SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 1 of 1

    Thread: جماعتِ اسلامی گریبان میں جھانکے ورنہ انجا

    1. #1
      Moderator Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982
      smartguycool's Avatar
      Join Date
      Nov 2017
      Posts
      616
      Threads
      448
      Thanks
      102
      Thanked 493 Times in 328 Posts
      Mentioned
      127 Post(s)
      Tagged
      61 Thread(s)
      Rep Power
      7

      جماعتِ اسلامی گریبان میں جھانکے ورنہ انجا


      آئينی، فکری اور سیاسی جدوجہد کے ذريعے اسلامی انقلاب کا تصور پيش کرنے والے مفکر، محقق اور رہنما سید ابو الاعلیٰ مودودی نے جماعت اسلامی کی 77 سال قبل بنياد رکھتے وقت يہ تصور بھی نہيں کيا ہو گا کہ ايک وقت ايسا بھی آئے گا کہ ان کے تصورِ انقلاب کی راہ ميں ان کی اپنی ہی جماعت رکاوٹ بن جائے گی اور اس طرز سياست کی نفی کرے گی جس کی بنیاد انھوں نے ڈالی تھی۔
      قیام پاکستان سے قبل تین شعبان 1360 ہجری (بمطابق 26 اگست 1941) کو جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا۔ آج اپنے آپ کو پاکستان کی سب سے بڑی اور پرانی سیاسی تحریک کہلوانے والی جماعت کو یکے بعد دیگرے آخری دو عام انتخابات میں ایسی ناکامی نصیب ہوئی کہ اس کے لیے اپنے گریبان میں چھان کر اپنی حکمت علمی اور پالیسیوں کا تفصیلی جائزہ لینے سے اس سے زیادہ موزوں وقت کبھی نہیں آیا تھا۔
      جماعت اسلامی نے سنہ 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جس کی وجہ سے وہ پہلے ہی خاصی حد تک انتخابی عمل سے دور جا چکی تھی لیکن سنہ 2013 اور 2018 کے انتخابات میں کامیابیوں کا سلسلہ کم ہوتا گیا۔ 25 جولائی کو قومی اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں محض ایک ایک نشست ہی حاصل کر پائی۔ اپنے دیر اور بونیر جیسے مضبوط گڑھ سے بھی اس کا تقریباً صفایا ہو گیا۔
      جماعت اسلامی نے شکست کے بعد ایک مرتبہ پھر اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔ پہلے مرکزی مجلس عاملہ پھر مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس ہوئے جس میں انتخابی نتائج کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں 25 جولائی سنہ 2018 کے عام انتخابات کو غیر شفاف، غیر جانب دارانہ اور غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ الیکشن کمیشن کی بہت بڑی ناکامی ہے۔
      جماعت کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سیاست و انتخابات میں مداخلت تو کسی نہ کسی انداز میں ماضی میں بھی کی گئی لیکن انتخابات 2018 کے مطلوبہ نتائج کے لیے گذشتہ کئی سال سے بقول ان کے ان کی واضح اور ہر کسی کو نظر آنے والی مداخلت ہوئی جو ملک و قوم کے لیے ہی نہیں خود اداروں کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔
      جماعت اسلامی کو تو اس میں بیرونی سازش کی بو بھی آئی ہے۔ امریکہ اور انڈیا کی طرف سے پاکستان میں دینی جماعتوں کی شکست پر آنے والے بیانات نے اس کے خیال میں یہ واضح کردیا ہے کہ دینی جماعتوں کے خلاف دھاندلی کے اس کھیل میں ملکی کے ساتھ ساتھ عالمی اسٹیبلشمنٹ بھی شامل تھی۔

