(لاشوں کا رقص(سپریم قسط


عر ش سے گرنے والے موتیوں کی روشنی اب ماند پڑرہی تھی ،رفتہ رفتہ بادلوں کا بھی غصہ اور جلال معدوم ہوتاجارہاتھا۔ گزشتہ طوفانی رات کروٹیں بدلتی اب پس منظر میں کہیں غائب ہورہی تھی اوراس کی جگہ اب صبح اپنی تمام تر تروتازگی کیساتھ منظر پرظاہر ہورہی تھی۔قلعے کی فضا بارود کی بو سے اٹی ہوئی تھی اور یہاں پر جنگ کا ساسماں تھا۔سامبا جوں ہی روشندان کے ذریعے چھت پر پہنچاتو ایک گھٹنا پوری قوت سے اس کے منہ پر لگا اوراس کے ساتھ ہی خون کی پچکاری اس کے منہ سے نکلی اور وہ پلٹ دوسر ی طرف گرگیا۔کوئی پہلے سے ہی اس کے تاک میں بیٹھا تھاکہ جیسے ہی سامبا اوپر آئے تو وہ اس پر حملہ کردے۔پھر وہ تیزی سے چلتا ہوا سامبا کے سر پر پہنچا اورپھر وہ سامبا کو اپنے بوٹ کی مدد سے اس کے منہ پر ٹھوکر لگانا ہی چاہتا تھا کہ سامبا نے اسے اپنے مضبوط ہاتھوں سے روک کر اپنا دفاع کیا ۔ بعدازاں اس نے اپنی ٹانگیں سمیٹ کر حملہ آور کے پیٹ میں رسید کیں تو وہ اچھل کرزمین پر جاگرا۔وہ لڑائی زیادہ دیر تک نہ چلی اور پھر اس نے جلد ہی اس پر قابو پالیا۔اسے فارغ کرتے ہی اس نے اپنی مشین گن اٹھائی اور پھرجھکے ہوئے انداز میں وہ گھوم پھرکر چھت کو دیکھنے لگا وہاں پر خون سے نشان بنے ہوئے تھے جیسے کسی کو گھسیٹاگیاہو۔پھر اسے ایک بڑی سی چٹان کے پیچھے ایک آدمی کی لاش مل گئی،چھت پر بڑے بڑے کنڈے لگاکر وہ لوگ چڑھے تھے ۔ پھر اس نے جھکتے ہوئے چھت کی چار دیواری کے پاس آکر دوسری طرف دیکھا تو قلعے کے مین گیٹ پر شدید نوعیت کی آگ لگی ہوئی تھی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک بھیانک آگ میں لپٹا ہوا گولااڑتا ہواپلکیں جھپکتے ہی مین گیٹ سے آلگا ، ایک بہت بڑابلاسٹ ہوا اور قلعے کا آہنی دروازہ ایک دھماکے ساتھ آسمان کی طرف اڑتا چلا گیا۔قلعے کی ہر چیز بری طرح سے لرزنے لگی ۔زمین میں ایک عجیب گرگراہٹ ہونے لگی ،ایسا لگتا تھاکہ اب تو واقعی قلعہ گر جائے گا مگرایسانہ ہوا وہ زور زور سے جھولتے ہوئے اچانک رک گیا۔کچھ دیرقلعے کا گیٹ فضا میں رہا اور پھر وہ پوری رفتار سے قلعے کی پچھلی طرف آکر گرا۔وہاں پر بھی بلیک فورس اور اس کی مخالف فورس کی شدید نوعیت کی لڑائی ہورہی تھی اور لگتا تھا کہ بلیک فورس کو مخالف قوت نے بری طرح سے پچھاڑ دیا تھا۔مگراب بھی بہت زبردست لڑائی جاری تھی،قلعے کے سامنے بہت سے لوگ اندر آنے لگے اور سامبا نے اپنی مشین گن درست کی اور پھر اس نے باہر سے آنے والے سب لوگوں کو نشانے پرلے لیا۔ بندے تھے کے وہ کیڑے مکوڑوں کی طرح مچلتے ہوئے گر رہے تھے۔ہر طرف لاشوں کا رقص اپنے عروج پر تھااور سامبا کی مشین گن سے نکلنے والے آتشی قہقہوں کے شور نے پورے ماحول کو اپنے سحرمیں جکڑا ہوا تھا۔

*********
رشیدہ جوں ہی ریلوے اسٹیشن پہنچی تو اس کے ملازمین بارش میں چھتریاں لیئے بھاگتے ہوئے اس کے استقبال کے لئے پہنچے اور پھر ان سب نے ملکر اسے سلام کیا اور رشیدہ ایک کیمرہ گلے میں لٹکاتے ہوئے نیچے اتری اور پھر اس نے گاڑی بند کی۔وہ سب ایک چھوٹے سے جلوس کی صورت میں زینے چڑھتے ہوئے ریلوے کی مرکزی عمارت میں داخل ہوئے ہی تھے کہ اسٹیشن ماسٹر خودنکل کر اس کا استقبال کرنے کے لئے آگیا تھا۔پتہ نہیں یہ مہان سنگھ کے فون کا اثر تھا یا مجرم کی معاونت کے بعد اب پکڑے جانے کے خوف کی وجہ سے بھاگ دوڑ ہورہی تھی۔ان کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ رشیدہ کو ریلوے اسٹیشن کی پارکنگ سے ہی کندھوں پر بٹھاکرلاتے ،شاید اگر وہ صنف نازک نہ ہوتی تو وہ ایساکربھی لیتے۔ مگرابھی وہ جوکچھ کررہے تھے ،وہ بالکل اس سے مختلف نہیں تھا۔ رشیدہ کو اسٹیشن ماسٹر کے بے حد اصرار پراس کے آفس میں اس کے ساتھ بیٹھ کرزبردستی چائے پینی پڑی ورنہ آفر تو کینڈل لائٹ ڈنر کی تھی۔کینڈل لائٹ اس لئے کہ ریلوے اسٹیشن کی عمارت بہت پرانی تھی اس لئے اس کا بجلی کا سارا نظام بھی بوسیدہ ہوگیا تھا۔شدید بارش کی وجہ سے عمارت جگہ جگہ سے ٹپکنے لگتی تھی اور پھر بجلی غائب ہوجاتی تھی جس کی وجہ سب سے لوگ ہی کینڈل لائٹ ڈنر کرتے تھے۔ کئی دفعہ سرکار نے انہیں خصوصی گرانٹ بھی دی تھی کہ وہ لوگ اپنی وائرنگ کا نیانظام وضع کریں اور اس کے ساتھ ساتھ عمارت کی نئے سرے تعمیربھی کریں مگر وہ سارے پیسے لوٹ مار میں ضائع ہوجاتے تھے۔پورا عملہ ہی کرپٹ تھا ،کئی بار انکے حوالے سے خبریں بھی بریک ہوئیں مگر وہ اپنی عادات سے باز نہ آئے یہاں تک کہ سرکار نے ملازمین کو نکالنے کا بھی فیصلہ کیامگر وہ اتنے طاقت ور تھے کہ گذشتہ تین دہائیوں سے اپنی نوکریوں پر سانپ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھے تھے۔ مگر ان سے کسی کی جرات نہیں ہوئی تھی کہ کوئی سوال بھی کرلے۔اسٹیشن ماسٹر جسوال ادھیڑ عمرتھا اور چہرے سے ہی مکار اورلالچی لگتاتھا۔اس کا نام کئی بار میڈیا کی خبروں کی زینت بناتھا مگر وہ ڈھیٹ اتنا تھا کہ اپنے عہدے سے ہٹتا ہی نہیں تھا۔ بلکہ وہ اپنے دوستوں کی محفلوں میں اکثر کہا کرتاتھا کہ"عزت آنی جانی چیز ہوتی ہے بس بندہ ڈھیٹ ہونا چاہیے ،اب ان دو ٹکے کے میڈیا والوں کی خاطرکیا میں اپنی اتنی بڑی نوکوی کو ٹھوکر لگادوں۔میری بلا سے کرتے رہیں جو ان کا من کرے ،سناہے آج کل میرے اوپر بڑے مضامین بھی لکھے جارہے ہیں۔آخر کل کو ان میڈیا والوں نے کبھی نہ کبھی ٹرین پر ہی سفر کرنا ہے میرے محتاج ہی رہیں گے۔۔۔۔"
