ۔اس کی بنیادی وجہ میرے اندرکا وہ درد ہے جس کو میں چھپائے پھرتا ہوں۔اس درد میں اتنے زخم ہیں کہ اگر میں اس کوجتنا کھولوں گا اتنا بکھرتا چلا جاؤں گا۔میں نے بچپن سے لیکر جوانی تک اس ذہنی و جسمانی تشدد اور بربریت کو برداشت کیا ہے جس نے میرے اندر ایک آتش فشاں بھردیاہے۔ ایک ایسا طوفان جسے شاید لفظوں میں سمیٹنا آسان نہیں ۔اس آتش فشاں نے پھٹنا تھااور وہ پھٹا،اس کے بعد میں نے اب تک جو کیا ہے اس پر تم لوگوں کو مجھ سے شدید نفرت ہوگی۔ تم لوگ مجھے انسانیت کا قاتل کہوگے۔مجھے ایک درندے کی حیثیت سے یاد رکھوگے مگر ایک بار، صرف ایک بار میری زندگی کی داستان ضرور سن لینا۔میں یہ دعویٰ تو نہیں کرتاکہ تم لوگوں کو مجھ سے محبت ہوجائے گی مگر شاید تم لوگوں کے آنسو ضرور بہیں گے اور میری جگہ خود کو رکھ کر دیکھنا ۔اگر تم لوگ خود کو انسان کہتے ہو اور یہ دعویٰ کرتے ہوکہ تم لوگ انسانیت کے چیمپئین ہو تو میرے درد کو ضرور محسوس کروگے۔ میں بھی انسان تھا ،آخرایسا کیاہوا جس نے مجھے انسان سے درندہ بننے پر مجبور کردیا؟میری کہانی کے ہر لفظ میں وہ تڑپ اور تکلیف ہے، جسے سننے کے بعد تم لوگ خود فیصلہ کرنا کہ اگر تم میری جگہ ہوتے تو کیاکرتے؟ کیا میں نے جو کیا وہ صحیح تھا؟ اگر نہیں تو مجھے کیا کرنا چاہیے تھا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
*********
دریامیں گرتے ہی پوری کار میں پانی بھر گیا۔کار کی پچھلی سیٹ پر ایک سیاہ نقاب پوش بیٹھا تھا۔اس نے فوراًاپنی پینٹ سے بیلٹ نکال کر پروفیسر کی گردن کے گرد لپیٹ لی۔ پروفیسر بری طرح سے ہاتھ پیر مارنے لگے۔ان کے منہ سے تیز ی سے پانی کے بلبلے نکل رہے تھے ۔مگر وہ ظالم بالکل بھی رحم نہیں کر رہاتھا۔ پھر اس نے اپنے آپ کو الگ کیا اور کار کی پچھلی کھڑکی سے باہر نکل آیا اور اس نے پروفیسر کو بھی کھڑکی سے پکڑ کے باہر کھینچ لیا۔ دونوں کے درمیان زبردست کش مکش جاری تھی۔سیاہ نقاب پوش نے ایک بار پھر پروفیسر کی پشت پر آکر بیلٹ کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کیا اور مکمل طور پر گرد ن کو اس میں لپیٹ لیا۔وہ جوں جوں گردن پر دباؤ بڑھاتا جارہا تھا ویسے ویسے پروفیسر کی حالت خراب ہورہی تھی۔ اس کے جسم کا سارا خون اسکے چہرے پر جمع ہوگیا تھا۔چہرہ لال اور انتہائی بھیانک لگ تھا ۔کچھ دیربعد نقاب پوش نے ایک دم سے بیلٹ ہٹا کر پانی میں پھینک دی۔پھر وہ پروفیسر کو پکڑتا ہوا پانی کی سطح پر لے آیا اور پھر ایک دم سے اس نے سر باہر نکال لیا۔اچانک دو اطرف سے لندن پولیس نے انہیں گھیر لیا۔
" خبردار اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کردو ۔۔۔۔۔۔۔۔ہم دہراتے ہیں تم دونوں خود کو پولیس کے حوالے کردو۔ورنہ تم دونوں کو شوٹ کردیاجائے گا۔ ہم تمہیں بتاتے چلیں کے لندن پولیس نے تمہیں گھیرلیاہے۔ تمہارے بچنے کی اب کوئی صورت باقی نہیں ہے۔ "سیاہ نقاب پوش نے ایکد م سے جیب سے پستول نکال لی۔
"تم لوگ ایک سائیڈ پر ہوجاؤ اور مجھے یہاں سے نکلنے کا راستہ دو ورنہ پروفیسر سمیت تم سب کو بھون دوں گا۔ میں پھردوہراتا ہوں یہ لندن کے مشہور و معروف پروفیسرآئن گلبرٹ ہیں کوئی عام آدمی نہیں۔ اگر تم لوگوں نے شوٹ کیا تو انکی جان بھی ساتھ جائے گی پھر انکا خون بھی تم پر ہوگا۔دیکھو مجھے اپنے مرنے کی کوئی پرواہ نہیں مگر تمہیں لوگوں کا ایسا نقصان ہوگاکہ آنے والی کئی صدیوں تک تمہیں کوئی ایسا پروفیسر نہیں ملے گا۔تم سب کو پھانسیاں لگیں گی۔ میں پھر دہراتا ہوں مجھے یہاں سے نکلنے کا راستہ دو ورنہ میں پروفیسر سمیت تم سب کو بھون دوں گا سمجھے۔"یہ کہتے ہی اس نے پستول پروفیسر کی کنپٹی سے لگا لی۔پولیس والوں کا رویہ پہلے تو کافی جارحانہ تھامگر سیاہ نقاب پوش کی لگاتار دھمکیاں سن کر وہ ایک دم دفاع پر چلے گئے۔وہ اپنے سب سے قیمتی پروفیسر کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے تھے پس یہی ان کی سب سے بڑی مجبوری تھی۔
"میرے پیچھے سے پولیس ہٹائی جائے ،مجھے اپنے سامنے سے نکلنے کا راستہ دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔میں پھر دہراتا ہوں میرے پیچھے سے پولیس ہٹائی جائے ،مجھے اپنے سامنے سے نکلنے کا راستہ دیا جائے ورنہ میں یہ پھر سے بتادوں یہ لندن کے مشہور و معروف پروفیسرآئن گلبرٹ ہیں کوئی عام آدمی نہیں۔تمہاری روحیں صدیوں تک انکی موت کا کفارہ نہیں اتار سکیں گی۔ اگر تم لوگوں نے شوٹ کیا تو انکی جان بھی ساتھ جائے گی اور میں پھر تم لوگوں کو بتادوں ایک گولی میرے سر میں لگے تو ساتھ ہی میں پروفیسر کی کھوپڑی بھی پاش پاش کردوں گا۔۔۔۔۔"
*********
" ۔۔۔۔۔میں پہلے بہت بزدل ہوتا تھا مگر زندگی نے سکھا دیا کہ زمانے بھر سے ٹکر لئے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ ورنہ یہ لوگ انسان کو کچا چبا جاتے ہیں اور کیوں نا چبائیں ان کا حق ہیں ناں آخر میں ہوں کون ؟ ایک لاوارث یتیم لڑکا۔میں نے آج تک اپنے والدین کو نہیں دیکھا، ان کے پیار کو ترسا۔ماں کی ممتا کیا ہوتی ہے ؟باپ کی شفقت کیاہے اور اس کی محبت کسے کہتے ہیں معلوم نہیں۔میں ماں باپ کے رشتوں کے اُن جذبوں کو نہیں سمجھ سکتاجوعام لوگ جانتے اور سمجھتے ہیں۔شاید یہی میرا جرم تھا جسے اس دنیا نے برداشت نہیں کیا۔اگر ان کا سایامیرے سرپر ہوتا تو مجھے کوئی لاوارث نہ سمجھتا۔ کہتے ہیں کہ جن کے والدین حیات ہوں وہ بہت خوش قسمت ہوتے ہیں۔ان کے سائے میں پرورش پانے والا بچہ زمانے بھر کی تلخیوں کو احسن طریقے سے جھیلتا ہے۔مجھے تو معلوم نہیں پر میں نے ان کی غیر موجودگی میں سب کچھ سہا۔میں راتوں کو روتاتھا اوردن کو دنیاوالوں کی سختیاں برداشت کرتاتھا۔ان دونوں کی کمی کا احساس آج بھی میری روح کا حصہ ہے۔جو مجھے ہر پل کاٹتا ہے ،میں ایک بار رو کر تھک جاتا ہوں مجھے پھر اپنی تنہائی کا درد ہوتا ہے میں پھر روتا ہوں۔انسان شاید اپنے درد پر قابو پا لیتاہے لیکن اگر اس کا کوئی درد بانٹے والا ہی نہ ہو تو پھر وہ کیا کرے ؟ میری پیدائش کے فوراً بعد میری والدہ کا انتقال ہوگیا اور میں جب کوئی تین برس کاتھا تو میرے والد کا ایک کارایکسیڈنٹ ہوا اور وہ اس میں جاں بحق ہوگئے۔میرے چچا اور چچی نے مجھے گود لے لیا۔ان کے اپنے بھی بچے تھے ایک بیٹا سعد اورایک بیٹی شازیہ۔سعد ،شازیہ سے تین سال بڑا تھا اور دونوں کی جماعتوں میں بھی زیادہ فرق نہیں تھا،سعد ایک جماعت آگے تھا۔ پرایا تو پھر پرایا ہی ہوتاہے،کوئی لاکھ کہے کہ اپنا خون اپنا ہوتاہے ۔ابھی مجھے پوری طرح ہوش بھی نہیں آیاتھا کہ انہوں نے مجھے کام پر لگادیا۔انکے بیٹے ،بیٹی سمیت سب کی خدمت کرنا میرا فرض تھا اور اگر اس فرض میں تھوڑی سی چوک ہوجاتی تو اس دن میری وہ درگت بنتی تھی کہ پورا جسم پھوڑے کی طرح دکھنے لگتا۔مار کے دوران مجھے رونے کی اجازت نہیں ہوتی تھی،میں جتنا روتا تھا مجھے اتنی زیادہ مار پڑتی تھی۔چچا اور چچی کی لغت میں رحم نام کا کوئی لفظ نہیں تھا اور نہ ہی وہ لوگ اس لفظ کا مطلب سمجھتے تھے۔ سوپرایا سمجھ کروہ لوگ اپنے اندر کی نفرت کی آگ مٹاتے تھے۔انہیں مجھ سے اس قدر نفرت کیوں تھی اس کے پیچھے ایک لمبی کہانی تھی جو مجھے بڑے ہوکر پتہ چلی اور جب پتہ چلی تو میں ان دونوں کے خوف سے مزید دور بھاگ گیا۔۔۔۔۔۔"
*********
سیاہ نقاب پوش نے جب چیخ چیخ کر اعلان کیا تو باقی پولیس والے بھی ذرا چونک کر ہوشیار ہوئے۔انہیں بھی یقین ہوا کہ یہ واقعی ریاضی کے مشہور پروفیسر ہیں،انہیں دیکھ کر سب ڈھیلے پڑ گئے سیاہ نقاب پوش کے اشارے پر سب ایک سائیڈ پر ہوگئے اور پھر اسے پانی میں سے نکلے کا راستے دے دیا۔سیاہ نقاب پوش پروفیسرکے گلے میں بیلٹ لگائے انہیں لیتا ہوا پانی سے نکلا ،جبکہ اس دوران پولیس سائیڈ پر ہوکر اسے بار بار سمجھانے لگی۔
"دیکھو مسٹر تم جو کوئی بھی ہو قانون کو ہاتھ میں مت لو،کچھ تو خیال کرو۔۔۔۔۔وہ پروفیسر ہیں ،ہم تمہاری ہر بات ماننے کو تیا ر ہیں لیکن ان کو چھوڑ دو ۔ ہم تمہیں جانے دیں گے۔۔۔۔۔ہم پھر کہہ رہے ہیں ،تم جو کوئی بھی ہو قانون کو ہاتھ میں مت لو۔۔۔۔۔۔"وہ باربار سیاہ نقاب پوش کو سمجھاتے رہے مگر اس نے کسی کی پرواہ نہیں کی پانی سے نکل کر خشکی پر آتے ہی اس نے دہشت بڑھاتے ہوئے دو فائر کئے اور دو پولیس والوں کی کھوپڑیاں کئی حصوں میں تقسیم ہوکر بکھرگئیں۔
"اپنے ہتھیار پھینک دو اور اپنے رخ دوسری جانب کرکے اپنے ہاتھ سر پر رکھ لوورنہ سب کو بھون دوں گا۔۔۔۔۔"سیاہ نقاب پوش نے غراتے ہوئے کہاتو اس کے سامنے موجود باقی پولیس والوں نے اپنے ہتھیار ڈال کر اپنے رخ بدل لئے۔ سیاہ نقاب پوش نے پاس موجود ایک گاڑی کے پاس کھڑے سہمے ہوئے عام آدمی کی طرف اشارہ کرے کے اسے کہا کہ وہ گاڑی کا پچھلا دورازہ کھول دے او رخود ایک طرف ہٹ جائے اس آدمی کی تو پہلے ہی حالت خراب تھی اس نے ڈرتے ڈرتے ساتھ موجود ایک گلی کی طرف پھرتی سے دوڑ لگا دی۔نقاب پوش نے آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا اورپروفیسر کو اندر دھکیل کر اسکی گرد ن سے بیلٹ ہٹائی اور اسی بیلٹ کی مددسے اس نے اس کے دونوں ہاتھ فرنٹ سیٹ سے باندھ دئیے۔اس دوران دو گولیاں سنساتی ہوئی نقاب پوش کے پاس سے گذر گئیں۔ اس نے پیچھے مڑ کر پانی کے اس پار دوپویس والوں کو ٹارگٹ کیا اور پھر دونوں کو فارغ کرکے وہ دوڑتا ہوا ڈرائیونگ سیٹ پر آیا اور گاڑی سٹارٹ کرکے وہاں سے تیزی کے ساتھ نکل گیا۔اس دوران مزید گولیوں نے گاڑی کے پیچھے موجوداشاروں والی دولائٹس فارغ کردیں۔
*********
مغل آباد میں تابوت اور لاشوں کے ڈھیر کے بعد میڈیا کی جانب سے حمید اور بلیک فورس پر شدید تنقید ہونا شروع ہوگئی تھی۔ جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے باقاعدہ مغل آباد پریس کے سامنے احتجاج کر نا شروع کردیا تھا۔انہوں نے بینرز اٹھارکھے تھے جس پرنمایاں حروف کے ساتھ "ریاضی دانوں کو انصاف دو"۔۔"انصاف سب کے لئے یکساں"۔۔۔۔۔"مظلوم ریاضی دانوں کی آواز بنو۔۔۔۔انہیں انصاف دو"۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حق اور سچ کی آواز کوئی نہیں مٹا سکتا"۔۔۔۔نعرے تحریرتھے۔قاتل نے جس طرح انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی تھیں اس پر سب سراپا احتجاج تھے۔سب کا یہی مطالبہ تھا کہ بلیک فورس ناکام ہوگئی ہے اب سلامتی کونسل کو یہاں بلایا جائے اور عالمی ادارے ان تمام واقعات کی تحقیقات کریں۔مقامی ادارے بری طرح سے ناکام ہوگئے تھے،لہذا اب ضرورت اس امر کی تھی کہ اس قوت کو بلایا جائے جوصحیح معنوں میں نہ صرف امن قائم کرسکے بلکہ وہ شہریوں کو بھی تحفظ فراہم کرسکے۔قاتل اپنے نشے میں مست تھااور اگر اسے نہ روکا گیاتو ساگالینڈریاضی دانوں سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوجائے گا۔یہ وقت کا تقاضہ تھا کہ اب ان قوتوں کو میدان میں لایا جائے جو واقعی اس مسئلے کو حل کر سکیں۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد از جلدفیصلہ کرے تاکہ مزید جانوں کو قتل ہونے سے بچایاجاسکے۔میڈیاان کا بڑھ چڑھ کرساتھ دے رہاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔حکومت اب بری طرح سے مجبورتھی دوسری جانب کرنل فریدی کا کہیں پتہ نہیں چلا رہاتھا نہ جانے وہ کہاں غائب ہوگیاتھا؟۔
*********
"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر بچے کی طرح مجھے بھی پڑھنے کا شوق تھا اور میر ایہ بنیادی حق تھا کہ مجھے بھی تعلیم دی جائے ۔ لیکن مجھے اس سے محروم رکھنے کی پوری کوشش کی گئی پر میں بھی کسی سے کم نہیں تھا چچا چچی کے بچوں کے ساتھ جب بیٹھتاتو ان کی صحبت میں رہ کر تھوڑا بہت لکھنا پڑھنا سیکھتا رہتا تھااور پھر نوبت یہاں تک آگئی کہ ان کا ہوم ورک بھی میں لکھ کر دیتا تھا جس کی خاطر انہیں مجبوراً مجھے اتنی تعلیم دینا پڑی کہ میں بچوں کا ہوم ورک لکھ سکوں یا ان کی ہدایت کے مطابق انکے کام کر سکوں۔ویسے تو مجھے ہرمضمون بہت پسند تھا مگرتمام مضامین میں مجھے ریاضی کچھ خاص ہی لگاؤ تھا اور میں غیر معمولی طور پر ان دونوں سے بہت زیادہ ذہین تھا۔مجھے کوئی چیز ایک بار بتا دی جاتی تھی تو پھر وہ کبھی نہیں بھولتی تھی۔پھر وہ وقت بھی آیا جب میں نے ریاضی میں سعد اور شازیہ دونوں کو کراس کردیا یہ بات چچی کو اتنی بری لگی کہ انہوں نے چچا کو شکایت لگا کر میری خوب ٹھکائی لگوادی اور اس دن مجھے ایک اور سبق مل گیا کہ پڑھائی میں مجھے چچااور چچی کے بچوں سے سبقت بھی نہیں لینی۔ مگر جو چیز خدا کسی کو عطا کردے تو پھر کچھ بھی ہوجائے کوئی اس سے چھین نہیں سکتا۔خیر وقت گذرتا رہا جب میں دس برس کا ہوا تو اچھا خاصا جوان ہوگیا تھا، سعد اورشازیہ بھی تقریباً ہم عمرتھے ۔ مجھے اب آہستہ آہستہ سمجھ آنے لگی اور باتوں کا پتہ چلنے لگا کہ میرے اردگرکیا ہورہاتھا۔۔۔۔"