      جماعت کے ساتھ جو بھی ہوا اس کے مستقبل میں تدارک کے لیے مرکزی مجلس شوریٰ نے کارکنان کی رائے اور تجاویز لینے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ ایک چار رکنی کمیٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے۔
      یہ کمیٹی دعوت و تربیت اور تنظیم کے حوالے سے کام کرے گی کہ کون سی کون سی تبدیلیاں اب لازم ہیں؟ دعوت اور تربیتی نظام کو کس طرح وسعت دی جائے؟ تنظیم اور دستور میں کس حد تک تبدیلی ممکن ہے؟ یہ جماعت آنے والے دنوں کے لیے جو بھی حکمت عملی ترتیب دے اس کے ماضی پر ایک نظر دوڑانے سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اسے کمزور کرنے کی اندرونی اور بیرونی کوششیں اس وقت سے جاری ہیں۔
      مولانا مودودی کی فکر سے اختلاف کرتے ہوئے کئی بڑے نام جماعت اسلامی سے عليحدہ ہوئے جن ميں مولانا امين احسن اصلاحی، ڈاکٹر اسرار احمد اور مولانا عبدالجبار غازی وغيرہ شامل ہيں۔
      مودودی کی زندگی ميں سنہ 1977 وہ کربناک سال گزرا جس ميں سب سے زيادہ ان کو دکھ اور مايوسی جماعت اسلامی کی قيادت نے فوجی آمر جنرل ضياالحق کا ساتھ دے کر پہنچائی۔
      جماعت کے اندر یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ اس دن سے جماعت اسلامی کی پسپائی اور رسوائی کا ایک نہ رکنے والا سفر شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔
      جنرل ضيا الحق کے مارشل لا سے قبل جماعت اسلامی کا کارکن انتہائی فعال، مُنظم اور حالات حاضرہ پہ نظر رکھنے والا اور اپنی بستی ميں احترام پانے والا ہوا کرتا تھا۔
      ضيا الحق نے بظاہر دينی رُحجان رکھ کر جماعت اسلامی کے کارکن کو سياسی جدوجہد سے دور کرنے کی سازش کی جس ميں اسے بے حد کاميابی ہوئی۔ نوجوان کارکن جہاد افغانستان کی بھينٹ چڑھا دیے گئے اور بقيہ جہاد کشمير کے نام پر اپنی جانوں پہ کھيل گئے۔


      سياسی عمل کو جس تازہ خون کی ضرورت تھی وہ فوج کے سُپرد ہو گيا اور سياسی جدوجہد کے لیے ميدانِ مارشل لا لگانے والوں نے اپنی کٹھ پتليوں کے لیے اسے خالی کروا ليا۔ جہادی کلچر جماعت اسلامی ميں سر چڑھ کر بولا اور پروفيسر غفور احمد جيسی ہستی کو نظر انداز کر کے مکمل طور پر غيرسياسی مگر جہادِ افغانستان کے اہم کردار قاضی حسين احمد کو جماعت کا امير بنوانے کی راہ ہموار کی گئی۔ انھوں نے ہر وہ کام کیا جو سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے کہا اور جو سيد مودودی کی فکر کے خلاف تھا۔
      قاضی حسین احمد نے نظريہ اور سچائی کی سياست کے بجائے جوڑ توڑ اور فوج کی مبینہ مدد سے مسند اقتدار تک پہنچنے کے لیے وہ کُچھ بھی کر ڈالا جس کے لیے دوسری سياسی جماعتيں شُہرت رکھتی ہيں۔
      جماعت اسلامی کو ايجنسيوں کے طفيلی بنانے ميں قاضی صاحب کا دور امارت اہم رہا۔ سيد منور حسن نے ان کے بعد امير منتخب ہوکر جماعت اسلامی کے نام، پرچم، انتخابی نشان اور سيد مودودی کی فکر واپس لانے کی سعی کی جس کا لازمی نتيجہ فوج سے مبینہ رومانس کا خاتمہ تھا۔ ان کے ايک بيان کو بنياد بنا کر ايک کامياب مُہم چلائی گئی۔
      یہ سيد مودودی کی فکری جماعت کی بے بسی انتہا اور مرگ الموت کی ظاہری علامت تھی۔ سراج الحق کی کارکردگی مايوس کن اور بے سمت رہی۔
      جماعت اسلامی کو سيد مودودی کی مکمل سياسی جدوجہد کی طرف لوٹنا پڑے گا اور فکری ڈاکہ ڈالنے والوں سے ہو شيار رہنا پڑے گا ورنہ خاکسار تحريک اور جماعت اسلامی کے انجام ميں فاصلہ چند بالشت کا رہ گيا ہے۔



    2. The Following User Says Thank You to smartguycool For This Useful Post:

      intelligent086 (08-30-2018)

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •