(کرنل فریدی کی موت (مہاقسط
ابھی وہ سب قاسم کی اس نئی حرکت پر غور کر ہی رہے تھے کہ ایک کان پھاڑ دھماکہ ہوااور قلعے کے درودیوار ہل گئے ۔فریدی کے علاوہ سب لوگ اپنا توازن کھو کر پھسلتے ہوئے نیچے گر پڑے۔جنگلی کوے بری طرح سے کائیں کائیں کرتے ہوئے اڑتے ہوئے کھڑکی سے باہر نکل گئے ۔ایسا لگتا تھا کہ زمین میں انتہائی شدید زلزلہ آگیا ہو،البتہ قاسم کا پھسلتے ہوئے بایاں پاؤں مڑا اور اس میں موچ آگئی ۔ وہ گر کر بری طرح سے چیخنے لگا،اس اثناء میں ایک اور دھماکہ ہوا اور قلعے کی عمارت بری طرح سے لرزنے لگی ۔اس کے ساتھ ہی شدید فائرنگ کاسلسلہ شروع ہوگیا ایسا لگ رہا تھا تھا کہ کسی جدید ترین اسلحے سے لیس فوج نے قلعے پر اچانک دھاوا بول دیاہو۔ایک طرف وہ شور اور ایک جانب قاسم کی چیخ و پکار،سب کے کان لگتا تھا کہ جیسے کام کرنا بند کرگئے ہوں۔فریدی تیزتیزچلتاہوا کمرے سے باہر چلا گیا البتہ اس دوران قاسم کے علاوہ باقی سب لوگ کھڑے ہوگئے تھے۔آگورا نے آگے بڑھ کرقاسم کا بایاں پاؤں پکڑا اورایک خاص انداز میں نہایت شدت سے جھٹکا دیا تو قاسم انتہائی بھیانک چیخ مار کربری طرح سے تڑپنے لگا۔پھر وہ سائیڈ پر ہوا تو سامبا نے جیب سے ایک سوئی نکال کر قاسم کے گلے میں چبھودی۔قاسم بری طرح سے تڑپتے ہوئے دائیں بائیں سر ہلاتا ہوا بے ہوش ہوگیا۔اب ان تینوں کے پاس مزید وقت نہیں تھاانہیں بھی نامعلوم حملہ آوروں کے خلاف کھڑے ہونا تھا۔نہ جانے فریدی کہاں غائب ہوگیا تھا مگر اب آگورا اور سامبا کی قیادت حمید کو ہی کرنی تھی۔
"کیا تم لوگوں کے پاس قلعے میں کوئی اسلحہ موجود ہے؟"حمید نے انتہائی سنجیدہ لہجے میں کہا ۔
"ہاں کافی سارا ہے امید ہے آپکو دیکھ کر نہایت مسرت ہوگی ،آئیں میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔"یہ کہتے ہی آگورا آگے بڑھتے ہوئے حمید کو لیتا ہوا اس دروازے کی جانب بڑھ گیا جس میں سے فریدی اندر داخل ہوا تھا۔ان کے پیچھے سامبا بھی تھا،وہ وہاں سے مختلف کمروں سے ہوتے ہوئے ایک دروازے کے سامنے آئے جس پرآٹومیٹک کمپیور لاک لگا ہواتھا۔اس دوران باہر سے شدید نوعیت کی فائرنگ کی آوازیں آرہی تھیں اور جوابی فائرنگ بھی ہورہی تھی ،جس سے لگ رہا تھا کہ بلیک فورس اور مخالف گروپ کے درمیان ایک جنگ ہورہی تھی۔ آگورانے سب سے پہلے ایک بٹن پریس کیا تو ایک کمپیوٹر سکرین روشن ہوگئی جس پر ایک ہاتھ بنا ہوا تھا، پھر ایک عورت کی مشینی آواز آئی۔
"برائے مہربانی اپنی شناخت کرائیں ۔۔۔۔۔"اس کے بعد آگورا نے اس ہاتھ کے اوپراپنا ہاتھ رکھ دیاکچھ دیربعد نیلے رنگ کی بہت سی روشنیاں نکلیں اور پھر ایک خاص آواز کے ساتھ دروازہ کھل گیا۔وہ ایک بڑا کمرہ تھا جس کی دیواروں پر بہت سے جدید ترین اسلحے کے شوکیس نصب تھے۔وہاں بہترین مشین گنز ،شارٹ گنز ،جدید ترین پستول اور ریوالور بھی موجودتھے۔آگورا نے قدم بڑھاتے ہوئے ایک سائیڈ پر موجود ایک سوئچ پینل پہ بہت سے بٹنوں کو دبایا تو سارے شوکیس ایک ایک کر کے روشن ہوتے گئے۔سب نے آگے بڑھتے ہوئے اپنے پسند کا اسلحہ اور اس میں استعمال ہونے والی گولیاں اپنی جیبیں میں بھریں اور پھروہ سب لوگ کمرے سے باہر نکل آئے۔ جوں ہی وہ باہر نکلے ایک اور کان پھاڑ دھماکہ ہوا اور وہ تینوں زمین کے بری طرح سے ہلتے ہی پھسلتے ہوئے فرش پر گر گئے جبکہ اس دوران ان کے پیچھے آٹومیٹک دروازہ پوری قوت سے بند ہوگیا۔
********
شدید بارش میں ایک مکان کی پچھلی دیوار پر کسی آدمی کا سرنمودار ہوا ، پھروہ صحن اور باغیچے کا پورا ماحول دیکھتے ہوئے وہ دیوار کے اوپر چڑھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ باغیچے میں کود گیا۔اس دوران پوری شدت سے بجلی چمکی اور پھر کچھ دیر بعد بادلوں کی زور دارگھن گرج نے پورے ماحول کو دہلا کردیا۔وہ شخص جیسے ہی کودنے کے بعد کھڑا ہوا تو ایک اورآدمی پاس ہی موجودایک درخت کی اوٹ سے اچانک ظاہر ہوا اور پھر وہ عقاب کی طرح اڑتاہوا باہر سے کودنے والے شخص کو لیتا ہوا زمین پرجا گرا۔ پھر اس نے نہایت پھرتی سے اس کے منہ پر دوتین گھونسے لگائے ،نچلے آدمی نے پھرتی سے کروٹ بدل کراپنے اوپر والے شخص کو پور ی قوت سے گھاس پرگرایا اور پھر اس نے بھی جواباً دو تین مکے اسے جڑ دئیے۔شدید بارش کی وجہ سے دونوں پانی سے تر تھے،معلوم پڑتا تھاکہ جیسے اس مکان کے مکینوں کو اس بارے میں کوئی اندازہ نہیں ہے کہ باہر شدید نوعیت کی لڑائی جاری تھی۔مکان بھی مکمل طور پر تاریکی میں ڈبوہوا تھا،وہ اپنی بناوٹ کے اعتبار سے قدیم لگ رہا تھا۔