خیر مجبوراًرشیدہ نے اس کے بے حد اصرار پر چائے پی ورنہ جسوال کے بارے میں وہ خوب جانتی تھی اوراسی وجہ سے وہ اسے زیادہ منہ نہیں
لگا نا چاہتی تھی مگر کیاکرتی کڑوا گھونٹ پی کر اسے وہ سب برداشت کرنا پڑا۔ایک تواسے جسوال کی شکل زہر لگ رہی تھی دوسر ا چائے تو حلق سے اترنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔اس کا بس چلتا تو وہ اس کے منہ پر چائے انڈیل دیتی مگر آداب محفل کا خیال رکھتے ہوئے اسے اپنا ہاتھ روکنا پڑا۔ اسے اپنی اتنی آؤبھگت دیکھ کر یہ بھی لگ رہا تھا کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہوگا، عین ممکن تھاکہ پوری دال ہی کالی ہو۔آخروہ سب کیا چاہتے تھے؟ اگر وہ لوگ قاتل کے اس جرم میں شریک تھے توان سب کو انکے کئے کی سزا ملنی چاہیے تھی۔رشیدہ کے دل کے کسی گوشے میں قاتلوں اور ان کے معاونین کی رتی برابر بھی ہمدردی نہیں تھی۔ وہ چاہتی تو خود اپنے ہاتھوں سے ان سب کو ٹانگ دیتی کیونکہ قاتل نے جس وحشیانہ انداز میں لوگوں کو قتل کیاتھااسکے بعد توقاتل سمیت اس کے کسی معاون کے ساتھ ہمدردی رکھنا جرم کرنے کے مترادف تھا۔مگر اس بات کا تعین کیسے ہو کہ ریلوے اسٹیشن کاعملہ بھی قاتل کے ساتھ ملا ہواتھا۔اس کے لئے ضروری تھاکہ اس بوگی میں جاکر خود اس کے واش روم کاتجزیہ کیاجاتاتب جاکر صورت حال واضح ہوتی ۔پھر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ جاکرپہلے بوگی دیکھے گی پھر انہیں اپنے سخت سوالات کے ساتھ کریدے گی تاکہ وہ اس قابل ہوسکے کہ پردے کے پیچھے چھپی ہوئی اصلی تصویرکھول کرسامنے لاسکے۔اگر اس میں ریلوے کا عملہ شامل ہوا تووہ اپنی گرفتاری پر شدید مزاحمت کرے گا اور یہ بھی ممکن تھا کہ وہ پورا تعاون ہی نہ کرتے لہذا اس نے سوچاکہ اگرایسی نوبت آئی تو عملے کو یہی تاثر دے گی کہ سب اچھاہے اور پھر وہ پوری رپورٹ کرنل فریدی کو جاکر دے دے گی۔اسے یہ معلوم تھاکہ اس کیس پر بلیک فورس پہلے سے ہی کام کررہی تھی ۔مگر وہ اپنا تجسس مٹانے کے لئے انور کی طرح خود ہی میدان میں آگئی تھی ۔تاکہ ایک تیر سے تین شکار ہوں ایک تو اس کا تجسس مٹ جائے ،دوسرا کرنل فریدی کی مدد ہوجائے اور تیسرا قاتل بے نقاب ہوجائے۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ کرنل فریدی کو اس کی یہ حرکت بری لگتی ،مگر اس نے کرنل فریدی کا غصہ برداشت کرنے کا ریسک لیتے ہوئے انہیں اپنی کارکردگی دیکھانے کا فیصلہ کیا ۔ یہ جو گاڑی وہ چلارہی تھی،وہ انور کی تھی جو اس نے کرنل فریدی سے لی تھی ۔ اس سے قبل بھی انور کرنل فریدی کی کئی بار مختلف کیسوں میں مدد کرتا رہا تھاجس میں خود رشیدہ نے اس کی بہت مدد کی تھی۔اسی وجہ سے انور کو کرنل فریدی کی یہ گاڑی سرکاری طورپر ملی ہوئی تھی ۔
پھر چائے کے دوران رشیدہ نے اسٹیشن ماسٹر سے کہا۔
"سرجسوال کیا میں وہ بوگی دیکھ سکتی ہوں جس میں سے وہ تابوت اور لاش ملی؟"
"ہاں ہاں کیوں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔وہ تو مہان سنگھ صاحب نے اسی دن ہی سیل کردی تھی۔پھر ہم نے اسے مین ٹریک سے اتار کر ایک سائیڈ ٹریک پر ڈال کر ریزرو روم میں لے گئے تھے۔جہاں ہماری دیگر بوگیا ں اور اینجن وغیر کھڑے کئے جاتے ہیں۔اس کی سیل اب تک لگی ہوئی ہے اورہم نے اسے نہیں چھیڑا۔اب آپ کے سامنے اسے کھولا جائے گا،امید ہے آپکو ہماری حفاظت سے تسلی ہوگی ۔ ہم خاص طور پر اپنی بوگیوں کا خیال رکھتے ہیں،انہیں بارش ،اندھی ،طوفان غرض کچھ بھی ہو اسے ہم اپنے ریزرو روم میں رکھتے ہیں تاکہ وہ موسمی آفات سے محفوظ رہیں۔"
"یہ تو آپ نے بہت اچھا کیا،ایساہی ہوناچاہیے۔۔۔۔ویسے کیا آپ نے اپنے محکمے کے اندر بھی کسی قسم کی تفتیش کروائی ہے؟اگرہاں تو پھر اس کا نتیجہ کیا نکلا؟۔۔۔۔"
"جی آپ نے بہت اچھا سوال کیا، اس سوال پر میں آپ کابہت مشکور ہوں اور میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ہم نے بالکل تفتیش کروائی ہے۔ کیونکہ ہم اپنے ادارے پر کسی قسم کاکوئی دھبہ برداشت نہیں کرسکتے ۔ہم لوگ بہت پروفیشنل ہیں اور عرصہ دراز سے ریلوے کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ہمارے تمام افسران انتہائی قابل، فرض شناس اور ادارے سے پیار کرنے والے ہیں ۔وہ سب لوگ معاملے کی سنگینی کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔اس بوگی کے واش روم سے تابوت میں لاش ملنے کے بعد ہم نے باقاعدہ اپنے سینئر افسران کے ساتھ ملکر میٹنگ رکھی جس میں یہ طے پایا کہ جو بھی قاتل کا معاون ثابت ہوا ہم لوگ سرکار سے کہہ کر فوری طور پر اسے اس کی نوکری سے نکلواکر اس کے اوپر کیس چلانے کی سفارش کریں گے۔آ پ یقین کریں میں اپنے بھگوان کی سوگند کھا کرکہتاہوں کہ ریلوے کا سب عملہ ہمارے فیصلے سے بہت خوش تھا اورانہوں نے ہم سے وعدہ کیا کہ وہ لوگ مکمل تعاون کریں گے۔ پھر ہم نے چند اہم سینئر افسران کی نگرانی میں ایک تین رکنی کمیٹی بنادی۔ انہوں نے آج دو بجے ہی مجھے رپورٹ دی ہے کہ بھگوان کی کرپا سے ادارے کا کوئی فرد بھی اس میں ملوث نہیں ہے ۔میں یہ بات بڑے فخر سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ہاتھ بالکل صاف ہیں اور آپ نے یہ بات یہاں آکر محسوس بھی کی ہوگی کہ ہم لوگ کتنے مستعد ہیں۔ ۔۔۔۔" جسوال نے زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ رشیدہ کی بات کا جواب دیا۔ اس دوران وہ اپنی چائے مکمل کرکے کپ واپس ٹرے میں رکھ چکی تھی۔جسوال کی بات ختم ہوتے ہی وہ اٹھ کرکھڑی ہوگئی۔
"جی جی بالکل یہ بات تو میں نے بھی محسوس کی ہے کہ آپ کا ادارہ بہت محنتی ہے،باقی میڈیا والوں نے تو ایسے ہی باتیں بنائی ہوہیں۔ ان کا تو کام ہی یہی ہے میں سمجھ سکتی ہوں۔۔۔اب کیا ہم چلیں۔۔۔"
"بس جی آپ کا بہت بہت شکریہ آپ نے ہماری اس قدر تعریف کی ،میں تو پہلے سے ہی جانتا تھا کہ آپ ایک ایماندار افسر ہیں اور جہاں کرنل صاحب کا نام آجائے پھر وہاں بات ہی ختم ہوجاتی ہے۔ ان کا انتخاب تو یقیناسب سے شاہکارہے، مجھے آپ کے یہاں آنے سے بہت خوشی ہوئی۔آپ نے ریلوے اسٹیشن آکر چار چاند لگادیئے،میں آپ کے آنے سے پہلے آپ ہی کے بارے میں اپنے ماتحتوں سے کہہ رہاتھا کہ کرنل صاحب کی طرف سے آنے والی مس بہت قابل ہونگی اور ہمیں انکے استقبال میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں چھوڑنی چاہیے۔آپ نے پھر دیکھا ہوا بھی ویسا ہی ۔۔۔۔۔۔اور ہاں کیوں نہیں میں آپ کو وہ بوگی دیکھاتا ہوں، اب وہ سیل آپ کی نگرانی میں توڑی جائے گی۔"پھر وہ دونوں چلتے ہوئے کمرے سے باہر سے نکل گئے ، وہاں سے نکلتے وہ زینوں کی جانب بڑھ گئے،ان کی مد د سے وہ لوگ ٹرین کے تین ٹریک کراس کرکے دوسری جانب ایک اور پلیٹ فارم پر پہنچ جاتے ۔ایک آدمی نے جلدی سے آکر دو چھتریاں رشید ہ اور جسوال کو دیں اور پھر وہ دونوں دیگر افسران کے ساتھ ملکر زینے چڑھنے لگے۔کچھ دیر کے بعد وہ لوگ دوسرے پلیٹ فارم پر پہنچ گئے بارش اپنے پورے جوبن پر تھی۔وہاں سے وہ لوگ دو ٹک شاپس کے درمیان سے ہوتے ہوئے دوسری جانب پہنچے اور پھر ایک کمرے کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے۔اس کا تالہ کھول کر وہ جوں ہی اندر آئے تو اب وہ ایک بڑے ہال نماکمرے میں داخل ہورہے تھے۔جہاں بہت سے ٹریکس پر بوگیاں اور انجن کھڑے ہوئے تھے ،جبکہ ایک جانب ایک بڑا سامین گیٹ تھاجو فی الحال بندتھا جسے کھول کر بوگیوں کو انجن کی مدد سے باہر لے جایاجاتا تھا۔سب سے الگ تھلگ ٹریک پر وہ بوگی موجود تھی جس کی تلاش میں رشیدہ نے یہ ساراچکر چلایاتھا۔سب اسے بوگی کے پاس لے گئے،پھر اس کی موجودگی میں بوگی کے دروازے پر سیل اتاری گئی اور پھر وہ دروازہ کھول کر ایک ایک کرکے بوگی میں داخل ہوئے ۔ پھرواش روم کی سیل بھی کھولی گئی تو رشیدہ واش روم کے اندر داخل ہوئی اور پھر اس نے اپنی گہری نظروں سے چاروں طرف واش روم کودیکھا جہاں سے تابوت برآمد ہوا تھا وہاں پر ایک چاک کی مدد سے تابوت کا نشان بنا ہواتھا۔ نہایت غور سے دیکھ بھال کر جب اس کی نظرروشن دان کی جالی پر پڑی تو وہ چونک گئی۔ اس نے اپنے کیمرے سے اس کی مختلف زاویوں سے تصویریں اتاریں اورپھر وہ بوگی سے اتر کر جوں ہی دوسری طرف واش روم والی سائیڈ پر آئی تو اس کی آنکھوں میں اس بار گہری چمک تھی۔ لگتا تھاکہ جیسے اس نے ایک اہم نکتہ پالیاہو۔پھر اس نے ریلوے کے عملے سے چند اہم سوالات کئے تو اس کی آنکھوں کی چمک مزید گہری ہوتی چلی گئی۔اس کے بعد اس نے باہرسے بھی چند تصاویر لیں اور پھر وہ وہاں سے رخصت ہو کر ریلوے کی پاکنگ میں آگئی۔

*********

مغل آباد میں کرنل فریدی کے منظر پر آنے کی وجہ سے قاتل کی جانب سے تابوت میں آنے والی لاشوں کا سلسلہ حیرت انگیز طور پرایک دم
سے رک گیاتھا۔میڈیاپرکرنل فریدی کی بلیک فورس کی بہت تعریف ہورہی تھی۔مگر کرنل فریدی اب بھی قاتل کو پکڑنے میں ناکام رہاتھا،لیکن ہرطرف سکون تھا شہری آزادی سے باہر گھوم پھر رہے تھے۔لیکن یہ سکون کب تک ممکن تھا؟کیایہ سب کچھ وقتی تھا اگر نہیں تو قاتل کو اب تک گرفتارکرکے میڈیا کے سامنے پیش کیوں نہیں کیاگیا۔آخر شہری کب تک قاتل کے پکڑے جانے کی خوشخبری سن سکیں گے؟میڈیا کوکوئی خبر نہیں مل رہی تھی،کئی دفعہ کرنل فریدی سے ون آن ون انٹرویو کی بھی فرمائش کی گئی تھی مگر کرنل فریدی کیطرف سے کوئی مثبت جواب نہیں مل رہا تھا۔حکومتی سطح پر بھی اس حوالے سے مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔کہیں یہ پراسرار خاموشی کسی بہت ہی بڑے طوفان کی طرف اشارہ تو نہیں کررہی؟آخرقاتل کہاں ہے ؟ کیا وہ سچ میں کرنل فریدی کے آنے سے وقتی طور پر ڈر تو نہیں گیا۔ میڈیا پر آنے والے تمام کرائم رپورٹرز کے پاس بھی اندر کی کوئی خاص خبر نہیں تھی اور تمام چینلز کو سکون بھی نہیں آرہا تھا، وہ کوئی نہ کوئی ایسا ہنگامہ چاہتے تھے کہ ان کی دال گلتی رہے۔خبر نہ ہوتو پھر خبر بنانی پڑتی ہے اور جب خبر بنائی جاتی ہے پھر اس میں مصالہ بھی ڈالا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا جاسکے۔میڈیا نے بھی ایسا ہی کیا انہوں نے کیپٹن حمید کے اغوا کی خبر شہ سرخیوں میں چلادی اور نہ صرف یہ بلکہ وہ تو ایک قدم اور آگے بڑھ گئے انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ کرنل فریدی اور قاتل کے درمیان ایک خاموش ڈیل ہورہی ہے۔وہ خاموش اور خفیہ ڈیل کیا ہوسکتی ہے ؟ کیا ساگا لینڈ کے مفادات کے خلاف کوئی کام تو نہیں ہورہا؟اس خبر کواٹھا کر میڈیا نے وہ طوفان برپاکیا کہ مجبوراً بلیک فورس کے چند خصوصی نمائندوں کو میڈیا پر آکرفون کے ذریعے اس کی باقاعدہ تردید کرنا پڑی۔مگر تب بھی بات نہ بنی میڈیا والوں نے فریدی اور حمید سے ایک ساتھ پریس کانفرنس کرنے کا مطالبہ کردیا۔کیونکہ اگر حمید واقعی اغوا نہیں ہوا تو ان دونوں کو میڈیا پر ایک ساتھ آنے سے گریز نہیں کرناچاہیے۔میڈیا نے پل میں تولہ اور پل میں ماشہ کے مصداق کرنل فریدی کے خلاف باقاعدہ ایک مہم شروع کردی۔اس کی کردار کشی میں سب ہی چینل پیش پیش تھے۔اس کو فوری کنٹرول کرنا ضروری تھالہذا بلیک فورس کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے آج شام دونوں کی مشترکہ پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔
*********
حمید کے لاشعور میں ایک نکتہ ابھراجو بعد میں رفتہ رفتہ ایک ستارے کی شکل اختیار کرگیا۔بعدازاں وہ ستارہ ایک بہت بڑی روشنی میں تبدیل ہوگیا۔روشنی تیز ہوتی گئی اور بالآخرحمید کے دماغ کوچاٹنے لگی۔پھر وہ روشنی آہستہ آہستہ پھیکی پڑنے لگی اور پھر وہ وقت آیاجب حمید کا دماغ ایک بار پھر سونے لگا ۔مگر ایک دم سے اس کے دماغ کی اسکرین پر ایک چہر ہ نمودار ہوا جو بہت دھندلا تھا۔ وہ اسے چاہ کر بھی نہ پہچان سکااسکے ساتھ ہی کسی چیز کاشور اس کے کانوں کے پردوں کو پھاڑنے لگا۔شور بھی غیر واضح تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے بہت سے لوگ ایک ساتھ باتیں کررہے ہوں۔پھر ا ن کے قہقہوں کی آوازیں بھی آنے لگیں،مگر حمید کاشعور ابھی تک پوری طرح بیدار نہیں ہواتھا۔جو چہرہ نمودار ہوا تھا وہ اب بھی غیر واضح تھا۔ اس نے پاس آکر اس کا ہاتھ تھاما اور وہ اسے ایک ریگستان میں لے آیا۔دور دور تک صحرا ہی صحرا تھااور کسی بھی آبادی یا پانی کا نام و نشان تک نہیں تھا۔حمید حیرت سے کبھی اس دھندلے چہرے کو دیکھتا اور کبھی اپنے اردگرپھیلے صحرا کی جانب۔
اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کہاں ہے اور یہ سب کچھ اس کے ساتھ کیا ہوارہاہے؟وہ اونچی اونچی آواز میں باتیں کرنے والے لوگ کہاں گئے اور انکے قہقہے ؟ وہ کس دنیا میں آگیا ہے اب آہستہ آہستہ اس کا دماغ دکھنے لگا۔سوچ سوچ کر کوئی بات اسکے پلے نہیں پڑھ رہی تھی۔وہ جتنا سوچتا تھا اتنا ہی الجھتا چلاجاتاتھا۔پھر اس نے اپنی گردن گھماکرجب اس چہرے کی جانب دیکھا جس نے اس کا ہاتھ تھام رکھا تھاتووہ کون تھا ابھی تک واضح نہیں ہوسکا تھا۔ بس اسے اس بات کا احساس تھا کہ کوئی ہے جو اس کے ہاتھ کو چھو رہا ہے اور وہ اس کے بہت قریب ہے ۔مگر کون ہے ؟اس راز سے پردہ اٹھنا ابھی باقی تھا۔اس کے وجود میں عجیب سی سردی کی لہر عود آئی ۔اس کا بدن تھرتھر کانپنے لگا،اسکے دانت بجنے لگے ۔اسے صحیح معنوں میں سردی کا احساس ہورہاتھا،مگر وہ تو کسی بہت ہی بڑے صحرا میں موجود تھا پھر اسے سردی کیسے لگ رہی تھی؟کہیں وہ خواب تو نہیں تھا جس نے اسے سر تا پا اپنے سحر میں جکڑا ہوا تھا۔وہ نہ چاہتے ہوئے بھی پتہ نہیں کیسے سب کچھ دیکھنے اور محسوس کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔آہستہ آہستہ وہ چہرہ واضح ہوتا گیااور پھر اس کے ہونٹ ہلنے لگے ۔اسکا چہر ہ واضح ہونے کے باوجود بھی حمید اسے پہچان نہ سکا،کسی بہت بڑے حادثے نے اس کا شعور چھین لیا تھا۔وہ حمید سے کچھ کہہ رہاتھامگر حمید کو اس کا کہا کچھ بھی سمجھ نہیں آرہاتھا۔آواز بہت دور سے آرہی تھی،حمید نے بڑی کوشش کی مگرکوئی لفظ اس کے پلے نہیں پڑ رہاتھا۔شاید وہ اب اپنی مادری زبان بھی بھول گیاتھا،جو کسی بھی لحاظ سے اچھی بات نہیں تھا۔وہ عجیب طلسم میں کھوگیاتھاپیاس سے اس کا حلق خشک ہورہاتھامگر جسم تھا کہ سردی سے تھر تھر کانپ رہاتھا۔آج تک اسے اس قسم کے احساسات سے پالا نہیں پڑا تھا،بہت دیر تک وہ اندر ہی اندر اپنے آپ کو سمیٹا رہا،کوشش کرتارہاکہ وہ اپنے ماحول کو سمجھ سکے ۔اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور پھر اپنے رب کو یادکرتے ہی اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔۔۔عجیب منظر تھا،حمید اسے اپنے کسی گناہ سے تعبیرکرکے رو رہاتھااور صحرااسکی بے بسی پر ہنس رہاتھابلکہ اسے چڑارہاتھا۔۔۔۔اچانک اس کے ذہن کے کسی گوشے میں شعور کی رمق بیدار ہوئی اور پھراسکے ذہن میں ایک روشنی چمکی تو اس نے آنکھیں کھول دیں ۔فریدی اس کے پہلو میں اس کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا،وہ فریدی کے ہی ہاتھ کا احساس تھا جو اسے اب محسوس ہورہاتھا۔اس نے پھر فریدی کو کچھ کہتے ہوئے سنا۔۔۔۔
"دیکھو حمید میں نہیں چاہتاکہ تم وقت سے پہلے ڈگمگا جاؤ،میں کسی بہت بڑے طوفان کو آتے ہوئے دیکھ رہاہوں۔مجھے اس بات کا شدید خدشہ ہے کہ کہیں اس طوفان کی تباہی سے پورا ساگالینڈ نہ متاثر ہوجائے۔بلکہ مجھے تو اس کادائرہ کار اور وسیع ہوتا ہوالگ رہاہے۔مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے کہ تم ثابت قدم رہو گے۔حالات کا دھارابہت بے رحم ہونے جارہاہے۔قاتل اپنی نفرت اور جنون میں بہہ کرہر حد پار کرسکتاہے۔اس لئے تم اپنے اعصاب پر مکمل قابو رکھنا،اپنے صبرکے دامن کوکسی طورہاتھ سے چھوٹنے نہ دینا۔یاد رکھو برائی جتنی بھی مضبوط اور طاقت ور کیوں نہ ہوآخری فتح ہمیشہ سچائی کی ہوتی ہے۔۔۔"فریدی نے انتہائی پراسرار لہجے میں حمید کو سمجھاتے ہوئے کہااور اس کی باتوں کا اثر صحرا کی فضاؤں میں معلق ہوگیا۔حمید نے سرہلاتے ہوئے اپنی پلکیں جھپکائی ہی تھیں کہ اگلے منظر میں فریدی غائب ہوگیا۔اس نے چاروں طر ف مڑکردیکھاتو فریدی کہیں نہیں تھاالبتہ ہر طرف خاموش ریت ہی ریت تھی۔۔۔۔پھر اچانک دور کہیں سے اسے آگورا کی آواز آئی ۔۔۔
"حمید صاحب پلیز آنکھیں کھولیں ۔۔۔۔۔ہمیں اپناکیس بھی نپٹانا ہے۔۔۔۔۔۔"حمید نے پھر آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں تو وہ اس وقت اپنے بیڈ روم میں تھا اور اسکے سرکے اوپر قاسم آگورا اور سامبا موجود تھے۔وہ بالکل صحیح سلامت تھابس اسے غنودگی چھائی ہوئی تھی یہ سب خدا کا فضل تھا۔ بے شک زندگی موت اس کے ہاتھ میں ہے۔آنکھیں کھلتے ہی اس نے اپنے رب کا بہت شکرادا کیا اور وہ پھر اٹھ کر بیٹھ گیا۔
*********

"تم دونوں نے اپنے سابقہ باس کو تو دیکھا ہوگا ؟کیا تم لوگ اس کا خاکہ بنواسکتے ہو؟"حمید نے آگورا اور سامبا سے کہا، ان کے ساتھ قاسم
بھی منہ پر انگلی رکھے موجود تھااور وہ لوگ اس وقت کوٹھی کے انوسٹی گیشن روم میں موجود تھے۔کمرے کی دیوار پر ایک جہازی سائز کے بورڈ کے اوپر اس کیس کے حوالے سے بہت سی تصاویر چھوٹی پنوں کی مددسے لگی ہوئی تھیں۔ایک درمیانے سائز کی میز کے ایک طرف آگورا اور سامبابیٹھے ہوئے تھے۔جبکہ انکے مخالف حمید اور قاسم موجود تھے،قاسم کوخاص طور پر حمید کی طرف سے ہداہات دی گئیں تھیں کہ وہ فضول گفتگو سے پرہیز کرے اس لئے اس نے منہ پر انگلی رکھی ہوئی تھی۔
"آپ یقین کریں حمید صاحب ہم نے آج تک اس کی شکل نہیں دیکھی جس وقت ہم اسکی غلامی میں آئے تو اس کے چہرے پر نقاب اور ہاتھوں پر دستانے تھے۔اس نے ہمارے پہلے باس کو فائٹ کے دوران ایک ٹانگ اور دائیں بازو کی کہنی توڑ دی تھی۔اس کے بعد وہ فارغ ہوگیا،اس کو سوائے لڑنے بھڑنے کے کوئی کام نہیں تھا۔ہمارے پہلے باس کو غرور بھی بہت تھا،ایک ایک سے پنگے لیتا رہتاتھا اوران کو فائٹ کا اوپن چیلنج دے دیتا تھا۔ لیکن شاید اسے معلوم نہیں تھا کہ ہر سیر کا سوا سیر بھی ہوتا ہے۔جب اس کا سیاہ نیولا سے چیلنج ہواتواس نے شرائط رکھیں کہ ہمارے پہلے باس کی ہار کے بعداس کی ساری جائیداد سمیت ہماری غلامی بھی تبدیل ہو جائے گی تو وہ اپنے غرور کے نشے میں چور میدان میں کود گیا۔ پھر اس کی وہ دھلائی ہوئی کہ اس کا آج تک ہم نے عملی مظاہرہ نہیں دیکھا۔"آگورا نے کہا تو قاسم نے ایک پل کے لئے منہ سے انگلی ہٹا کر اپنی زبان چلانے کا سوچا ہی تھا کہ پھر ایک دم سے اسے حمید کی ہدایات یاد آگئیں تو پھر اس نے دوبارہ منہ پر انگلی رکھ لی۔
"کوئی خاص بات بتاؤ جس سے سیاہ نیولا کی پہچان ہوسکے،کوئی بولنے کا اسٹائل ، کوئی چلنے پھرنے کا اندازوغیر ہ ۔۔۔۔"اس سے قبل کے وہ حمید کی بات کا جواب دیتا کمرے میں انور ایک آدمی کو اٹھائے اندر داخل ہوااس کے ساتھ چند نقاب پوش بھی تھے انکے آتے ہی آگورا اور سامبااٹھ کر ایک سائیڈ پر ہوگئے توانوراسے انکی جگہ پر لے جاکر بٹھادیا۔اس کی ناک اور منہ کی ڈریسنگ کی ہوئی تھی اور وہ مکمل ہوش میں تھا۔حمید کے پوچھنے پر انور نے بتا یا کہ یہ روہت ہے ،روہت بینک کا مالک روہت جس نے قاتل کی مدد کی تھی۔اس کے بعد روہت نے روتے ہوئے انتہائی شرمندہ لہجے میں انہیں انتہائی حیران کن تفصیلات بتائیں کہ اس نے کس طرح مجبور ہوکر یہ سب کچھ کیا جسے سننے کے بعد حمید اٹھا اور اس نے کہا
" تم نے چونکے ہماری مدد کی ہے اور تم ہمارے کام آئے ہو۔اس کے علاوہ قاتل نے تمہیں استعمال کیا اور تم مجبورتھے لہذا تم وعدہ معاف
گواہ ہوگے۔ مگر فل الحال تمہیں بلیک فورس کے زیر نگرانی رہناہوگا۔۔۔ویل ڈن انور تم نے واقعی ایک بار پھر قانون کی مدد کی ہے میں تمہارا بے حد مشکور ہوں۔۔۔۔"یہ کہتے ہی وہ وہاں سے نکل گیا۔
*********
شام کے ساڑھے پانچ کا عمل تھا اور بلیک فورس کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ میں حمید بلیک فورس کے چند میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ موجود تھا۔اسکے سامنے لاتعداد ٹی وی چینلز کے لوگوزمیں لپٹے ہوئے مائیک لگے ہوئے تھے۔میڈیا کی طرف سے آئے ہوئے نمائندوں کی بھی کثیر تعدادہال میں موجودتھی۔حمیدنے کھانستے ہوئے اپنا گلا صاف کیااور پھر وہ بولا
"دیکھیں مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ لوگ آئے،کافی دنوں سے میڈیا پر نامعلوم کس کی طرف سے بلیک فورس کے چیف کرنل فریدی کو ٹارگٹ کرکے ان کے خلاف افواہیں پھیلانے کا سلسلہ جاری ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ایسانہیں ہونا چاہیے میں میڈیا کے سامنے بیٹھا ہو ں اور بالکل صحیح سلامت ہوں کوئی نہ جانے کیوں ہمارے خلاف مسلسل میڈیا پر ورک کررہاہے۔ہمارے خلاف باقاعدہ ایک مہم چلی ہوئی ہے کہ مجھے کسی نے اغوا کرلیا ہے اور کرنل صاحب ساگالینڈ کی سلامتی اور خود مختاری پر سودا بازی کررہے ہیں ۔کرنل صاحب کا پورا ایک ٹریک ریکارڈ موجود ہے انہوں نے آج تک ساگالینڈ کی خود مختاری پر کوئی سودے بازی کی جو وہ اب کریں گے؟مجھے میڈیا کے دوستوں کابہت احترام ہے مگر میڈیا کو زمہ داری کا ثبوت دینا چاہیے ۔ایسا کچھ بھی نہیں ہوا،ساگالینڈ کی خود مختاری پر مرکے بھی سودے بازی نہیں ہوگی ،آپ ہم پر پورا اعتمادکریں۔ ہمیں اب تک کی تفتیش کے دوران بہت سے نئے انکشافات ہوئے اور فریدی صاحب کی ہدایات کے عین مطابق ہم قاتل کے پیچھے ہیں اور انشااللہ بہت جلد آپ کو اس حوالے سے خوش خبری ملے گی اور شہری اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں گے۔جی میں اب آپ لوگو ں سے سوالات لوں گا ۔۔۔جی بھائی آپ؟ "
"سر یہ فریدی صاحب کہاں ہیں؟کہیں آپ کے بجائے ان کو تو اغوا نہیں کرلیا گیا؟ "
"کیسی باتیں کریں رہیں آپ ،کمال کرتے ہیں جی،ان کو کس نے اغواکرناہے وہ کیس کے دیگر پہلوؤں پر کام کررہے ہیں ۔وہ تھوڑا مصروف تھے اس لئے اس پریس کانفرنس کا حصہ نہیں بن سکے ۔۔۔۔"
"سر آپ نے اب تک کیس کے اوپر تو کوئی روشنی ڈالی نہیں ،آپ کوکیس کے حوالے سے اب تک کتنی کامیابی ملی ہے۔پلیز میڈیاکوبھی اس حوالے سے آگاہ کریں عوام کافی پریشان ہیں۔۔۔"
"دیکھیں ،بلیک فورس کے آتے ہی آپ نے خود دیکھا کہ حالات کافی بہتر ہوگئے ہیں،شہریوں کی جان ومال سب کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے جو اقدامات ہم نے اٹھائے ہیں یہ یقیناًاسی کا اثر ہے۔اب تک ہم بہت سی لاشوں کا سراغ لگا چکے ہیں،مگر ہم وہ تما م معلومات آپ کو شیئر کرکے قاتل کو ہوشیار نہیں کرنا چاہتے ۔البتہ میں آپ کو یہ بتا دوں کہ قاتل کسی نہ کسی طرح سے ریاضی دانوں کے پیچھے پڑا ہوا۔اسے ان سے شدید نفرت ہے اب ایسا کیوں ہے اس سوال کے جواب کے لئے آپ کو انتظار کرناپڑے گا اور کل ہونے والی عالمی کانفرنس میں بلیک فورس خاص طور پر تمام اسکیورٹی کے فرائض انجام دے گی اور انشااللہ ریاضی کے اوپر ہونے والی یہ کانفرنس امن کے ساتھ گذر جائے گی۔آپ لوگ ہمارا ساتھ دیں گے اور امید کرتے ہیں کہ آپ لوگ بیلنس رپورٹنگ کریں گے تاکہ عوام میں کسی بھی حوالے سے خوف و ہراس نہ پھیلے۔ یہ ہم سب کا ملک ہے اوراس بات کاخیال رکھناچاہیے کہ اس کی عزت پر کوئی حرف نہ آئے یہ ہم سب کااولین فرض ہے۔۔۔۔جی۔۔۔۔"
"سر کیا آپ نے اس حوالے سے حکومت سے کوئی رابطہ کیا ہے کل اتنی بڑی کانفرنس ہے کیا بلیک فورس یہ تنہاسب کچھ کرلے گی؟"
"بالکل تنہایہ سب کچھ کرلے گی اور آپ کی طر ف سے میں ملک بھر کے لوگوں کودعوت دیتا ہوں کہ آپ بلاخوف و خطر آئیں کسی قسم کے گھبرانے کی ضرورت نہیں قاتل بس آپ لوگوں کو ڈرانہ چاہتا ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔انشااللہ بلیک فورس پوری دنیا میں اپنا ایک نام رکھتی ہے۔ آپ لوگوں کو یہ جان کر واقعی فخر ہوگا کہ بلیک فورس نے اس عالمی کانفرنس کی مکمل تیاری کی ہوئی ہے اور تمام ریاضی دان ہمارے سر کا تاج ہیں کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔یہ تمام کام کرنل صاحب کی مکمل ہدایات پر ہورہے ہیں،بس آپ میڈیا والوں سے درخواست ہے کہ اپنے ملک کا اچھا چہرہ بیرونی دنیاکودکھائیں۔تھینکس جی میں ایک بار پھر سب دوستوں کا مشکور ہوں کہ آپ ہمارا موقف سننے کے لئے ہمارے پاس آئے۔ بس میں اب اس کانفرنس کا اختتام کرتا ہوں۔اب کل آپ سب دوستوں سے ملاقات ہوگی ۔۔۔" یہ کہتے ہی حمید اٹھا اور تین نقاب پوشوں کے ساتھ چلتا ہوا وہاں سے چلاگیا۔
********آآج ریاضی پر ہونے والی عالمی کانفرنس کا انعقاد ہونے جارہاتھا، جومغل آباد کی سب سے بڑی درسگاہ مغل آباد یونیورسٹی میں ہونے جارہی تھی۔اس کے ایک بہت بڑے ہال کوبہترین انداز میں سجایا گیاتھا۔اس میں دنیا کے گیارہ بہترین ریاضی دانوں نے شرکت کرنی تھی جنہیں بلیک فورس کی کوڈ زبان میں ہیروں کا نام دیا گیاتھا۔جن کی حفاظت کے لئے فریدی نے خاص طور پر بلیک فورس کے خصوصی ایجنٹس کا انتخاب کرکے ان کی نگرانی کا اہتمام کیا تھا۔ گیارہ ہیروں میں سے ایک ہیرے کی لاش تابوت میں ایک فلائٹ سے ملی تھی جس کی وجہ سے وہ ہیرے گیارہ کی بجائے دس ہوگئے تھے۔ان دس ہیروں میں سے بھی ایک کے بارے اطلاع تھی کہ وہ قاتل کا ساتھی یا مخبر ہے جو اندر کی خبریں مہیاکررہاتھا۔ اسی کے بارے میں فریدی نے بلیک فورس کوہدایت دی تھی کہ کھرے اور کھوٹے کا فرق پیدا کیا جائے۔ان دس ہیروں میں سے جو نقلی ہے اسے تلاش کیا جائے۔ایکریمیا کے سفیر کی جو اطلاع تھی اس کے مطابق کوئی پانچ یا چھ ریاضی دان تھے وہ کھوٹے ثابت ہوسکتے تھے مگر فریدی نے جب اس حوالے سے تحقیقات کروائیں تو پتہ چلا کہ پانچ یا چھ نہیں بلکہ کوئی ایک ہی ہے جو باقی اصلی ہیروں کو خراب کرنا چاہتا ہے۔اس نقلی ہیرے کی تلاش میں بلیک فورس نے رات دن ایک کرکے تمام ہیروں کی غیر محسوس طریقے سے جاسوسی کی تھی۔ اس مقصد کے حصول کے لئے بلیک فورس نے حکومت اور ہوٹل انتظامیہ کوملا کر مغل آباد کے سب سے بڑے سیون سٹار ہوٹل اے ون نائن ہوٹل کا انتخاب کیا تھا۔ وہ تمام ریاضی دان اسی ہوٹل میں قیام پذیر تھے،بلیک فورس نے ان کے تمام کمروں میں جاسوسی کے آلات
لگوا دیئے تھے ۔جس سے چوبیس گھنٹے ان کی نگرانی ہورہی تھی ، یہ سب کام خاموشی اور انتہائی غیر محسوس طریقے سے کیا گیا تھا ۔ کیونکہ یہ بہت ہی نازک کام تھا اگر ریاضی دانوں کو اپنی جاسوسی کے حوالے سے ذرا برابر بھی بھنک پڑ جاتی تو ساگالینڈ کے ان ممالک سے آئے ہوئے سفارتی تعلقات خطر ے میں پڑ جاتے ۔ کیونکہ ان پر جاسوسی کرنا کسی طرح بھی قانون کے دائرہ میں نہیں آتا تھا۔سفارتی تعلقات کاخراب ہونا کسی بھی لحاظ سے اچھا شگون نہ ہوتا۔مگر ان کاموں میں فریدی کی بلیک فورس اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی اور ویسے بھی یہ سب کچھ حفاطت کے نکتہ نظر سے ہورہاتھا ۔دن رات کی جاسوسی کے بعد آخرکار انہیں وہ ایک نقلی ہیرامل گیا،وہ واش روم میں جاکر ایک خفیہ کال کررہاتھاجسے بلیک فورس نے ٹریس کرلیا۔ وہ خفیہ کال مکمل طورپر کوڈورڈز کے غلاف میں لپٹی ہوئی تھی،اسی لئے وہ اسے فوری طور پرڈی کوڈ تو نہ کرسکے البتہ دوسری طرف سے جو آواز آرہی تھی وہ قاتل کی ہی تھی۔کیونکہ کال کے دوران چند ایسے اشارے ملے تھے جس سے اس بات کا اندازہ ہوا تھا کہ واقعی کال کرنے والا قاتل ہی ہوسکتا تھا۔کال ایک پرائیویٹ نمبرسے کی گئی تھی،جو بہت سرتوڑ کوشش کے بعد بھی ٹریس نہ ہوسکی تھی۔اس کے بعد لگاتار کالز کا سلسلہ جاری رہااور ان میں کوڈ ورڈز کا ہی تبادلہ ہوتارہا۔ اگر وہ ریاضی دان واقعی ریاضی دان تھا تو اسے اپنی گفتگوخفیہ رکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہورہی تھی۔وہ کھل کر بھی اپنی تما م بات کرسکتا تھا، اسے واش روم جاکر شاور چلا کرکال کرنے کی نوبت کیوں پیش آتی۔ ایک دفعہ اتفاق ہوسکتا تھا،لیکن جب باربار ایسا ہونا شروع ہوجائے تو اسے پھر سازش کہا جاتا ہے۔وہی چیز بلیک فورس کو بھی کھٹک رہی تھی،وہ لوگ اس سے قبل تو اس پر ہاتھ نہ ڈال سکے تھے اب حمید کی ہدایت پر انہوں نے جب آج صبح اس ریاضی دان کے کمرے کا رخ کیا، تاکہ اس سے پوچھ گوچھ کی جاسکے ۔دروازہ پیٹنے پر تھوڑی دیر میں وہ دروازہ کھول کر باہر آگیا۔باہر چند لمبے تڑنگے لوگ سول سوٹ میں موجود تھے انہیں دیکھ کر اسے قدرے حیرت ہوئی پھر اس نے اپنی حیرت پرقابوپاتے ہوئے کہا۔
"جی فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کرسکتاہوں؟۔۔۔۔"
"جی ہم لوگ انٹیلی جنس والے ہیں آپ سے چند سوالات پوچھنے تھے اگر آپ برانہ منائیں توکیاہم اندر آسکتے ہیں۔"ایک دم سے اس کے چہرے کا رنگ اڑگیا اس نے فوراً اندر کی طرف دوڑ لگائی اور دروازہ بند کرلیا۔ بلیک فورس کو اس کی اس حرکت پر کافی تشویش ہوئی تو انہوں نے زور زور سے دروازہ بجانا شروع کردیا۔ جب کچھ دیر تک اندر سے کوئی جواب نہ ملاتو وہ دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوگئے تو انکے سامنے قالین پر وہ چت پڑا ہواتھا اور اس ریاضی دان کے منہ سے سفید جھاگ نکل رہی تھی۔اس نے زہر کھالیا تھااور وہ زہر اس قدر زور اثر تھا کہ اسکے کھاتے ہی اسکی موت واقع ہوگئی تھی۔بلیک فورس کے ایک جاسوس نے فوراً اس کے چہرے کی دو تین تصویریں اپنے موبائل کی مدد سے اتاریں اور پھر وہ لوگ اس کا میک اَپ صاف کرنے لگے۔میک اپ صاف کرتے ہی کسی مقامی آدمی کی شکل نکل کر سامنے آگئی ۔اس نے کمال مہارت سے میک اَپ کیا ہواتھا کہ ائیرپورٹ پر اترتے میک اَپ چیک کرنے والا کمپیوٹر بھی اسے نہیں پکڑسکاتھا۔ورنہ وہ ائیر پورٹ پر ہی دھر لیاجاتا۔خیر میڈیا کو اطلاع دی گئی اور انکی نگرانی میں لاش کووہاں سے نکالا گیا اور پھراسے بلیک فورس کے کسی خفیہ ہیڈکواٹر اپر پہنچادیاگیا۔بلیک فورس کے نمائندوں نے اپنی شناخت بھی بلیک فورس کے نمائندوں کی ہی حیثیت سے کروائی تھی۔
*********
درسگاہ کے بڑے سے ہال میں اس وقت بلیک فورس کے ایجنٹس تمام ریاضی دانوں کی حفاظت کے لئے موجود تھے۔اسٹیج پر نوریاضی دان اس سال ہونے والی ریاضی پر پیش رفت کے حوالے سے اپنی اپنی آراء کا اظہار کرنے والے تھے۔ان کے علاوہ اسٹیج پردرسگاہ کے وائس چانسلر اور دیگر اساتذہ بھی موجو دتھے۔اس کے علاوہ ہال میں طلبہ اور ملک بھرسے آئے ہوئے دیگرلوگوں کی کثیرتعداد موجود تھی۔سب کے سب لوگ اسٹیج پہ موجود اسٹیج اناؤنسر کو سن رہے تھے۔ اسٹیج کی ایک سائیڈ پر حمید تھری پیس سوٹ میں موجود تھا اور کے ایک کان ایک آلہ لگا ہوا جس کی مدد سے وہ بلیک فورس کے باقی ارکان سے رابطہ کررہاتھا۔انہیں وقفے وقفے سے وہ کوڈورڈز میں ہدایات دیتا اور پیغامات وصول کررہاتھا۔ پوری درسگاہ کو بلیک فورس کے ایجنٹس نے گھیر رکھاتھا۔نہ صرف درسگاہ بلکہ اس کے باہر کئی میل تھے بلیک فورس کے ہی ایجنٹس موجود تھے۔سب انتہائی چوکناتھے اور ہر ایک کی سخت چیکنگ کے بعد اندر جانے کی اجازت دی جارہی تھی۔ حمید کو پوری امید تھی کہ وہ آج قاتل کو ناکام بنادے گے،اسے فریدی کے الفاظ رہ رہ کر یاد آرہے تھے کہ برائی جتنی بھی طاقت ور ہوجائے آخری فتح سچائی کی ہی ہوتی ہے۔
پھر ایک ایک کرکے تمام ریاضی دان اپنی کرسیوں سے اٹھ کر تالیوں کی گونج میں اپنی اپنی تقاریر کرتے جارہے تھے ۔نو میں سے آٹھ ریاضی دانوں نے اپنے حصے کی تقریریں مکمل کیں تو حمید نے سکھ کا سانس لیا۔اسے دلی سکون ہوا کہ آج وہ کامیاب رہا۔پھر آخری ریاضی دان کو دعوت دی گئی تو وہ اٹھ کر اپنی تقریر کرنے کے لئے چلتا ہوامقرہ جگہ پر جانے لگا تو ایسے میں ایک ملازم دوڑتا ہوا حمید کے پاس آیا اور اس نے کان میں حمید کے کچھ کہاتو حمید کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا۔ پھر وہ اس کے پیچھے دوڑتا ہوااندرونی کمروں کی جانب بڑھ گیا وہاں ایک آفس کے انداز میں سجے ہوئے کمرے میں ایک فون ہولڈ پر تھا۔حمید نے تقریباً بھاگتے ہوئے فون کا رسییور اٹھایا اور پھر وہ اپنا تعارف کروانے کے بعد دوسری جانب سے گفتگو سننے لگا۔
"جناب میں گریٹ لینڈ کے سفارت خانے سے سفیر صاحب کا پی اے بات کررہاہوں بڑی مشکلوں سے آپ سے رابطہ ہواہے ۔مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ فریدی صاحب کے اسسٹنٹ ہیں تو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ سفیر صاحب گذشتہ تین گھنٹوں سے غائب ہیں ان کی رہائش سفارت خانے میں ہی ہے اور ان کا یوں اچانک غائب ہونا بنتا نہیں ہے ۔کیونکہ آج بہت ہی اہم میٹنگز ہونی ہیں اور سفارت خانے کاسارا عملہ ان کی تلاش میں لگا ہوا ہے آپ جلدی سے آجائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"کیا وہ بھی ریاضی کے پروفیسرہیں ؟۔۔۔۔۔۔"
"جی ہاں وہ گریٹ لینڈ میں ریاضی کے سب سے بڑے پروفیسر ہیں انہیں یہ سفیر عہدہ اعزازی طور پر دیا ہو ا ہے کچھ عرصے کے لئے ۔تاکہ ہم انکی خدمات کے بدلے انہیں خراج تحسین پیش کرسکیں ۔اگر انہیں کچھ ہوگیا تو بہت بڑا نقصان ہوجائے گا آپ پلیز جلدی سے آجائیں ۔"پی اے کی اتنہائی گھبرائی ہوئی آوازمیں بات مکمل ہوئی اور دوسری طرف سے لائن ڈراپ ہوگئی۔حمید کے تو یہ وہم و گمان میں ہی نہیں تھا کہ قاتل پوری بلیک فورس کو ایک طرف لگائے رکھاگا اور خود کہیں اور ہی واردات کر جائے گا۔قاتل نے انہیں زبردست چکمادیاتھا۔۔۔۔۔اب حمید کا سفارت خانے پہنچنا بہت ضروری ہوگیا تھا۔