*********
سیاہ نقاب پوش نے پوری رفتار سے گاڑی آگے بڑھادی۔وہ مختلف سڑکوں سے نکلتا ہوا ایک مین سڑک پر آگیا،وہ جیسے ہی وہاں پر آیا بہت سی پولیس گاڑیاں اس کے پیچھے لگ گئیں ۔ ان کے سائرن کی چیختی ہوئی آوازیں آرہی تھیں وہ سب ایک دوسرے کے آگے پیچھے چلتی ہوئی نقاب پوش کی گاڑی کا تعاقب کررہی تھیں۔سڑک پر ٹریفک رواں دواں تھی ،مگر وہ سب ٹریفک کی پرواہ کئے بغیرگاڑیوں کو چیرتی ہوئی آگے بڑھی چلی جا رہی تھیں۔کافی دیر تک مختلف سڑکوں پر ان کا مقابلہ ہوتا رہا،وہ سڑکیں تبدیل کرتی رہیں پھر اچانک پولیس نے اپنی حکمت عملی بدلی اور نقاب پوش کی گاڑی کو آگے سے گھیرنے کی کوشش کی تاکہ اس کے فرار کی کوئی صورت باقی نہ رہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے آگے پیچھے دونوں اطراف سے اس کی گاڑی کوگھیر لیاگیا۔وہ انتہائی تیز رفتاری سے اسکی جانب بڑھ رہی تھیں قریب تھا کہ ایک شدید ٹکراؤ ہوتا مگر عین آخری لمحے میں سیاہ نقاب پوش نے اپنی گاڑی سائیڈ پر موڑی اور پھر انتہائی پھرتی ایک سائیڈ گلی میں چلاگیا اور پیچھے سے آنے والی پولیس کی گاڑیاں بری طرح سے پوری قوت کیساتھ ایک دوسرے سے ٹکرائیں اور انکے شیشے چکنا چور ہوگئے ۔سائیڈ گلی میں بہت آگے جاکر نامعلوم کیوں نقاب پوش کی گاڑی رک گئی۔پولیس والے جو اپنی آگے والی گاڑیوں کے ٹکرانے کی وجہ سے ایکدم سے رک گئے تھے وہ پھرتی سے اپنی گاڑیوں سے اترے اور پھر دوڑتے ہوئے سائیڈ گلی میں گھس گئے ۔ انہوں نے آپس میں رابطے تیز کردیئے،وہ اپنے کانوں میں موجود آلات کی مدد سے ایک دوسرے سے رابطہ کررہے تھے۔تو پھر سائیڈ گلی کی دوسری طرف سے کچھ پولیس والے دوڑتے ہوئے آئے اور پھر جلد ہی انہیں یہ انکشاف ہوا کہ سیاہ نقاب پوش اور پروفیسر گاڑی میں موجود نہیں ۔ نقاب پوش ان سب کو چکما دے کر وہاں سے فرار ہوگیاتھااور خالی گاڑی انکا منہ چڑارہی تھی۔انہوں نے فوراً پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور پھر اس علاقے کا سرچ آپریشن شروع ہوگیا۔کوئی پانچ گھنٹے کی تھکادینے والی بھاگ دوڑ کے بعد معلوم ہوا کہ نقاب پوش ایک پولیس والے کی وردی میں وہاں سے کافی پہلے فرار ہوچکاتھا۔پھر پورے شہر میں اسکی تلاش کی جاتی رہی ۔ مگر نقاب پوش نے نہ ملناتھا اور نہ وہ ملا۔
*********
یونیورسٹی آف اون کاشمار جرمنی کی سب سے بڑی یونیورسٹیز میں ہوتا تھا،یہ دراصل ایک پبلک ریسرچ یونیورسٹی تھی۔اس کی شاندار عمارت میں بے شمار علوم پر ریسرچ ہوتی تھی،جس میں ریاضی بھی قابل ذکر تھا۔اس وقت کوئی رات کے نو کا عمل تھا اور پروفیسرایڈلف ووٹن ریاضی کے وسیع و عریض ریسرچ سینٹر میں بیٹھے مختلف کتابوں کا مطالعہ کررہے تھے۔ان کایہ تقریباً روز کا معمول تھا کہ وہ کلاس ہونے یانہ ہونے کے باوجود باقاعدگی سے ریسرچ سینٹر آکر بیٹھ جاتے اور کتابوں کی دنیا میں کھوجاتے تھے ۔انکے سامنے لکھنے کے لئے پین اور خالی کاغذ بھی موجود ہوتاتھا۔جس کی مدد سے وہ پیچیدہ فارمولوں کو خود حل کرتے تھے۔جرمنی بھر میں انہیں نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا۔ان کی عمر ساٹھ کے لگ بھگ رہی ہوگی ۔بالوں میں چاندی اور ماتھے پر عینک رکھے وہ اپنے کام میں غرق رہتے تھے۔ اس وقت بھی وہ اپنی ضروری تحقیق میں مصروف تھے کہ اچانک کسی نے ایکسٹنشن وائر ان کی گردن کے گرد لپیٹی اور تین چار چکر دینے کے بعد انہیں پوری قوت سے ایک جھٹکے کے ساتھ کھڑا کیااور پھرانکی گردن کے گرد گھیرا تنگ کردیا۔آس پاس اسٹڈی روم میں کوئی موجود نہیں تھا اور نہ ہی کوئی گارڈ تھا لہذا انکی مدد کو آنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔پہلے پہل تو وہ سمجھ ہی نہ سکے کہ یہ اچانک کون سی افتاد ان پر آن پڑی کچھ دیر بعد انہیں احساس ہوا کہ کوئی نہایت بے دردی سے انکی گردن کووائر کی مدد سے دبائے انہیں مارنے کی کوشش کررہاتھا۔انکے دیدے ایک دم سے باہر نکل آئے تھے اور وہ بری طرح سے اپنے آپ کو چھڑوانے کی ناکام کوشش کرنے لگے۔ انکا چہرہ لال ہوگیا تھا اور قریب تھا کہ وہ اپنی زندگی کی بازی ہارجاتے ،اس آدمی نے ایک دم سے زور کم کیاانہیں ٹانگ پھنساکرزمین پر گرادیا۔ پھر اس نے ایک دم سے انہیں پلٹایا اور انکی آنکھیں بری طرح سے پھیل گئیں خوف سے وہ بری طرح سے تھر تھر کانپ رہے تھے۔وہ کوئی سیاہ نقاب پوش تھا جس نے انہیں نہایت بے دردی سے قتل کرنے کی کوشش کی تھی مگر اب اچانک اس نے اپنا ہاتھ روک لیاتھا۔پھر نقاب پوش نے فوراًاپنے کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک رومال نکالا پھراس نے پروفیسر کے پیٹ میں زور سے اپنی لات کی مدد سے ٹھوکر لگائی تو درد کی شدت سے انکا منہ کھل گیا،قاتل نے فوراً زبردستی رومال ان کے منہ میں ٹھونس دیا۔پھر اس نے انکی گردن میں لپٹی ہوئی وائر انکی گردن سے نکالی اور اسے بجلی کے پینل سے منسلک کرکے اس نے جیب سے ایک چھوٹا چاقو نکال کر وائر کو درمیان سے کاٹ کر اس کی ننگی وائرز پروفیسر کے جسم میں چبھونے کی کوشش کی تو انہوں نے خوف سے بری طرح سے کانپتے ہوئے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی تو نقاب پوش نے زور سے قہقہہ لگا یااور پھر وائر چھوڑ کر اس نے پروفیسر کو گھسیٹ کر پاس کیا اور پھر اس کے جسم پر نہایت حقار ت کے ساتھ لگادیا۔ پروفیسر نے بری طرح سے پھڑپھڑانا شروع کردیا ان کی حالت بہت خراب ہورہی تھی اور قاتل ان پر تھوڑا سابھی رحم کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔اس پر جنون سوار تھا۔
*********
اس دن وہ دونوں اسکو ل گئے ہوئے تھے اور چچا اور چچی اپنے کمرے بیٹھے جو گفتگو کررہے تھے اس نے میرے رونگٹے کھڑے کردیئے۔میں نے چھپ کر وہ گفتگو سنی تھی اور میر ا دل دھک دھک کررہاتھا۔ چچا نے چچی سے کہا:
"ابامیں اگر تعصب نہ ہوتا تو شاید اتنے قتل نہ ہوتے ۔مانا کہ شکیل کا باپ مجھ سے بڑا تھااور مجھ سے زیادہ پڑھا لکھا تھالیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ساری جائیداد شکیل کے باپ کے نام کردی جاتی ،اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید آج میرا باپ اور شکیل کا باپ زندہ ہوتا۔۔۔۔۔ٹھیک ہے مجھ میں کچھ بری خصلتیں تھیں،جواء کھیلتا تھا،گندے لڑکوں کی وجہ سے سگریٹ وغیر ہ کی لت پڑ گئی تھی۔ایک دو دفٖعہ غلطی سے گولی چل گئی تو بندہ مارا گیا، پر تم جانتی ہو جب سے تم سے شادی ہوئی میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔بلکہ میں نے اپنے آپ کو کافی بدلا ہے ،میں انسان ہوں کوئی فرشتہ نہیں ۔اس جرم کی سزا مجھے یہ ملی کہ ابانے مجھے گھر سے نکال دیا،میں دربدر پھرتا رہا،حد تو یہ ہے کہ کئی بار معافی مانگنے کے بعد بھی مجھے گھر نہیں گھسنے دیا اور پھر تم جانتی ہو انسان کو جب ہر طرف سے مجبورکردیا جائے توپھر وہ کرناچاہے جس کا اسے حق ہے ۔پھر تم نے اور میں وہ کیا۔اباکو جانا تھا سو وہ چلے گئے آج تک لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بہادر خان کی موت ہارٹ اٹیک سے ہوئی مگر سچ تو یہ کہ اسے سست زہر دیا گیا۔ اسے دل کی بیماری تھی اور جس میڈیکل سٹور سے شکیل کا باپ انکے لئے ادویات لاتا تھا وہ میرا بہترین دوست تھا۔ اسی کے مشورے پر ان کی ادویات میں انہیں سست زہر ملا کردیا گیا۔ وہ درحقیقت زہر نہیں تھا اسکی ادویات میں اسے جوڈوز اسے دیا جاتا تھا اس میں کیمیائی اجزاء کی مقدا ر بہت کم تھی ۔ہم نے اس مقدار کو خاض حد سے بڑھادیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بظاہر تو وہ ٹھیک رہتاتھا مگراندر سے بالکل کھلوکھلا ہوتاجارہاتھا۔آہستہ آہستہ اس کا جسم برداشت کی وہ حد عبور کرگیا اور پھر وہ وقت آیا جب اسے شدید نوعیت کا دورہ پڑااور اس کی موت واقع ہوگئی۔مجھے بڑا افسوس ہواکہ وہ بے چارہ یوں مارا گیا۔ اگر اس نے کبھی مجھے اپنا بیٹا سمجھا ہوتا تو میں کبھی بھی اس کے ساتھ ایسا نہ کرتا ۔ باپ کی موت پر شکیل کا باپ غم سے نڈھال تھا۔میں نے اسے جاکر دلاسہ دیاتو وہ مجھے اپنا خیر خواہ سمجھنے لگا۔پھر اس نے ایک سال بعد شادی کرلی اور پھر میں نے اس کے کو ئی چھ ماہ بعد تم سے شادی کی۔پھر تم جانتی ہم نے گزشتہ چار سال کیسے گن گن کے گذارے ہیں۔ ہمیں شکیل کی پیدائیش کا انتظارتھا۔وہ پیدا ہوا تو اس کی ماں کو ہم نے ہسپتال میں نرس کو پیسے دے کر ماروایا اور پھر بچہ ہمارے ہاتھ میں آگیا۔ کیونکہ بہادر خان کی وصیت کے مطابق شکیل کے باپ یعنی احمد خان کی اولاد کے نام جائداد کی گئی تھی ۔یاکم سے کم احمد خان نے مجھے یہی تاثر دیا تھا کہ جائیداد شکیل کے نام اس کی پیدائش سے قبل ہی کردی گئی تھی۔جوکہ کافی حیران کن بات تھی،اب اس کے ہوتے ہوئے تو ہم جائیداد شکیل سے لے نہیں سکتے تھے اور ہمیں شکیل کے بالغ ہونے کا انتظار کرناتھا۔اس کے لئے ضروری تھا کہ شکیل کی پرورش بھی ہم ہی لوگ کریں اور اسے ان پڑھ رکھیں تاکہ جائیداد ہمارے نام منتقل ہوجائے۔میں نے خاندانی وکیل سے رابطہ کیا تھا مگر وہ کسی بھی صورت میں بہادر خان کی وصیت نہیں دکھارہاتھا۔ہم نے احمد خان سے بھی کئی بار بات کی تو وہ ٹال گیا۔پھر مجبور اً تم نے اور میں نے منصوبہ بنایا کہ کس طرح اسکا کار ایکسیڈنٹ کروایا جائے جو ہم نے کرایا۔میں نے اسکی کار کے بریکس فیل کردیئے تھے بے چارہ ایک ٹرک میں جاکر بری طرح سے لگا تھا اور کار سمیت پچک کررہ گیا۔ایسی بری موت کا تو میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا نہیں تھا۔اس کی لاش پہچانی نہیں جارہی ،اس کوتو ہم نے نا جانے کیسے شناخت کیا اور پھراسے دفنانے کے بعد اب شکیل مکمل طور پر ہمارے ہاتھ میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"چچا نے کہا اور میں حیران و پریشان تھا۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہاں کیا گفتگو ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔۔"
*********
قاتل نے ایک دم سے ننگی وائر ہٹائی تو وہ اب بھی پھڑپھڑا رہے تھے بلکہ کافی دیرتک پھڑپھڑاتے رہے اور پھر بے ہوش ہوگئے جیسے انہوں اب بھی کرنٹ لگ رہاہو۔اس اثناء میں قاتل ایک دم سے کمرے سے باہر نکل گیا کچھ دیر بعد جب وہ آیاتو اسکے ہاتھ میں ایک پٹرول کا بہت بڑا ڈبا تھا۔اس نے وہ پٹرول اردگرد موجود الماریوں پر چھڑکناشروع کردیا۔کچھ دیربعدوہ مڑا اور اس نے ٹیبل پر موجود تمام چیزوں کے اوپر ڈال دیا۔اس وقت تک پروفیسر بھی جاگ گئے تھے اور بری طرح تڑپتے ہوئے وہ تمام منظر دیکھ رہے تھے۔ پھر قاتل نے انہیں دیکھا اورحقارت سے قہقہہ لگاتے ہوئے انہیں اپنے کندھے پر لادا اور پھروہ انہیں لئے ہوئے کمرے سے باہر نکلاتو باہر ایک گیلری تھی اس میں کمروں کی ایک طویل قطار تھی۔قاتل نے باہر نکل کر انہیں نہایت بے دردی سے زمین پر پٹخااور پھر خود وہ اندر چلاگیا۔کچھ دیر بعد وہ اندر سے ایک کرسی کا لکڑی کادستا اور پٹرول کا ڈبالے کر باہر نکلاپھر اس نے انہیں ایک سائیڈ پررکھا ۔پھر اس نے زبردستی پروفیسر کی شرٹ کے بٹن کھولنے شروع کردئیے،اس کے بعد اس نے انکی شرٹ اتار کر اس کو کرسی کے دستے کے اوپر لپیٹا اور پھر اس پر پڑول چھڑکنے لگا۔اسکے بعداس نے جیب سے لائٹر نکال کر اسکو جلایا اور پھر ایک دم سے شعلا چمکااوراس شرٹ کو آگ نے پکڑلیا اسکے بعد قاتل نے وہ دستا کمرے میں ایک الماری کے اوپراچھال دیا دیکھتے ہی دیکھتے بھیانک آگ نے پورے کمرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اس دوران پروفیسر اپنے اعصاب پر قابو پاچکے توانہوں نے اپنے جسم میں موجود پوری قوت کا استعمال کرتے ہوئے کپڑا نکال کر زور زور سے چلانا شروع کردیاتھا۔
"ہیلپ پلیز ہیلپ ۔۔۔۔۔۔یہ یہ جنونی سب کچھ فناکردے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ان کی آواز بہ مشکل دوسرے کمرے تک جاسکی تھی کہ قاتل نے ایک اور قہقہہ لگایا اور پھر گویا ہوا۔۔۔۔۔

"میرے دل کو بہت سکون ملتا ہے جب کوئی ریاضی دان اپنی زندگی کی بھیک مانگتا ہے۔۔۔۔۔چیخو چیخو اور چیخو۔۔۔۔۔ کیونکہ اب تمہاری زندگی کے چند لمحے گنے جاچکے ہیں۔ اس کے بعد تم اپنے جہنم میں ہوگے ۔۔۔ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"پھر اس نے اپنی مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے اسکی گردن میں اپنے مضبوط ہاتھ ڈال دیئے اور پھر انکا گلادبانے لگا۔ قاتل کی آنکھیں بری طرح سے لال ہورہی تھیں۔دیکھتے ہی دیکھتے انکی آنکھیں بے نور ہوتی چلی گئیں۔
*********
"۔۔۔۔۔۔یہ سب تو میں جانتی ہوں ، مگر تم شکیل کو کیسے قابو کرو گے ۔لڑکا اب جوان ہورہا ہے اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہم زیادہ دیر تک اسے اپنے ہاتھ میں رکھیں اور تم جانتے ہو وہ کتنا ذہین ہے۔بچوں کا ہوم ورک ان سے زیادہ پھرتی سے کرلیتا ہے اور بچے منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔اس دن تم نے ٹھیک ٹھاک دھنائی کی دل خوش ہوگیا مگر کب تک تم اس پر مارکٹائی کرتی رہوگے؟کہیں لڑکا باغی ہوگیا تو یہ ساری جائیداد ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی ۔ اگر اس نے خودکشی کرلی تو یہ تمام جائیداد ایک ٹرسٹ میں چلی جائے اور ہم پاگلوں کی طرح ٹکریں مارتے رہ جائیں گے کئی سالوں کی محنت غارت ہوجائے گی۔ ہمیں اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔۔۔"اس بار چچی نے کہا تو میر ا جسم تھر تھر کانپنے لگا مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں مگر اب جب ان باتوں پر غور کرتا ہوں تو مجھے تمام حقیقت کھل کر سمجھ آجاتی ہے۔میرے آنسو بہہ رہے تھے اور دل تیزی سے دھڑک رہاتھا۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کیا کروں؟ہر پل میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہاتھا ۔ ایسالگتا تھاکہ میں ابھی گرکر مرجاؤں گا۔ مگر قدرت کو مجھے ابھی اور آزمانا تھا،وہ لمحات میرے لئے انتہائی کھٹن تھے۔میں زندہ ہوکر بھی زندہ نہیں تھا،مجھے اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آرہا تھاکہ چچا اور چچی کس قسم کی گفتگوکررہے تھے۔بہت سی باتیں میرے اوپر سے گذر گئی تھیں اور جو بات سمجھ آئی تھی وہ یہ کہہ چچا اور چچی دونوں قاتل ہیں۔مگر کس کے یہ بات میرے پلے نہیں پڑرہی تھی۔۔۔۔

"نہیں تم بے فکر رہو ایسا کچھ نہیں ہوگا،لڑکا ہمارے ہاتھ میں ہے اور وہیں رہے گا۔اسے ہمارے ہاتھوں میں ہی رہنا ہے وہیں رہے گا۔جتناڈر کر رہے گا اتنا ہمارے لئے اچھا ہے،اس کو ہمیشہ ڈرا کر ہی رکھنا ہے تاکہ یہ کبھی سر نہ اٹھا سکے اور جو ں ہی یہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی جائیداد ہمارے حوالے کرے گا ہم اس کا سر کچل دیں گے۔ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"چچاکے یہ کہتے ہی دونوں قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے ۔میرا دل بری طرح سے دھڑک رہا تھا۔مجھے سمجھ نہیں آرہاتھا کہ میں کیا کروں۔ میں نے گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کرلیا،ڈر اور خوف نے میرا دماغ مجھے کہہ رہاتھا کہ یہاں سے چلے جانے میں ہی عافیت ہے۔
*********
اقوام متحدہ کی وسیع و عریض عمارت کے ایک میٹنگ روم میںیورپ میں ہونے والے مختلف ہنگاموں کے اوپر آج ایک بہت ہی اہم میٹنگ ہونی تھی۔یورپ بھر میں سیاہ نقاب پوش نے اپنی پراسرار کاروائیوں کی وجہ سے سب کو پریشان کیاہوا تھا۔گذشتہ ایک ہفتے میں یورپ کے تقریباً ہرملک میں انکے سب سے بڑے ریاضی دانوں کو انتہائی بے دردی سے موت کے گاٹ اتار دیاگیا تھا۔سب لو گ بہت پریشان تھے اور قاتل کا خوف اس قدر بڑھ گیا تھا کہ سب نے اس خفیہ میٹنگ سے قبل اقوام متحدہ کی پوری عمارت سمیت اس پورے ایریا کو ایکریمیاکی فوج کے حوالے کردیاتھا نہ صرف یہ بلکہ یہاں پر عمارت اور اسکے گرد و نواح کی مکمل فضائی نگرانی بھی ہورہی تھی۔اسکیوریٹی کو ہائی الرٹ کرنے کی بنیادی وجہ اقوام متحدہ کے جنرل سیکٹری کا خودریاضی دان ہوناتھا۔ ینگ پانگ شو کا تعلق ویت نام سے تھا،اور ان کی ریاضی کے حوالے سے بے پناہ خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں اعزازی طور پر یہ عہدہ دیاگیاتھا۔پورے یورپ میں تابوت اور پھر ان میں موجود لاشوں نے سب کو تشویش میں مبتلا کردیاتھا۔ان سب کے تابوت مختلف جگہوں سے ملے تھے اور تاحال قاتل کا بالکل سراغ نہیں ملاتھا۔اسی لئے یورپ سمیت ایکریمیا ،روس اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے اس خفیہ میٹنگ کو کال کیاگیا تھاتاکہ اس مسئلے کو جلد از جلد حل کیاجائے۔تابوت میں لاشوں کا سلسلہ ساگالینڈ سے شروع ہوا تھا اور رفتہ رفتہ اس نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیاتھا۔یہ میٹنگ اقوام متحدہ کی عمارت کے اندر ایک میٹنگ روم میں ہورہی تھی،یہ ایک ہال نما کمرہ تھا جس میں ایک بہت بڑی میز کے چاروں طرف مختلف ممالک سے خصوصی نمائندے بیٹھے ہوئے تھے اور اب پروفیسر ینگ پانگ شو کا انتظار تھا۔اس خفیہ میٹنگ کی سربراہی وہ خود کررہے تھے۔ جوں ہی وہ کمرے میں داخل ہوئے سب لوگ انکے احترم میں کھڑے ہوگئے۔وہ پروقار انداز میں چلتے ہوئے اپنی کرسی پر آکر بیٹھے اور پھران عظیم ریاضی دانوں کی یاد میں سب لوگوں نے تین منٹ کی خاموشی اختیار کی اس کے بعد سیکٹری جنرل نے اپنی گفتگو شروع کرتے ہوئے کہا۔

"محترم قابل احترام شرکاء جیساکہ آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ اس میٹنگ کو کال کرنے کا مقصد گذشتہ ایک ہفتے میں ہونے والے یورپ میں ہنگامے ہیں۔جنہوں نے ہر آنکھ کو آنسو بہانے پر مجبور کردیا ہے۔قاتل پوری انسانیت کے اوپر بہت بڑے مظالم کررہاہے۔ایسامعلوم ہوتا ہے کہ قاتل کا ارادہ پوری صفہ ہستی سے ریاضی دانوں کو مٹانا ہے۔اگر ایسا ہوا تو یہ اس صدی کا سب بڑا المیہ ہوگا،اس کی جنتی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ مگر ہمیں مذمت سے آگے بڑھ کر سوچنا ہوگا اور آج کی اس میٹنگ میں عملی اقدامات کے حوالے سے اہم فیصلے کرنے ہونگے ،میں خود ایک پروفیسرہوں اور آپ سب لوگ میری بے پناہ خدمات سے واقف ہیں۔ایک ریاضی دان کی حیثیت سے اپنے دیگر دوستوں کا یوں قتل عام ہونا برداشت سے باہر ہے۔ آپ یقین کریں ان تمام واقعات کو دیکھتے ہوئے میرا کلیجہ منہ کو آتا ہے،دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ان سب ریاضی دانوں کو قتل کیاجارہاہے۔ ان تمام واقعات کی ابتداء ساگالینڈ سے ہوئے جہاں پر مجھے امید تھی کہ کرنل فریدی ان تمام واقعات کی کڑیاں ملا کر قاتل کو لازمی پکڑلیں گے ۔ مگر وہ بھی ناکام رہے، بلکہ بعض اطلاعات تو یہ ہیں کہ کرنل فریدی اب حیات نہیں۔قاتل نے انہیں بھی قتل کردیاہے جو بہت ہی افسوسناک بات ہے۔وہ انتہائی قابل شخص ہیں ،اگر ایسے واقعات ہوتے رہے تو دنیاکو اس کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا اور آپ یقین کریں ہم اپنی آنی والی نسلوں کو کہیں بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔دنیا میں اب انتہائی تیزی کے ساتھ ترقی ہورہی ہے اب ہم مریخ کو بھی تسخیر کرچکے ہیں تو یہ سلسلہ رک جائے گا۔ جسکا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑے گااور بطور ریاضی دان میں یہ ہرگز نہیں چاہوں گا کہ ایسا ہو۔دنیاکے آج یہاں پر بہترین دماغ مدعو ہیں میری آپ سب سے گذارش ہوگی کہ برائے مہرابانی آپ سب بھی اس مسئلے پر اپنی اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر ہوسکے تو اس مسئلے سے نپٹنے کا حل بھی بتائیں تاکہ یہ خونی کھیل بند ہوسکے ۔۔۔۔۔۔"ابھی ان کی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ ایک دم سے انکے اوپرموجود روشن دان کو کوئی توڑ کراڑتاہوا نیچے آیا اور پھر اس نے ایک دم سے اپنی جیب سے خنجر نکالا اور پروفیسر صاحب کی گردن کے ساتھ لگاکر انہیں اپنی کرسی سے کھڑا کرلیا۔یہ وہی سیاہ نقاب پوش تھا جس نے پوری دنیا میں اپنے خوف کی وجہ سے تھرتھلی مچائی ہوئی تھی اور حیرت انگیز طور پر وہ اس عمارت میں تمام اسکیورٹی کو توڑ کر پہنچ گیاتھا۔سب لوگ اسے دیکھتے ہی کھڑے ہوگئے۔

"خبردار اگر کوئی بھی اپنی جگہ سے ہلا تو ۔۔۔۔۔۔۔سب اپنی کرسیوں پر واپس بیٹھ جاؤ ورنہ پروفیسر کی شہ رگ کٹنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگے گا۔" اس نے خونخوار لہجے میں کہاسب لوگ واپس اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
*********
"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے آرام سے باہر کا دروازہ کھولا اور گلی میں آگیا،سورج غصے میں تھا۔اس کی شعاعیں بدن کو جھلسا رہی تھیں مگر پیچھے موت تھی اور وہ بھی سب سے زیادہ خطرناک ۔ میں سارادن سڑکوں پر بھاگتا اور چھپتا رہا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں۔میری حالت خراب ہورہی تھی۔میں نے سوچا کہ کیوں ناں کسی ہوٹل میں جاکر کسی سے کچھ کھانے کو مانگ لوں اگر نہ ملے تو پھر کچھ الگ سوچوں گا۔ بھاگ بھاگ کراور زمین پر نجانے کہاں کہاں بیٹھ کر کپڑے بھی خراب ہوگئے تھے۔میں نے ہوٹل میں گھس کر روٹی مانگی تو انہوں نے مجھے شرم سار کرکے بھگادیا۔میں ایک ایک ہوٹل میں جاتاکہ کوئی اللہ کے نام پر ہی کچھ کھلا دے سب نے مجھے فقیر سمجھ کر دھتکار دیا۔سورج کہیں غائب ہوتاجاہا تھا اور اس کی جگہ رات اپنے بھیانک پنجے گھاڑ رہی تھی۔مجھے رات سے بہت ڈر لگتا تھا کیونکہ رات میں اندھیرا ہوتاہے اور ڈر کی بنیادی وجہ اندھیر اہی ہوتا ہے۔اندھیرا بہت بے رحم ہوتا ہے دنیا کے بہت سے را ز اسی اندھیرے میں چھپے ہوئے ہیں۔ خیر وہ پوری رات میں نے ایک فٹ پاتھ پر گزاری ساری رات آوارہ کتے مجھے ستاتے رہے۔اس رات میں نے سیکھا کہ اپنے ڈر پر کیسے قابو پانا اور باہر موجود خوفناک قوتوں سے کیسے لڑنا ہے۔میرے لئے وہ رات سب سے بھیانک تھی ،اس رات میں نے ڈرکو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا ۔تب مجھے رات کی حقیقت معلوم ہوئی ۔رات جتنی دیکھنے میں کالی اور بری لگتی ہے اتنی ہوتی نہیں۔ میں ساری رات اندر ہی اندر اپنے آپ قابوپاتارہا۔ میں اگلی تین راتیں اپنے آپ پرمکمل حافی ہو چکا تھا۔مجھے پتہ چل گیا تھا کہ بھوک اور پیاس کے ساتھ زندگی کیسے گذاری جاتی ہے۔ زندگی کیا ہے لوگ جاننے کے لئے سال ہاسال لگا دیتے ہیں میں نے تین راتوں میں سیکھ لیا تھا کہ زندگی ایسے نہیں گزر سکتی ۔۔۔۔۔"
*********
نقاب پوش کادھمکی آمیز اعلان سنتے ہی سب لوگ سہم کر اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔اس سے قبل کے مزید کوئی کاروائی ہوتی ،سامنے کے روشن دان کو کوئی توڑ کر ایکدم سے کود کر اندر گرتے ہی کھڑا ہوگیا وہ ایک اور نقاب پوش تھا۔
"خبردار زیادہ ہوشیاری مت دکھانا،تم جو کوئی بھی ہو دور رہو یہاں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"پہلے نقاب پوش نے چیختے ہوئے دوسرے نقاب پوش کو کہاتو اگلے ہی لمحے دوسرے نقاب نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹادیا۔اسے دیکھ کر سب لوگ حیران رہ گئے،یہاں تک کہ پہلا نقاب پوش بھی اپنی حیرت نہ چھپا سکا۔۔
"تم ۔۔۔۔۔۔تم ابھی زند ہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن میں نے تو تمہیں خود اپنے ہاتھوں سے گولی ماری تھی۔۔۔۔یہ یہ ۔۔۔نہیں ہوسکتا۔۔"پہلے نقاب پوش نے حیرت سے آنکھیں پھاڑتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