دو رکہیں باہر سے ایک بلی کی رونے کی آواز بھی کبھی کبھی آجاتی تھی، اس کی آواز میں بہت درد چھپا ہوا تھا۔ایسا لگتاتھا کہ جیسے وہ کسی غم سے نڈحال ہو، بعض اوقات وہ آواز بھی کافی منحوس معلوم ہوتی تھی۔رونے کے ساتھ ساتھ وہ کبھی کبھی چیخیں مار کر باقاعدہ ماتم بھی کرلیتی تھی۔نہ جانے اسے کون ساغم لگا ہواتھا،اس کی آواز بارش کے ساتھ مل کر ماحول کو مزید پر اسرار بنارہی تھی۔بلی کی چیخوں اور بادلوں کی گھن گرج میں اس لڑائی کا اپنا ہی لطف تھا۔اس لڑائی کا ایک فریق توانور تھا جو اس مکان میں نہ جانے کتنی دیر سے باغیچے میں کودنے والے کا انتظار کئے گھات لگائے بیٹھا تھا۔البتہ دوسرا فریق تاحال پردے میں تھا۔
انور کو یہاں آنے سے قبل کامیابی کی کوئی خاص امید نہیں تھی۔مگراسکے بدلے کی آگ کے سامنے بڑے بڑوں کو اپنی شکست تسلیم کرنی پڑتی تھی۔اس کے جنون نے یہ ممکن بنا دیا تھا کہ آج وہ پھر اسکے اتنا قریب تھا،اب وہ اسے کھونا نہیں چاہتا تھا۔انور نے اس کے گھونسے برداشت کئے اور پھر اپنی جسم کی پوری طاقت کو جمع کرتے ہوئے اس نے اسے ایک سائیڈ پر ایک جھٹکے سے اچھال دیا۔وہ اچھلتا ہوا دور جاگرا،انور اپنے درد کو برداشت کرتا ہوا پھرتی سے اٹھا اور اس کے سر پر پہنچ گیا۔پھر اس نے اسے اپنی لاتوں اور گھونسوں پر رکھ لیا،ٹھیک ٹھاک ٹھکائی کرنے کے بعد جب اس کا سانس بری طرح سے چڑھ گیا اور اب اسے مزید پٹائی کے لئے وقفہ درکار تھا۔ تواس نے بہت گہرے سانس لینا شروع کردیئے البتہ جس کی پٹائی ہوئی تھی اس کی ناک بری طرح سے پچک گئی تھی چہرہ خون سے لت پت تھا اب وہ بھی مزید مار کھانے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔بارش اپنی تمام تر رونقوں کے ساتھ برس رہی تھی۔انور کچھ دیر اس کے اوپر کھڑا گہرے گہرے سانس لیتا رہا پھر اس کے ساتھ گرکر لیٹ گیا۔دونوں بری طرح سے سانس لے رہے تھے کہ انور نے اپنی پھولی ہوئی سانسوں کوقابوکرتے ہوئے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
"روہت تمہیں منع کیا تھا ناں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ تم اگر کسی غیر قانونی کام میں ملوث ہوئے تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔۔مگر تم نے بالکل وہی کام کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھو روہت اگر تم کسی مشکل میں پھنس گئے تھے تو مجھے بتاتے ۔ میں تمہاری مدد کرتا کیا ہم دونوں دوست نہیں ، زندگی کے کئی اچھے برے لمحے ہم نے ساتھ گزارے ہیں۔ زندگی کو ہنستے اور روتے ہوئے قریب سے دیکھاہے۔ اس کو محسوس کیا ہے،اس کی حقیقت کیا ہے اسے جانا ہے۔ میں نے تم پر اعتماد کیا تھا اور اس کی بنیادی وجہ کئی دہائیوں پر محیط ہمارا ساتھ تھا،ہم دونوں کا ہر مشکل میں ساتھ ساتھ رہناتھا۔۔نہیں مگر تم نے مجھے کیوں بتا نا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم بدل گئے ہو بالکل اس بے وفا موسم کی طرح ۔۔۔۔۔یہ بھی اپنی عادت سے مجبور ہے ،کبھی بگڑتا ہے تو اپنی تپش سے ہمارے وجود کو جھلسا دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور کبھی چھوٹے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتاہے۔ کیسی عجیب و غریب طبیعت ہے اس کی، اب مجھے اس کے مزاج میں اور تمہارے مزاج میں رتی برابر بھی فرق نظر نہیں آرہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم اسٹوڈنٹ لائف میں ایسے نہیں تھے۔۔۔۔۔۔شاید شادی کے بعد بدل گئے ہو۔۔۔۔مگراپنے دوست کو یوں پھنسا کر قاتل کو فاعدہ پہنچانا کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔۔۔۔۔کتنے دنوں سے تم میرے خوف کی وجہ سے گھر بھی نہیں گئے۔۔۔۔بھابی راہ تکتی ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن تم ظالم ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہیں تمہارے حالات نے بے حس بنا دیا۔۔۔۔۔۔کبھی کبھی تم پر دکھ بھی ہوتا ہے کہ تم جس طرح قاتل کے ہاتھ میں کھلونہ بنے،کاش ایسا نہ ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم روہت نہیں کوئی اور ہوتے ۔۔۔۔۔۔اگر بھابی نہ سہی تو آٹھ سال کے انوراگ کا خیال کرلیا ہوتا۔۔۔۔۔وہ کیا سوچے گا جب پورے جہاں میں تمہاری جگ ہنسائی ہوگی۔اس کا مستقبل تم نے تباہ کردیا،اب وہ کسی اسکول میں نہیں پڑھ سکے گا کیونکہ سب لوگ اسے طعنے دیں گے کہ اس کا باپ ایک مجرم تھااور انوشہ وہ کیا سوچے گی اس کی تو ابھی عمر بھی نہیں ہوئی اچھا برا سوچنے یا سمجھنے کی۔۔۔۔۔میں مجبور ہوں تمہیں قانون کے حوالے کرنا میرا فرض ہے،قانون اندھا ضرور ہوتا ہے مگر ہم جیسے سپاہی اس کی آنکھیں بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔جرم ،جرم ہوتا ہے اور تم نے جرم کیاہے۔ قانون کا احترام کرنا ہر شہری پر فرض ہے اور تم جیسے شخص کو، جس نے قانون کو دھوکا دے کر مجرم کی معاونت کی ،اسے اپنے کیفرکردار تک ضرور پہنچنا ہوگا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قانون کی حاکمیت قائم ہوکررہے گی اوریہی قانون قدرت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے بہت افسوس کے ساتھ تمہیں کرنل فریدی کے حوالے کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔"انور کے الفاظ میں درد اور قانون کی محبت تھی،درد اس کی فیملی کا اور قانون سے محبت اس کی زندگی کا مقصد۔۔۔۔۔۔وہ خاموش ہوا اور اپنی باتوں کا اثر برسات کے ساتھ اپنے ماحول پر چھوڑ گیا۔
*********
کرنل فریدی وہاں سے نکلتے ہی ایک راہداری میں آگیا جہاں پر نیم اندھیرا تھا۔اس کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار نہیں تھا،مگر اس کے آہنی ہاتھ ہی اس کے لئے سب کچھ تھے۔ اسے باہرسے بہت سے قدموں کی مدہم چاپ بھی سنائی دے رہی تھی،البتہ آتشی اسلحوں سے نکلنے والے قہقہوں کی بھیانک آوازوں نے پورے ماحول کو اپنے سحر میں جکڑاہواتھا۔ایسالگتا تھا کہ جیسے جنگ چھڑ گئی ہواور اب تب میں سب کچھ ملیامیٹ ہوجائے گا۔قلعے کی عمارت دھماکوں کے بعد اب بھی کبھی کبھی جھرجھری لے کرخود کو اپنے وجود میں سمیٹنے لگتی تھی۔بے تحاشہ بارش اور جہنمی دھماکوں نے بھی قلعے کی روح کو بری طرح سے جھنجھوڑ دیا تھا۔انسان تو انسان خود قلعے کے احساسات کو بھی اس نے بری طرح سے متاثرکیا تھا۔لگتا تھا کہ جیسے زیادہ دیرتک قلعہ اس بھیانک جنگ کو برداشت نہیں کرپائے گااور پھر اسکے قدم اکھڑجائیں گے۔ایک تو خود صدیوں کے سفرنے اسے اپنے آپ پر بوجھ بنادیا تھا،دوسرا اب یہ قیامت اسے زمین سے زبردستی گلے لگنے پر مجبورکرتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ صدیوں کے اس طویل سفر نے قلعے کی زندگی میں بہت سے نئے ہنگاموں نے جنم لیاتھا،جو وقت کے ساتھ ساتھ خود ہی ختم ہوتے گئے تھے مگراس قلعے کے رعب ،دبدبے اور شان و شوکت میں بالکل فرق نہیں پڑا تھا۔وہ صدیوں سے قائم تھا مگراب وہ ازل تک قائم نہیں رہ سکتا تھا۔اس کی عمربھی قدرت نے لکھ دی تھی اور اس سے ایک پل اوپر نہ نیچے وہ گزار سکتاتھا۔شاید آج ہونے والے اس خوفناک ہنگامے میں اس کی تقدیر کا فیصلہ ہوجائے۔بے شک خدا کے سوا ہر چیز کو زوال ہے،اس کی موت ہے اور اگر نہیں ہے تو خدا کو نہیں ہے ۔وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا،اسے نہ زوال ہے اور نہ ہی اس کی شان، رعب و دبدے کو کبھی شکست ہوگی۔یہی ہے حقیقت اس کائنات کی اور یہی زندگی کی بنیادی حقیقت۔۔۔
فریدی دبے قدموں بڑھتا ہواراہداری کے اختتام پر آکر کھڑا ہوگیا،دوسری جانب کوئی آہستہ آہستہ محتاط قدم رکھتا ہوافریدی والی راہداری سے متصل ایک اور راہداری میں دائیں جانب آرہا تھا۔وہ چلتے چلتے ایک دم سے رکا اور کسی آہٹ کو محسوس کرنے لگاجبکہ اس دوران باہر فائرنگ زور و شور سے جاری تھی۔راہدداری میں آنے والے دوسرے شخص کے پیچھے مزید آدمیوں کے قدموں کی چاپ بھی آنے لگی اور پھراسی طرح ان کے مخالف سمت سے بھی دو تین آدمیوں کے فریدی کے قریب آنے کی آوازیں آنے لگیں ۔ اب فریدی دونوں اطراف سے ٹریپ ہوگیا تھا،راہداری کے دونوں جانب کچھ لوگ آرہے تھے اور وہ یقیناً فریدی کے ہمدرد نہیں ہوسکتے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں اسلحہ ہونا ایک لازمی امر تھااور فریدی خالی ہاتھ تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے ہی ایک آدمی دائیں جانب سے فریدی والی راہداری میں اچانک نمودار ہوا اور فریدی نے اڑتے ہوئے اسکی گردن میں اپنا بازو پھنسا دیااب وہ مڑ کر دوسری راہدری میں آگئے تھے۔ جو بندہ فریدی کے ہاتھ میں تھاوہ بری طرح سے تڑپ رہا تھافریدی راہداری میں اسے لئے فوراً دائیں طرف مڑا ہی تھاکہ پیچھے سے آنے والی گولیوں کی بوچھاڑنے فریدی کے بغل میں پھنسے ہوئے آدمی کو بری طرح سے انکا شکارکردیا اور پھروہ وہیں فریدی کے بازو میں جھول گیا،اسے اپنی آخری چیخ مارنا بھی نصیب نہ ہوئی ۔ فریدی اسی کے سہارے فضامیں اچھلا اور پھر سامنے سے آنے والے آدمیوں کی گردنوں میں اس نے اپنی ٹانگیں قینچی کی ماند سختی سے پھنسادیں۔ان کے چہرے لال ہوگئے تھے ،انہوں نے غیر ارادی طور پر فائر کردیئے اوراسکے ساتھ ہی انکے ہاتھوں سے انکے اسلحے چھوٹ گئے ۔جبکہ گولیاں سیدھا فریدی کے پہلومیں پھنسے ہوئے آدمی کی پشت میں پیوست ہوگئیں ۔اب کی بار وہ پھڑپھڑانابھول گیا تھا کیونکہ اس بار وہ ایسا کرنے کی صلاحیت کھوچکاتھا۔فریدی نے اپنی ٹانگوں کو پھرپوری قوت سے اسٹائل کے ساتھ گول گھمایا اور اس کی ٹانگوں میں پھنسے ہوئے آدمی بری طرح سے اڑتے ہوئے اپنی پشت پر موجود آدمیوں پر جاگرے انہوں نے بھی لاشعوری طورپر فائرکردیئے اور اس بار بھی بے چارہ وہی شکار ہوا جو فریدی کی بغل میں پھنسا ہوا تھا ۔ یا یہ کہیں کہ فریدی نے اس کو ڈھال بنایا ہوا تھا،وہ پانچوں ایک ساتھ ایک دوسرے کے اوپر گرے ۔وہ سارے اس نئی افتاد پر ذہنی طور پرانتہائی حیران تھے،مگر پھر وہ زمین پر گرتے ہی اپنے آپ پر قابو پاتے ہوتے ہوئے فوراً کھڑے ہوگئے۔اس دوران فریدی نے بھی اپنے بغل میں موجود آدمی کو زمین پرایک طرف پھینک دیا ۔اب وہ بھی خالی ہاتھ تھا اور اس کے سامنے موجود پانچ آدمی بھی خالی ہاتھ تھے۔وہ پانچ اور فریدی اکیلا،اس سے قبل کہ مزیدکچھ ہوتا، اچانک ایک زور دار دھماکا ہوا اورزمین بری طرح سے لرز گئی جیسے زلزلہ آگیا ہوتو فریدی کے علاوہ باقی افراد بری طرح سے اپنا توازن کھو گئے۔وہ گرے اور فریدی نے انہیں اٹھنے کا پورا موقع دیا،جب وہ ایک ساتھ فریدی پر حملہ آور ہوئے تو اگلا منظر دیکھ کر قلعے کی درودیوار سکتے میں آگئیں ۔کیونکہ فریدی تو بجلی بنا ہوا تھااس نے ایک ساتھ ان پانچوں کے حملے بلا ک کرناشروع کردیئے۔وہ اچھل اچھل کر فریدی پرکبھی لاتوں سے کبھی ہاتھوں سے حملے کررہے تھے مگر فریدی انتہائی مہارت سے سارے حملوں کو روک رہا تھا۔ایک آدمی نے غصے سے جھنجھلا کر خنجر نکال لیااور پھر وہ ا چھل اچھل کر فریدی پر حملے کرنے لگا ۔ مگر مجال تھی کہ وہ پانچوں فریدی کو چھو بھی سکے ہوں۔دیکھتے ہی دیکھتے فریدی نے خنجر سے حملہ آور شخص کی خنجر والی کلائی پکڑی اور پھر اسے موڑ دیاکٹک کی آواز کے ساتھ ہی اس کا ہاتھ مڑا اور خنجراس کے ہاتھ سے چھوٹ گیااور وہ چیختا ہوا اپنا ہاتھ پکڑتا ہوا نیچے بیٹھ گیا۔ اس دوران تین حملہ آور ایک ساتھ حملہ کرتے ہوئے فریدی کے پاس آئے ۔ فریدی نے ایک دم زمین پر بیٹھ کر اپنی ٹانگ کسی آرے کی طرے چلائی اور پھر وہ ٹانگ باقی ٹانگوں سے ٹکرائی اور پھر انہیں اچھل کر زمین پر گھرتے ہوئے مجبورکرنے لگی۔فریدی تو چھلاوہ بنا ہواتھا،ایک دم سے وہ اچھل کرکھڑا ہوا اور پھر اڑتے ہوئے فضا میں اپنے جسم کو سمیٹ کر اس نے اپنی دونوں ٹانگیں ایک ساتھ جوڑ کر پانچویں حملہ آور کی چھاتی پر چلا دیں۔ جوں ہی فریدی کی ٹانگیں اس پر پڑیں وہ اڑتا ہوا سامنے والی دیوار سے بری طرح سے ٹکرایا اور پھر زمین پر گرتے ہی فارغ ہوگیا۔
ایک آدمی کا توہاتھ ٹوٹ گیا تھا اس میں تو بالکل سکت نہیں رہی تھی کہ وہ اٹھ کر فریدی پر حملہ آور ہوتا۔البتہ باقی تینوں کھڑے ہوکر فریدی کے سامنے آگئے انہوں نے بھی اپنے اپنے خنجر نکال لئے تھے۔آن کی آن میں انہوں نے تین ا طرف سے فریدی کو گھیر لیا،پہلے پیچھے اور سامنے والے نے ایک ساتھ حملہ کیا تو فریدی نے ایک دم سے اپنے جسم کو قوس کی طرح موڑا تو سامنے سے آنے والے خنجربردار نے پیچھے والے خنجر بردار کے عین سینے میں اپنا خنجر گھونپ دیا۔فریدی کے سائیڈ پر موجود حملہ آور نے بھی عین اسی وقت فریدی کے پیٹ پر حملہ کردیا،فریدی نے فوراً اپنے آپ کو زمین پر گرادیا۔پھر اس نے تڑپ کر کروٹ بدلی تو وہ وار خالی گیا اور پھر اس کے ساتھ ہی جس کو خنجر لگا وہ ایک بھیانک چیخ کے ساتھ زمین پر گرگیا۔اس کے بعد دو حملہ آوروں نے تابڑ توڑ حملے شروع کردیئے اور فریدی زمین پرلیٹے ہی لیٹے کروٹ بدل بدل کر انکے حملے ناکام کر نے لگا۔ پھر اچانک ایک حملہ آور کا اس نے حملے کے دوران ہاتھ پکڑلیااور اس کے ساتھ ہی دوسرے نے بھی حملہ کیا تو اس نے وہ بھی اپنے دوسرے ہاتھ کے ساتھ روک کراسکی کلائی پکڑلی۔کچھ دیر تک یوں ہی ذہنی اور جسمانی کشمکش جاری رہی اور پھر فریدی نے پوری قوت سے دونوں کی کلائیاں مروڑ کران کے جسموں پر اپنی دونوں لاتوں سے وار کردیئے۔دونوں کے ہاتھوں سے خنجر چھوٹ گئے پھر دیکھتے دیکھتے ہی فریدی تڑپ کا اچھلا اور پھر کھڑے ہوکراس نے دیوار کا سہارا لیکراس کے اوپر چلتے ہوئے اڑ کر فلائنگ کک ایک کے سر پر رسید کی جبکہ فریدی ابھی فضا میں ہی تھاکہ ایک اور فلائنگ کک اس نے دوسری ٹانگ سے دوسرے آدمی کی چھاتی پر رسید کی۔دونوں زمین پر گر گئے فریدی نے پھرتی سے ایک کو پکڑکرایک دیوار میں دے مارا جبکہ دوسرا یہ منظر دیکھ کر فریدی سے مافی مانگتے ہوئے زمین پر بیٹھے بیٹھے پیچھے کو سرکنے لگا۔ فریدی اسے اس کے حال پر چھوڑ کر باہر کی جانب رخ کرلیا، تاکہ باہر کے ماحول کا جائزہ لے سکے کہ اس اثناء میں پیچھے سے اس آدمی نے اٹھ کراپنے آپ کو تولا اور فریدی پھر وہ اڑتا ہوا کی پشت سے آیا ہی تھاکہ فریدی نے ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں نیچے جھکا تووہ آدمی اپنے ہی زور پراڑتاہوا سامنے موجود چند زینوں پر گرگیاان پر گرتے ہی وہ شخص بری طرح تڑپنے لگا۔ پھر فریدی نے آگے بڑھ کراسے سیدھا کیااور اسکی گردن میں اپنی ٹانگیں پھنسا کر پوری قوت سے انہیں ایک جانب موڑ دیا تو انتہائی کربناک مگر گھٹی گھٹی چیخوں کیساتھ اس کی آنکھیں آہستہ آہستہ بے نور ہوتی چلی گئیں۔
********
رشیدہ کی نئی چمکتی ہوئی کار آئی جی پولیس کے دفترمیں داخل ہوکر وہاں سے اس کی پارکنگ میں چلی گئی۔اس کی کار کے پیچھے نمبر پلیٹ کی جگہ محکمہ سراغ رساں لکھا ہوا تھا۔رات کے نو کا عمل تھااور بے تحاشہ بارش کی وجہ سے جگہ جگہ کیچڑ اور گندے پانی نے اپنی حکمرانی جمائی ہوئی تھی۔رشیدہ برساتی کوٹ پہنے کار کا دروازہ کھولے باہر نکلی اور پھر تیز تیز چلتی ہوئی اندر چلی گئی۔ وہاں سب سے پہلے اس کا سامنا پولیس کے دیگر افسران سے ہوا۔اس نے آئی جی پولیس مہان سنگھ سے ملاقات کرنی تھی اور مہان سنگھ اس وقت کسی بہت ہی اہم میٹنگ میں مصروف
تھا ۔لہذااسے انتظار کرنا پڑا،اس دوران اس کے لئے ایک ملازم چائے کا کپ لے آیا۔ میٹنگ کو برخاست ہوتے کوئی ایک گھنٹہ لگ گیا،اس کے بعد ایک سینئرپولیس افسر نے اس کی مہان سنگھ کے کمرے تک راہ نمائی کی اور پھر وہ لوگ دروازے پر ہلکی سی دستک دیتے ہوئے اندر داخل ہوگئے۔ اندر ایک بہترین انداز میں سجا ہوا آفس تھاایک مناسب سائز کی ٹیبل کے پیچھے مہان سنگھ ایک اونچی گھومنے والی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔اس کی عمرکوئی پچاس کے لگ بھگ رہی ہوگی اور چہرے پر سفید داڑھی کے ساتھ سر پر سکھوں کی مخصوص پگ بھی تھی جواس کے وقار رعب اور دبدے میں اضافہ کررہی تھی۔دراز قد ،چوڑی چھاتی اور کشادہ پیشانی اس کی ذہانت اوربہادری کی چغلی کھارہی تھیں۔ وہ انتہائی ایمان دار افسرتھا اور پورے ساگا لینڈ میں اس وقت پولیس کے محکمہ میں وہ ایک بہترین افسر سمجھا جاتا تھا۔اس کا ماضی بے داغ تھا،انتہائی محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ لاتعداد پولیس کے ایوارڈز بھی اس کے پاس تھے ۔پولیس کے محکمے سے قبل وہ فریدی کے ساتھ محکمہ سراغ رسانی میں بھی کام کرتا رہاتھا۔جہاں پر اس نے فریدی کے زیرنگرانی اسمگلروں کا ایک بہت بڑا گروہ پکڑا تھاجو دنیابھرسے نشہ آور ادویات سمگل کرکے مغل آباد میں غیرقانونی طورپر فروخت کرتے تھے۔جس کا شکار ہوکرکئی نوجوان اپنا مستقبل تباہ کربیٹھے تھے، ان مجروموں کی گرفتاری اور بعدازاں انہیں عدالت کی جانب سے پھانسیوں کی سزا ملنے پر ملک بھر میں اسے خوب سراہا گیاتھا۔اسے اس کیس کے حل کرنے پر سرکار کی جانب سے باقاعدہ ایک کوٹھی بھی ملی تھی اور ایوارڈ کے ساتھ اسے ڈھیر ساری انعامی رقم بھی دی گئی تھی۔ مگر بعدمیں محکمہ سراغ رسانی کو پولیس کے محکمے میں ضم کرکے کے اسے سرکار کی طرف سے آئی جی کا عہد ہ دے دیاگیا تھا۔یہاں پر اس کی کارکردگی اچھی تھی، اس نے بطور پولیس سربراہ کے پولیس کے محکمہ کی عوام کے لئے جرم اور مجرم سے آگاہی اورشعور کے لئے ایک مہم ساز ویب سائٹ بنوائی تھی۔جس میں عوام کوباقاعدہ عام فہم زبان میں تعلیم دی گئی تھی کہ وہ کس طرح جرائم سے بچ سکتے ہیں ۔ اس میں جرائم کی مکمل آگاہی موجود تھی کہ جرائم کس نوعیت کے ہوتے ہیں،ان کی اقسام کتنی ہوتی ہیں اور کن عوامل کی وجہ سے انسان مجرم بنتا ہے ۔اس کے علاوہ اس میں قانون کے احترام کے لئے بہت سے ویڈیو پیغامات اور اسی موضوع پر کئی مضامین بھی موجود تھے ۔اس کے علاوہ وہ آہستہ آہستہ پولیس کے محکمے کی اصلاحات بھی کرتا رہتا تھا۔لیکن اس کیس میں اس نے میڈیا کے پریشر کی وجہ سے یہ کیس کرنل فریدی کو دے دیاتھا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اسکی میڈیا مینجمنٹ فریدی کی بلیک فورس کو خوب آتی تھی اس معاملے میں پولیس کے پاس کوئی خاص ٹرینگ نہیں تھی اور نہ ہی کوئی الگ محکمہ۔لہذا اسے یہ کیس شہریوں کے امن اور سکون کے لئے فریدی کو ٹرانسفر کرنا پڑا۔
مہان سنگھ کی میز پر ساگالینڈ اور پولیس کے محکمے کے چھوٹے سے جھنڈے رکھے ہوئے تھے۔اس کے علاوہ مختلف رنگوں کے چار عدد فون سیٹ بھی موجود تھے۔ میز پرسجاوٹ کے لئے چند نمائشی پیس بھی موجود تھے۔مہان سنگھ کی پشت پر دیوار کے اوپرمغل آباد شہرکا ایک بہت بڑانقشہ بھی ایک کپڑے پر پرنٹ ہوکر سجاہوا تھا۔دیوار پر ایک جانب گھڑی بھی لگی ہوئی تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ سن اور تاریخ بھی بتاتی تھی۔کھڑکیوں پر بہترین پردے اور فرش پر اسی رنگ کا قالین دفترکے خوب صورت ہونے کا چیخ چیخ کر اعلان کررہے تھے۔
مہان سنگھ نے رشیدہ کے اندر آتے ہی کھڑے ہوکر اس کا استقبال کیا،رسمی ابتدائی قلمات کے بعد وہ لوگ ایک ساتھ ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے۔ان کے درمیان اب صرف ایک میز حائل تھی جبکہ پولیس کا دوسرا افسر جو رشیدہ کی راہنمائی کرتا ہوا آیا تھاوہ بھی رشیدہ کے پاس والی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔
"جی مس رشیدہ میں انتہائی معذرت خواہ ہوں کہ آپ کو انتظار کرنا پڑا ۔کیونکہ میرے ساتھ والے کمرے میں ایک کمپیوٹر کے ذریعے آن لائن میٹنگ ہورہی تھی۔امید ہے آپ درگزر کریں گے کیونکہ کرنل صاحب کا ریفرنس آتے ہی آپ کے احترام کو خاص طور پر ملحوز خاطر رکھنا پڑا۔"مہان سنگھ نے انتہائی معذرت خواہانہ انداز میں بات کرتے ہوئے کہا۔
"جی نہیں آئی جی صاحب معذرت تو مجھے کرنی چاہے کہ میں آپ کے میٹنگ کے وقت آپ کو ڈسٹرب کرنے آگئی وہ دراصل میں فریدی صاحب کے کہنے پر ایک تفتیش کے سلسلے میں ریلوے اسٹیشن جانا چاہتی ہوں ۔وہ جو چوتھی لاش آپ کوتابوت میں اس ٹرین سے ملی تھی مجھے اس بارے میں تفتیش کرنے کے لئے جانا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ آپ وہاں کے سٹیشن ماسٹر اور دیگر عملے سے میرے جانے کے حوالے سے راہ ہموار کریں۔ تاکہ وہ لوگ مجھ سے مکمل تعاون کریں،مجھے جائے واردات بھی دیکھنی ہے اور عملے سے تفتیش بھی کرنی ہے۔"
"جی جی بالکل کیوں نہیں ،اگر فریدی صاحب نے فون کرکے مجھے پہلے ہی کہہ دیا ہوتا تو آپ کو یہاں آنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔آپ سیدھا ریلوے اسٹیشن چلی جاتیں،آپ نے بلاوجہ تکلیف کی یہ کوئی بات ہے بھلا میں ابھی فون کردیتا ہوں اور اگرکرنل صاحب خود ہی اسٹیشن فون کردیتے توبھی بات بن جاتی۔۔۔۔"
"جی وہ دراصل کیس کے دیگر پہلوؤں پر تفتیش کررہے ہیں اس لئے مجھے آپ کے پاس آنا پڑا ۔وہ مصروف ہی اتنے تھے کہ خود فون نہ کرسکے ۔۔۔امید ہے آپ انکے فون کئے بغیر ہی تعاون کریں گے۔۔۔۔۔"
"جی جی مس رشیدہ آپ تو شرمندہ کررہی ہیں میں ابھی فون کرتا ہوں۔۔۔۔۔"یہ کہتے ہی اس نے ہرے رنگ کا فون اٹھایا اور پھر اس پر نمبر ڈائل کرنے لگا۔کچھ دیر کے بعد دوسرے جانب سے لائن ملتے ہی اس نے رسمی دعائیہ قلمات کے بعدکہا۔
"جناب یہ میرے سامنے مس رشیدہ بیٹھی ہیں یہ فریدی صاحب کے بلیک فورس کی طرف سے آپ کے پاس اس گمنام تابوت میں ملنے والی لاش کے حوالے سے تفتیش کرنے کے لئے آرہی ہیں امید ہے آپ تعاون کریں گے۔۔۔۔۔جی ہاں۔۔۔۔ جی ۔جی ۔۔۔۔۔۔۔صحیح ہے۔۔۔۔بہتر۔۔۔اوکے گڈ بائے۔۔"
"آپ کا کام ہوگیا مس۔۔۔۔۔۔۔"اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ ہی رشیدہ نے مسکراتے ہوئے اس سے اجازت چاہی،تو مہان سنگھ خود اٹھ کراسے دروازے تک چھوڑنے آیا اور پھروہ وہاں سے چلی گئی۔

*********
سلور ایکس کیسنیو کا مالک ابلیری آندرے اس وقت وہ اپنے زیرزمین آفس میں بیٹھا ایک ایل سی ڈی کی مدد سے ہال میں ہونے والے جوئے کو دیکھ رہا تھا۔اسکی سکرین پر ہر ٹیبل کا کلواَپ ہو سکتاتھا،اس کی اسکرین فی الحال دس خانوں میں بٹی ہوئی تھی اور اس کا فوکس آج کوئی نہیں تھا بلکہ اسے اس پراسرار شخص کاانتظار تھا جوپورے کیسنیوکو ماموں بناگیاتھا۔اسے ساگالینڈ میں کیسنیو کھولے پانچ برس ہوگئے تھے،وہ دراصل فرانسیسی تھا اور ریاضی کے مضمون میں خاصی مہارت رکھتا تھا۔ اس نے اس مضمون میں ماسٹر ز کیاہواتھا ،پہلے پہل تو وہ ریاضی کا پروفیسر بنامگر وہاں اسے کوئی خاص کامیابی نہ ملی اسے دولت کی بے انتہاہوس تھی۔وہ راتوں رات امیر ہونا چاہتا تھا اور اسے اسکے اپنے ملک میں کوئی خاص پذیرائی نہ ملی تھی۔وہ ریاضی کا اتنا شوقین تھا کہ کبھی کبھی کیسنیوکی روٹین سے اکتا کر ریاضی کے مشکل اور پیچیدہ مسئلے حل کرناشروع کردیتا تھا۔اس کا دماغ اس میں خوب چلتا تھا اور اس کی دل میں کہیں یہ آرزو ضرور تھی کہ وہ کچھ ایسا کرجائے کہ اس مضمون میں انقلاب بپا ہوجائے ۔وہ کیسنیو کے ذریعے پیسے کما کراپنے کالے دھن کو ریاضی کی ایک بڑی درسگاہ قائم کرکے اسے نہ صرف سفید دھن میں بدلنا چاہتا تھا بلکہ ریاضی کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کرناچاہتا تھا۔
اس مقصد کے حصول کے لئے اس نے اپنے ملک میں تو خوب محنت کی پر اسے وہاں سیاسی و قانونی وجوہات کی بنا پرکیسنیو کھولنے کی اجازت نہ ملی پھر اسے کسی اپنے خیر خواہ نے مشورہ دیا کہ وہ کیوں ناں ایشیاکے کسی ترقی پذیر ملک کا رخ کرے جہاں کی حکومتیں بھی کرپٹ ہوتی تھیں اور قوانین بھی نرم ۔اگر کسی وجہ سے وہ پکڑاگیاتوآسانی سے رشوت دے کر چھوٹ جانے کے کافی چانسز تھے،لہذا اسے اپنی قسمت وہاں آزمانی چاہیے۔اسے یہ مشورہ بھلا لگا لہذا وہ فرانس چھوڑ کر پاکیشیا چلا گیا،کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد وہ پاکیشیا سیکرٹ سروس کی نظروں میں آگیا جس کی وجہ سے اسے وہاں سے سارا دھندہ چھوڑ کر ساگا لینڈ آنا پڑا۔یہاں بھی اسے بلیک فورس سے ڈرایاگیا مگر پروسوں تک تو اس کا دھندہ خوب چل رہا تھا لیکن کل ایک شخص نے اچانک آکر اسے دیوالیہ کردیا تھا یہ بات واقعی اس کے لئے تشویش کاباعث تھی۔وہ اتنی بڑی رقم کا مقروض آج تک نہیں ہوا تھا۔
اس کی عمر چالیس بیالیس کے لگ بھگ رہی ہوگی اور وہ چہرے پر فرنچ کٹ رکھتا تھا۔کنپٹیوں پر سفیدی نے اسے اس کی عمر سے زیادہ بڑا بنا دیا تھا۔وہ پچاس برس کا دکھتا تھا،کبھی کبھی خود بھی جوا کھیل لیا کرتامگر صرف شغل کی حد تک اس سے زیادہ نہیں ۔اس نے یہاں باقاعدہ اپنے کارندے رکھے ہوئے تھے جن کی مدد سے وہ ہر جوا کھیلنے والے کو لوٹتا تھا۔ایک ارب سے زیادہ کسی کو جیتنے نہیں دیتا تھا، ہر کارندے کو باقاعدہ اسے اسکی محنت کی اجرت ملتی تھی ۔اب دیوالیہ ہونے کے بعد اگر وہ اس کو رقم نہ لوٹا سکا تو نہ جانے پھر کیا ہوگا کہیں بلیک فورس کا ہی کوئی بندہ نہ جواس کے بعداسکے پیچھے نہ پڑ جائیں ۔لیکن وہ خود کون تھا اور سیاہ نیولا والا کارڈ اس کا کیا مطلب ہو سکتا تھا؟ کہیں یہ خاموش دھمکی تو نہیں تھی؟آخر وہ اس خطرناک کارڈ کو دے کر کیا پیغام دینا چاہتاتھا؟اگر وہ روز آکر کھلنا شروع ہوگیا توپھر تواسکا ریاضی والا خواب محض خواب ہی رہ جائے گا۔ اس جیسے بہت سے سوالات اور وسوسے اس کے ذہن میں گردش کررہے تھے اور اسکے ماتھے پر لکیروں کا جال پھیلا ہوا تھا۔قریب تھا کہ سوچ سوچ کراس کی دماغ کی رگیں ہی پھٹ جاتیں۔اس نے سوچاکہ کیوں نا وہ نہاکرتروتازہ ہوجائے تاکہ وہ کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل ہوسکے۔
