ہم پاکستانی بڑے ہی ظالم لوگ ہیں، اسی لیے ہم پہ پچھلے 70 سالوں سے سوائے، سکندر مرزا، ایوب خان، یحی ٰ خان،ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے،بد عنوان اور ظالم لوگ ہی حکومت کرتے رہے۔
اب اللہ اللہ کر کے ایک شریف النفس، صادق اور امین، وجاہت و نجابت کا پیکر، جس کے دل میں خوفِ خدا اور ہاتھ میں تلوار معاف کیجیے گا تسبیح ہے، وزیرِ اعظم بنا تو اب بھی ان کو چین نہیں۔
حلف برداری کی تقریب کو ابھی ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ عید آ گئی۔ مملکتِ خدادا کے خیر خواہ ابھی معترضین کے سامنے خان صاحب کے تلفظ کا دفاع کر کر کے ہی نڈھال تھے کہ ایک نیا شوشہ اٹھ کھڑا ہوا۔
عید کی نماز پڑھی یا نہیں پڑھی؟ چونکہ انقلاب، راتوں رات آتے ہیں اور تحریکِ انصاف ایک انقلابی تحریک ہے اس لیے راتوں رات سبھوں کو معلوم ہو گیا کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے اور عبادت کی تشہیر نہیں کرنی چاہیے۔
اب یہ جو پرانی وضع کے لوگ ہیں خوامخواہ اصرا ر کیے جا رہے ہیں کہ عید کی نماز تو مسلمانوں کی اجتماعی عبادت ہے۔ با جماعت نماز، نمازِ جمعہ اور حج کی طرح کا اجتماع ہے۔ ان لوگوں کو کچھ بھی نہیں پتا۔ ان کو چاہیے کہ اپنی معلومات کو انقلابی کرنے کے لیے کامریڈ فواد چودھری صاحب کی پریس کانفرنس غور سے سنیں۔
پرانے پاکستان میں ہر خبر رساں ادارے کے ایک یا ایک سے زیادہ رپورٹرز کو وزیرِ اعظم کی ‘بیٹ ‘ دی جاتی تھی اور ان کا کام ہی وزیرِ اعظم کے دن رات کی خبر رکھنا ہوتا ہے۔
مجھے لگتا ہے ان سب نے باہمی صلاح سے، عید کی نماز کی کوریج کی بجائے اپنے اپنے بکروں کے لیے قصائی ڈھونڈھنے شروع کر دیے تھے۔ سنا ہے ایک نجی ٹی وی چینل والے سیانے ہیں، ملازمین کو تنخواہ ہی نہ دی کہ نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری لیکن خبر وہاں سے بھی نہ آئی۔
بانسری سے یاد آیا کہ گئے وقتوں میں ایک بادشاہ کے سر پہ سینگ نکل آیا( بادشاہوں پہ ایسی ناگفتنی آفات ہمیشہ ہی سے آتی ہیں حوصلہ رکھیں )۔
اب بادشاہ اس راز کو چھپانے کے لیے ہر مہینے اس حجام کو قتل کر دیتا تھا جو اس کی حجامت بناتا تھا۔ ایک بار ایک مسکین صورت حجام آیا اور بادشاہ کا ارادہ جان کے پیروں میں پڑ گیا کہ میں یہ راز کبھی کسی سے نہ کہوں گا۔ بادشاہ بھی روز روز کے کشت و خون سے تنگ آ گیا تھا، مان گیا۔
حجام کرنے کو تو وعدہ کر آیا لیکن کچھ ہمارے ہاں کے صحافیوں کی سی فطرت پائی تھی، رات تک راز کے بوجھ سے نڈھال ہو گیا۔ آخر جنگل میں جا نکلا اور ایک اندھے کنوئیں میں منہ ڈال کر خوب چلایا،’بادشاہ کے سر پہ سینگ۔۔۔ بادشاہ کے سر پہ سینگ‘۔ بارے تسلی ہوئی اور سکھ کی نیند سویا۔
اب تو ہر ماہ یہ ہونے لگا ۔ بادشاہ بھی خوش حجام بھی خوش۔ لیکن ہونی ہو کر رہتی ہے۔ ایک روز خلقت نے سنا کہ ایک لڑکا شہر کے چوراہے پہ کھڑا بانسری بجاتا ہے اور بانسری میں سے آواز آتی ہے،’بادشاہ کے سر پہ سینگ۔۔۔ بادشاہ کے سر پہ سینگ۔‘ بادشاہ نے غضب ناک ہو کر اس لڑکے کو پکڑا اور حجام کی گردن بھی ناپی۔

حجام کی مناسب جوتا کاری کی گئی اور بعد ازاں پوچھا گیا کہ تو نے شاہی راز افشا کیوں کر کیا؟ کیا تو اس کی سزا نہیں جانتا ؟ تس پہ اس مردک نے ہاتھ جوڑ کے ساری کتھا کہہ سنائی۔
یقیناً انصاف پسند بادشاہ نے اس پیٹ کے ہلکے حجام کو کیفرِ کردار تک پہنچایا ہو گا۔ راوی اکثر ایسی باتوں میں گڑ بڑ کر جاتے ہیں۔ خیر ہمیں کیا اتنی پرانی دھرانی کہانی سے۔ کہنے کا مقصد بس اتنا تھا کہ پیارے بچوں! بادشاہت کا تاج، کانٹوں کا تاج ہوتا ہے اور اس کا وزن سہارنا بہت مشکل ہے۔
پرانے بادشاہوں کے انجام سے سبق سیکھیں۔ بادشاہوں کے راز جاننے کو اور نشر کرنے کو ہر شخض بے تاب رہتا ہے۔ اس پہ ناراضی کیسی؟ یا تو اپنے سینگ کا صفایا کیجیے یا کھلے دل سے تسلیم کیجیے کہ ہاں بادشاہ کے سر پہ سینگ ہے۔ آخر بادشاہوں کے سر پہ سینگ نہیں ہوں گے تو کیا پاگلوں اور گدھوں کے سروں پہ ہوں گے؟