"ایسا ہی ہوا ہے ۔۔۔مسٹر سیاہ نیولا عرف شکیل خان۔۔۔۔۔۔۔۔اگر ایسے فریدی نے مرنا ہوتا تو اب تک کئی بار مر چکاہوتا۔بس اب تمہارا یہ مکروہ کھیل ختم،بہت ہوگیا تمہارا یہ کھیل ۔۔۔۔۔۔"یہ کہتے ہی کرنل فریدی نے اپنے پینٹ میں اڑسا ہوا خنجر نکالا اور پھر اسے مخصوص انداز میں اس نے سیاہ نقاب پوش کی طرف چلادیا۔ وہ تیزی سے گھومتا ہوا سیدھا اس کے ہاتھ کی کہنی پرلگا جس پر اس نے خنجر اٹھایا ہواتھا۔ خنجر لگتے ہی اس کے ہاتھ سے خون کا فوارا نکلا اور اس کے ہاتھ سے خنجر چھوٹ گیا۔ پس وہی لمحہ اس پر بھاری ثابت ہوا پلک جھپکنے میں فریدی نے اس پر جسد لگائی اور پھر فضا میں اڑتا ہوا وہ اس کے جانب بڑھنے لگا۔فریدی کو آتے دیکھ کر پروفیسرایکدم سے زمین پر گر کر سائیڈ پر ہوگئے کیونکہ نقاب پوش کی گرفت اب بالکل ڈھیلی پڑ چکی تھی۔ فریدی اسے لیتا ہوا زمین پر گر ا پھر اس نے دو تین گھونسے اس کے جبڑے پر رسید کئے اور پھر اس کے چہرے سے اس نے نقاب ہٹا دیا۔نقاب ہٹتے ہی اس کا مکروہ چہر ہ سامنے آگیا ۔اس کا چہرہ ایک سائیڈ سے مکمل طور جلا ہوا تھا۔جیسے کسی نے تیزاب چھڑک کر اسے جلایا ہو۔۔۔۔
"بس اب تمہاری لاش ہی تابوت میں جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
*********
شکیل خان عرف سیاہ نیولا اس وقت ایک کمرے میں بیٹھا اپنی روئیداد سنارہا تھا جبکہ اس کے سامنے فریدی ،حمید اور اقوام متحدہ کے خصوصی تفتیشی افسران بیٹھے ہوئے تھے۔اس کا چہرہ جھکا ہوا تھااور کمرے میں کیمرہ آن تھا۔اس کا تمام بیان کیمرے پر ریکارڈ ہورہا تھا۔ایسے میں فریدی گویا ہوا:
"دیکھو مسٹر مجھے تم سے ذرا برابر بھی ہمدردی نہیں ہے۔ اپنے بیان کو مختصر کرو اور فوراً مدعے پر آؤ کہ تم نے یہ سب جرائم کیوں کئے ہیں؟۔۔۔ہمیں تمہاری زندگی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔۔۔۔"سیاہ نیولا نے گہر ا سانس لیا اور پھراس نے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا:۔
"مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا،فٹ پاتھ پر چوریاں کرکے بڑی مشکلوں سے میر اپیٹ بھرتاتھا۔میں فیصلہ کیا کہ کوئی لمبا ہاتھ مارنا چاہیے تاکہ میرے ہاتھ میں پیسے آئیں اور میں آگے پڑھنے کے قابل ہوسکوں۔میں نے ایک امیرشخص کے یہاں بڑی مشکلوں سے ملازمت حاصل کی اور پھر اسکے زیر نگرانی میں نے بہت سے کام سیکھے اس نے مجھے ڈرائیونگ سے لیکر پستول چلانا سب سیکھایا۔ وہ کافی مہربان سیٹھ تھا جس نے اپنی محنت سے سب کچھ بنایا تھا۔اس کا نام سیٹھ فہد تھا،اس نے مجھے اعلی تعلم دلوانے کا فیصلہ کیا۔وہ تنہارہتا تھا،مگر غصے کا بہت سخت تھا۔ اس نے بھی مجھے مارناشروع کردیا۔ وہ جتنا مہربان تھا اتنا ہی سخت بھی،میں اس سے بھی ڈر کر رہنے لگا۔اس نے ساری زندگی شادی نہیں کی تھا اور ہی زندگی گزارتا تھا۔تبھی بہت غصیلی طبعیت کاتھا۔اس نے مجھے فوراًایک اسکول میں آٹھویں میں داخلہ دلوا دیا اور میں نے پوری کلاس میں ٹاپ کیا۔ مجھے بہت خوشی تھی سیٹھ فہد بھی کافی خوش ہوا۔ میرے ریاضی میں سو میں سے سو نمبر آئے تھے اور میں سرکاری امتحان میں ٹاپ کیا تھا۔زندگی کی گاڑی چلتی رہی رفتہ رفتہ میں نے میٹر ک بھی نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔ جس میں خاص بات یہ تھی کہ میں نے ریاضی کے مضمون میں ایک بار پھر ٹاپ کیا تھا۔وقت گذرتا رہا اور وہ سیٹھ بیمار پڑ گیا،میر اداخلہ گیارہویں جماعت میں ہوااور بس وہاں سے میر ی زندگی کا سب سے برا ٹائم شروع ہوگیا۔وہاں ریاضی کا استاد قادر پٹیل پڑھانے آتا تھا وہ اپنے آپ کے علاوہ باقی سب کو حقیر سمجھتا تھا۔خاص طور پر ریاضی میں تو اپنے برابر کسی کونہیں سمجھتا تھا۔ وہ غرور اور تکبر کے آخری درجے پر تھا۔پس یہی بات مجھے معلوم نہیں تھی،میرا حوصلہ کافی بلند تھا۔ایک دن کلاس میں وہ ایک ریاضی کے سوال پر پھنس گیاتو میں نے وہ فوراً حل کردیا جبکہ پور ی کلاس خاموش تھی۔جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ میں کافی ذہین تھا اور میرا ذہن ریاضی میں باقی تمام مضامین کی نسبت زیادہ چلتاتھا۔اس لئے میں دیر لگائے بغیر وہ مسئلہ حل کردیا جس میں میرا استاد پھنسا ہوا تھا پس اس دن سے میری شامت کا آغاز ہوگیا۔اسے میرا سوال حل کرنا ایک آنکھ نہ بھایا ۔وہ اپنے آپ کو سب سے بڑا پروفیسر سمجھتا تھا۔پھر اس دن کے بعد میر ے اوپر ظلم وتشد کی انتہا ہوگئی وہ میرے وجود سے سخت نفرت کرنے لگا۔ ہر بار کلاس میں بے عزتی کرنا اس کا معمول بن گیا۔اس نے مجھے گیارویں میں فیل کیا حالانکہ میں آج بھی پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میرے ریاضی میں سو نمبر تھے۔ پھر دوسرے سال بھی اس نے مجھے فیل کیا اور نہ صرف یہ بلکہ میر ٹھکائی الگ پورے کالج کا چکر لگوانا الگ ۔ وہ استاد نہیں ایک ذہنی مریض تھا جس نے مجھے ہمیشہ کے لئے ریاضی سے متنفر کردیا ۔اس نے مجھے سپلی میں بھی فیل کیا اور نہ صرف یہ اس کی حد اور جنون کی انتہا یہاں تک نہ رہی بلکہ اس کے خاص شاگردوں نے گھر آکر مجھ پر تیزاب بھی پھینک دیا۔ جس سے میرا پورا چہرہ جل گیا۔میں ہسپتال رہامیرا اعلاج ہوتا رہا۔ میں نے ریاضی کے مضمون اور تعلیم سے ہمیشہ کے لئے توبہ کرلی ۔ ہسپتال سے فارغ ہوا تو سیٹھ فہد کا انتقال ہوچکا تھا اس نے تمام جائیداد میرے نام کردی تھی۔ میں نے اس کی خدمت بھی بہت کی تھی ،اب میرے اندر وہ آتش فشاں تھا جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا تھا۔ میں نے یورپ اور ساری دنیا کے چکر لگائے اور پھر ایکریمیا کے سب سے بڑے سیلف ڈیفنس کے انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لے لیا۔ وہاں میں نے اپنے بچاؤ کے لئے دنیا جہاں کے علوم سیکھے ۔ جس میں مارشل آرٹس بھی شامل تھا۔میرے دل میں جو نفرت کی آگ بھری ہوئی تھی وہ بجھانا آسان نہیں تھا۔اس کے بعد میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اب دنیا میں نہ ریاضی رہے گی اور نہ ہی ریاضی دان خواہ کچھ بھی ہوجائے۔ کیونکہ اس نے میرا کیرئیر تباہ کردیا تھا۔ ورنہ شاید میں آج دنیا کا سب سے بڑا ریاضی دان ہوتا ۔ میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اب سیاہ نیولا بن کر اپنی پہچان چھپا کر پوری دنیا کو بتا دوں گا کہ جس دنیا نے مجھے حقیر کیڑا مکوڑا سمجھا ہے اب میں اسی دنیا میں ریاضی کا نام و نشان مٹا دوں گا۔خدانے اگر مجھ سے بہت سی چیزیں چھینی تھیں تو بہت سی خداداد صلاحیتیں میر ے اندر بھر دی تھیں اور ان میں سے ایک صلاحیت لیڈرشپ کی بھی تھی۔ میں کسی کو بھی اپنا غلا م بنالینے کی صلاحیت رکھتاہوں۔اسی چیز کا فاعدہ اٹھاکر میں نے دنیا بھر کے چکر لگائے اور اپنے لئے ان غلاموں کو تلاش کرنے لگا جو وقت آنے پر میرے لئے جان بھی دے سکتے ہیں۔ میں پندرہ سال بعد ساگالینڈ واپس لوٹا اور ہر طرف صرف کرنل فریدی اور اس کی بلیک فورس کا چرچاسنا۔ میں نے سوچ لیاتھا کہ اگر میں نے اپنی وارداتیں کرنی ہیں تو کرنل فریدی سے بچاکر۔میں کوئی پانچ سال تک اس استاد کو تلاش کرتارہا جس نے میرا مستقبل تباہ کردیاتھا۔وہ مجھے نہ ملاتو میں اپنے آپ کو زیادہ دیر روک نہیں سکتا تھا۔ لہذا میں نے اپنے شکاروں کی مکمل لسٹ بنائی جن کو میں ٹارگٹ کرنا تھا۔وہ تمام شکار ہے میرے لئے پروفیسر پٹیل جیسے ہی تھے ۔ میں تہہ کرلیا تھاکہ ان کے اوپر وہ ظلم کروں گا کہ پوری دنیا کہ لئے وہ لوگ عبرت بن جائیں ۔ اور میرے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں میں نے جو کیا بالکل ٹھیک کیا۔سب سے پہلے میں نے چچا اور چچی کو تلاش کروایا اور پھر انہیں انکے بچوں سمیت اسی گھر میں بند کرکے زہریلی گیس چھوڑ کر پوری فیملی کو ہی مارد دیا۔اب وہ جائیداد جو تھی ہی میری ، میرے ہاتھ آگئی تھی۔میں روہت بینک کے مالک روہت کی ریکی کروائی تو پتہ چلا کہ اس کے ایک ایسی کمزوری ہے جس سے فائدہ اٹھا کر میں اپنا مقصد پورا کرسکتا ہوں۔ اپنی تمام واداتوں کوانجام دینے کے لئے اور ریاضی کو صفہ ہستی سے مٹانے کے لئے ضروری تھاکہ میں کوئی بھی نشان اپنے پیچھے نہ چھوڑوں اور ہر ریاضی دان کو رہتی دنیاتک ایک مثال بنادوں۔ روہت کی کمزوری یہ تھی کہ وہ دولت کا پجاری تھااوراکثر کیسینو جاکرجوا کھیلتا تھا اور یہ بات اس کی بیوی کو پتہ نہیں تھی۔اسکی بیوی بہت نمازی پرہیزگار ہے،اگر اس کو اس کے اعمالوں کا پتہ چل جاتا تو اس کی بیوی اسے ہمیشہ کے لئے چھوڑکر چلی جاتی اور یہ بات وہ کبھی برداشت نہیں کرسکتا تھا۔پس میں اسے مختلف پیغامات بھجواکر اسے ٹریپ کیا وہ میری بلیک میلنگ میں آگیااور پھر اسے میں نے مجبور کیا کہ وہ اپنے بینک سے تمام سی سی ٹی وی کیمرے ہٹا دے۔ اپنے تمام لاکرز ہٹاکرانہیں خصوصی طور پر تابو ت کے سائز کے بنوائے ۔اس نے ایسا ہی کیا پھر میرے آدمیوں نے اپنی نگرانی میں اس خاص لاکر میں لاش رکھوائی جو رشیدہ کو ملناتھا۔ انور چونکہ میڈیا کا رپورٹر تھا اس لئے میں اس کے ذریعے پورے میڈیا پر اپنا خوف بٹھانا چاہتا تھاجو کہ بعد میں ایسا ہی ہوا۔انوراپنے دوست کو راضی کرنے کی خاطر رشیدہ کو لیکر بینک لاکر کھوانے لایا اور پھر انور کے ذریعے میرا خوف پورے مغل آبادمیں پھیل گیا۔حقیقت یہ ہے کہ وہ استعمال ہوا اور بری طرح سے ہوا۔ میں استادوں کو اغواکرتا انہیں اپنے خفیہ پوائنٹ لے جاتا اور پھر ان پر بے پناہ تشدد کر کے انہیں مار کر انکی لاشیں پبلک جگہوں پر رکھوادیتا۔تیسری لاش کے لئے میں نے ریلوے کے عملے کوخرید کر ان کے ذریعے لاش بزنس کلاس کے واش روم میں رکھی اور پھر روشن دان پیچ کس سے کھول کر وہاں سے باہر نکلا اور پھر باہر نکل کر روشن دان کو الٹا کرکے باہر کی طرف سے دوبارہ بند کرکے وہاں سے میں فرار ہوگیا۔یہ سارا عمل رات کے وقت ہوا جہاں ایک مقامی اسٹیشن پر ٹرین رکی تو آدھے گھنٹے میں یہ سارا عمل ہوگیا۔جب ٹرین مغل آباد رکی تو تب جاکر لاش برآمد ہوئی۔چوتھی لاش کے لئے خاض طور پر ائیرپورٹ کے خاص افراد کوخرید کر یہ عمل کیا گیا۔جس میں جہازمیں تکنیکی خرابی پیداکرگئی تاکہ پروفیسر کو ائیر پورٹ پر ہی قتل کیا جاسکے ۔یہ سارا کام انتہائی خاموشی سے ہوااور تابوت کو خفیہ طور پر ائیرہوسٹس کے کیبن میں رکھ دیاگیا۔ جب طیارہ ساگالینڈ اتراتو میرے آدمیوں نے تابوت کو سیٹوں کے درمیان اس طرح رکھ دیا کہ کسی کو بھی خبر نہ ہوئی۔اسکے بعد کرنل فریدی کی آمد ہوئی۔ تمہارے سارے آدمی پورے ساگالینڈ میں پھیل گئے اور انہوں نے میرے لئے مزید کاروئیاں کرنا ناممکن کردیا۔اس لئے یہ ضروری تھا کہ تمہیں پھنسا کر ایک سائیڈ پر لایا جائے۔اسی مقصد کے لئے تمہیں اس قلعے میں پھنسا کرلایا گیا اور پھر میں نے تمہیں خود اپنے ہاتھوں سے مارا مگر تم نہ جانے کیسے بچ گئے یہ یہ ناممکن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" سیاہ نیولا نے اپنی پوری کہانی سناتے ہوئے اپنی تمام وارداتوں کا احوال بھی بیا ن کردیا۔

"اگر فریدی نے اس طرح مرنا ہوتا تو کب کا مرگیا ہوتاجسے اللہ رکھے اسے کون چکھے ؟۔مجھے گولی لگی تھی اور میں سیدھا پانی میں جاگرا تھا اور پھر اسکی موجوں کے سہارے بہتا ہوا بہت دور ایک قبیلے میں جاپہنچا۔ وہ لوگ بظاہر شہری زندگی سے دور دیہاتی زندگی گزار ہیں ۔ انہوں نے میرا اعلاج کیا ، میری گولی نکالی اور مجھے ایک خاص جنگلی جڑی بوٹی لگاتے رہے ۔ جس کا اثر فوراً اور دیر پاہوتاہے۔ انہی کے اعلاج کی وجہ سے آج میں زندہ ہوں۔مگر تمہیں اب انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں لے جایاجائے ۔اگر تمہارا بدلا ایک انسان کی حد تک رہتا تو تم شاید بچ سکتے تھے مگر اب نہیں ۔تمہارے جسم کو اسی طرح کلہاڑے سے کٹ لگا کر مارا جائے گا اور اس کے بعد تمہیں تابوت میں بند کرکے تمہاری لاش کو سمندر کے حوالے کردیا جائے گا۔یہ بھی ممکن ہے کہ فرعون کی طرح تمہیں پانی بھی قبول نہ کرے تو تمہاری لاش باقاعدہ حنوط کرکے لندن کے میوزیم میں رکھوادی جائے گی۔ تم ساگالینڈ کے نہیں پوری انسانیت کے قاتل ہو اور تمہارا انجام سخت سے سخت ہوگا۔اب تمہیں عبرت کا نشان بنایاجائے گاتاکہ آئندہ آنے والی نسلوں میں بھی کوئی سیاہ نیولا نہ پیدا ہو۔۔"کرنل فریدی نے غراتے ہوئے اسے گھورکر کہا اور پھر وہ باقیوں کیساتھ اٹھ کر تیزی سے کمرے سے نکل گیا۔

*********