*********
گریٹ لینڈ کے سفارت خانے میں اس وقت ہنگامی حالات تھے۔وہاں افراتفری کا سا سماں تھا ہر کوئی ادھر ادھر بھاگ رہاتھا۔حمید بھی پی اے اور سفارت خانے کے دیگر اہم عملے کے ساتھ پوری عمارت دیکھ چکا تھا مگر سفارت خانے کے سفیر کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں ملا تھا۔بلیک فورس ا ب دو حصوں میں بٹ گئی ایک طر ف وہ اس عالمی کانفرنس کو سکیورٹی دے رہی تو دوسری طرف اب اسکے نمائندوں نے پورے سفارت خانے کو اپنے گھیرے میں لے لیاتھا۔آخر تھک ہار کر وہ حمید کے ساتھ پی اے کے روم میں جاکربیٹھ گئے۔
"آخری بار آپ لوگوں نے انہیں کہاں دیکھا تھا؟"
"جی وہ آج صبح حسب عادت ورزش اور مارننگ واک کے لئے اٹھے تھے پھر واپس آکر انہوں نے ڈائننگ ہال میں سب کے ساتھ ملکرناشتہ کیاتھاپھر وہ اپنے آفس آنے سے قبل ایک دم سے کہیں غائب ہوگے انکا بیڈ روم بھی ہم نے آپ کودکھا دیا انہیں وہاں ہونا چاہیے تھامگر وہ وہاں بھی نہیں ہیں کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ آخر وہ بغیر بتائے کہاں چلے گئے۔وہ کبھی بھی غیر ذمہ دار واقع نہیں ہوئے بلکہ وقت کی وہ خاص پاپندی کرتے ہیں ۔انتہائی نفیس آدمی ہیں ،ہم سب انکی دل سے قدر کرتے ہیں ۔۔۔۔"ابھی پی اے نے بات مکمل کی ہی تھی کہ پاس پڑا ہوا فون رنگ کرنے لگا۔اس نے نمبر دیکھ کر کال اُٹھالی۔پھر دوسری طرف سے وہ سننے لگا
"اوہو۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیسے ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم ابھی آرہے ہیںآپ بے فکر رہیں ۔۔۔"پی اے کے چہرے پر تشویش کے آثار نظر آرہے تھے۔پھر اس نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
"انکے کمرے کے ساتھ والے ایک اہم عہدے دار نے اپنے کمرے سے فون کرکے اطلاع دی ہے کہ اچانک سفیر صاحب کا روم بند ہوگیا ہے۔اس نے دروازہ کھٹکا کر پوچھا تو دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں مل رہاہمیں فوراً وہاں پہنچنا ہوگا۔آئیے میرے ساتھ۔۔۔"یہ کہتے ہی پی اے نے تقریباً ڈورتے ہوئے کمرے سے باہر راہداری میں آیا اور پھر وہ ایک قافلے کی صورت میں اس بلڈنگ سے نکل کر رہائشی عمارت کی جانب بڑھ گئے جو دس منزلہ تھی اور اس میں سفارت خانے کا سارا عملہ اپنے عہدوں کی مناسبت سے رہتا تھا۔کچھ دیر بعد وہ لوگ انکے کمرے کے پاس پہنچے جو گراؤنڈفلور پر تھا۔دروازہ واقعی بند تھا اور وہاں دیگر لوگ بھی اکھٹے ہوگئے تھے۔اس کے بعد بلیک فورس کے آٹھ دس نقاب پوش وہاں پہنچے انہوں نے سب کو سائیڈ پر کیا پھر ایک نقاب پوش نے آگے بڑھ کر پوری قوت سے اپنے کندھے کی مدد سے تین ضربیں لگائیں تو دروازوہ ٹوٹ کر کھل گیا۔ اندر انکے بیڈ کے اوپر ایک تابوت رکھا ہواتھا۔ ان سب نے اپنے اسلحے نکال لئے پھر سب سے پہلے حمید نے آگے بڑھتے ہوئے تابوت کو ایک نقاب پوش کی مدد سے نیچے اتارکرکھول لیا۔اندر ایک لاش پڑی ہوئی تھی۔ پی اے کی نشاندہی پر پتہ چلا کہ وہ سفیر صاحب کی لاش تھی ۔ حمید نے سختی سے ہونٹ چپاتے ہوئے پورے کمرے کو اچھی طرح دیکھنا شروع کردیا ۔ باقی نقاب پوش بھی ایک ایک چیز الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے۔ آج پھر بہت دنوں کے بعد تابوت میں لاش ملی تھی اور قاتل نے ان سب کو گھوما کر رکھ دیاتھا۔پہلے یہ خدشہ تھا کہ قاتل عالمی کانفرنس کو ٹارگٹ کرے گامگر اس نے اپناپینترابدل کر سب کو دھوکا دیتے ہوئے ایک بار پھراس نے دو ہاتھ آگے رہنے کی روایت برقرار رکھی تھی۔ حمید تیزی سے تمام چیزوں کو غور سے دیکھ رہاتھا۔ پھر اس کی نظر بیڈ پر پڑی تو اس نے بیڈ شیٹ اتار کر زمین پر پھینک دی۔ حمید کو لگ رہاتھا کہ قاتل نے چھوٹا کام نہیں کیا ہوگا یقیناً کچھ اور بھی تھا جو اس کی نظروں سے اوجھل تھا۔اب اس کی تلاش حمید کررہاتھا،بیڈ شیٹ اتار کر اس نے بیڈکو مختلف زایو ں سے دیکھنا شروع کردیا۔پھر اس نے ایک دم سے بیڈ کا مضبوط بورڈ ایک جھٹکے سے اتار کر زمین پر رکھ دیا اب نیچے زینے جاتے ہوئے نظر آرہے تھے اور اسکے آگے اندھیراتھا۔سفارت خانے کا باقی عملہ حیرت سے یہ سب کچھ دیکھ رہاتھا اور انکے منہ کھلے ہوئے تھے۔ایک ایک کرکے بلیک فورس کے نقاب پوش اندر اترنے لگے اور پھر انکے پیچھے حمید تھا انہوں نے اندر جاکربہت سی پنسل ٹاچ روشن کرلی تھیں۔ان کی مدد سے وہ لوگ نیچے اترے تو اب وہ ایک طویل سرنگ میں تھے ۔ انکے ایک ہاتھ میں پنسل ٹارچ تھی اور دوسرے ہاتھ میں آتشی اسلحہ۔کچھ دیر بعد آگے جاکر وہ سرنگ بند ہوگئی اور وہاں سے زینے اوپر چھت کی طرف جارہے تھے جہاں پر ایک چوکور ڈکن رکھا ہواتھا۔ایک ایک کرکے وہ سب اوپر چڑھنے لگے اور پھر سب سے پہلے والے نقاب پوش نے پورے طاقت لگاتے ہوئے اس ڈکن کو ہٹایا تو انہیں ایک خلاء نظر آیا۔ پھر وہ اس خلاء میں داخل ہوکر غائب ہوگیا۔کچھ دیر بعد اس کی چیختی ہوئی آواز آئی کہ اندر مزید تابوت اور لاشیں پڑی ہوئی ہیں۔ سب لوگ تیزی سے چڑھ کر اوپر پہنچے سب سے آخر میں حمید پہنچا وہ ایک بہت بڑا کمرا تھاجوپورے کے پورا تابوت اور لاشوں سے بھر ا ہواہواتھا۔ وہاں قریباً تیس پینتیس کے قریب تابوت ہونگے ۔حمید نے بری طرح سے ہونٹ کاٹتے ہوئے گھوم کر انکو دیکھا اور پھر حیرت سے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔وہاں لاشوں کا رقص اپنے عروج پر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حمید نے بے بسی سے اپنا سر تھام لیا۔اس کے علاوہ وہ اور کر بھی کیا سکتاتھا۔بہت بڑی چوٹ ہوگئی تھی۔
*********

(جاری ہے)