یہ سوچ کر وہ اٹھا اور پھر اس نے اپنا کوٹ اتار کر اپنی گھومنے والی کرسی کی پشت پر لٹکایا اور پھر خود تولیا اٹھا کر واش روم کی جانب بڑھ گیا۔واش کا دروازہ کھول کر وہ اندر آیا اور پھر اس نے دروازہ کی کنڈی چڑھا دی وہ جو ں ہی اس کام سے فارغ ہوا کہ اچانک کسی نے لوہے کی ننگی وائر اس کی گردن کے گرد بے دردی سے لپیٹ لی پھر اس کی گردن کے گرد وہ زور بڑھاتا چلا گیا۔ آبلیر آندرے بری طرح سے اپنی گردن کے گرد ہاتھ لیجاکر اپنے آپکو چھڑوانے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔وہ بری طرح سے تڑپ رہا تھا اورکوئی اس کی گردن کے گرد زور بڑھتا چلاجارہاتھا پھر ایک دم اس نے آندرے کو اچھال کر آئینے کے سامنے کردیا۔ کچھ دیر کی مزاحمت کے بعد جوں ہی آندرے کی نظر آئینے پرپڑی اسے کوئی سیاہ نقاب پوش سیاہ دستانے پہنے نہایت بے دردی سے زندہ مارنے کی کوشش کررہا تھا ۔وہ جو کوئی بھی تھا اس کی آنکھیں غصے سے لال ہوگئیں تھیں جبکہ آندرے کے دیدے پھیلے ہوئے تھے اسکی زبان باہر نکل آئی تھی اور وہ گھٹی گھٹی بہت بھیانک آوازیں نکال رہاتھا اورپھر ایک دم سیاہ نقاب پوش نے اسکی گردن سے وائر نکال کر اسے واش روم کے فرش پر پٹخ دیا ۔ آندرے بری طرح سے تڑپتا ہوا اپنی گردن پکڑے فرش پر منہ کے بل لیٹتے ہوئے کھانسے لگا کھانسی کے ساتھ ساتھ اسکی گردن سے خون بھی بہنے لگا تھا۔جبکہ اس کی گردن کے گرد لال دائرہ بھی بن گیاتھا۔ پھر سیاہ نقاب پوش نے وائر ایک طرف زمین پر رکھی اور آگے بڑھ کر واش روم کے باتھ ٹب میں پانی کھول دیا۔ تھوڑی دیر میں وہ بھر گیا تو اس نے پھرزمین پر پڑے ہوئے آندرے کو بری طرح سے اٹھا کر کھڑا گیا اورپھر اس نے اس کا سر باتھ ٹب کے پانی میں دے دیا۔آندرے بری طرح سے پھڑپھڑا رہاتھا،اس کی سانس اکھڑ رہی تھی اور گردن کا سارا خون پھیل کر پانی کو لال کررہاتھا۔کچھ دیر بعد نقاب پوش نے اسکے سر کو پانی سے نکال کرچھوڑدیا۔آندرے بری طرح سے سانسیں لے رہاتھااس کی حالت غیر ہورہی تھی ،اس نے بڑی مشکلوں سے اپنا سانس بحال کرنے کو کوششیں کیں۔
بعدازاں نقاب پوش نے نیچے گری ہوئی وائر اٹھائی اور اسے بجلی کے بورڈ کے پاس لے جاکر اس کے ساکٹ میں وائرکا ایک سرا ڈالا اور پھر اس نے سوئچ آن کردیا۔اس کا دوسرا سرا لے جاکر اس نے باتھ ٹب کے پانی میں ڈال دیا۔چونکے اس نے خود بجلی کے کرنٹ سے بچنے کے لئے خاص دستانے پہنے ہوئے تھے اس لئے وہ ننگی تار کو بلاخوف خطر استعمال کررہاتھا۔اس کے بعد پانی میں ہلکی سی ارتعاش پیدا ہونا شروع ہوئی تو اس نے دوبارہ آندرے کی طرف قدم بڑھا دیئے۔آندرے نے ڈر اور خوف سے ہاتھوں کے اشاروں کی مدد سے اپنی زندگی کی اپیلیں کرناشروع کردیں۔ ان مظلوم اپیلوں کو دیکھ سیاہ نقاب پوش نے قہقہہ لگا کر حقارت سے اس کا سرتھام کر دوبارہ پانی میں ڈال دیا۔ نقاب پوش پر تو جیسے جنون سوار تھا،وہ اس پورے عمل سے خوب لطف اندوز ہورہاتھا۔چند سیکنڈوں کے بعد اس نے اسے سانس لینے کی مہلت دی آندرے منہ کھولے بری طرح سے گہری گہری سانسیں لیتا ہوا منہ سے پانی نکالتا ہوا اپنی آنکھیں کھولنے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔باتھ ٹب کا پورا پانی لال ہوچکا تھا اور اب ابل ابل کر ٹب سے باہر نکل رہاتھا۔سیاہ نقاب پوش نے ایک بار پھر اس کا سر پانی کے ٹب میں ڈال دیااور پھر کچھ دیر بعد نکال دیا۔ وہ یہ عمل کچھ دیر تک کرتایوں ہی کرتا رہا پھر اس نے اسے دوبارہ فرش پر حقارت سے پھینکا اورپھر وہ سوئچ بورڈ کی طرف بڑھ گیا اس نے وہاں جاکر سوئچ بند کر کے وائر سمیٹی اور پھر اسے اپنی اندرونی جیب میں ڈال کر وہ دوبارہ آندرے کی طرف بڑھ گیا۔اس نے آندرے کو اسکے بالو ں سے اپنی مٹھی میں پکڑا اور پھراسے گھسیٹتا ہواوہ دروازے کے پاس آیا اور پھر وہ دروازہ کھول کر باہر نکلا اور پھراس نے اسے اسکے آفس میں لے جاکر قالین پر چھوڑا اور پھر وہ اس کی میز کی دراز کی جانب بڑھ گیا۔آندرے بے چارے میں اپنا دفاع کرنے یاکسی بھی قسم کی مزاحمت کرنے کی ہمت باقی نہیں بچی تھی۔نقاب پوش نے دراز کھول کر پہلے اس میں سے آندرے کی پرسنل ڈائری نکالی اوراسے میز پر رکھ دیا۔ بعدازاں اس نے اس میں سے ایک سرخ رنگ کی کاپی نکالی جسے کھول کر وہ قہقہہ لگا کر ہنس کر پڑا ۔اس میں الجبرا کے فارمولے اور الجبرا سے متعلق اشکال بنی ہوئیں تھیں۔پھر وہ کاپی اٹھا کر آندرے کے پاس آیا اور کاپی کو دیکھ کر آندرے کی حالت مزید خراب ہوگئی اس نے انتہائی بے بسی سے سر کو ہلاناشروع کردیا۔اس کی زندگی کی کل محنت اس کاپی میں تھی اور وہ کاپی اسے اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری تھی۔وہ بری طرح سے کراہ رہاتھا اور اب تو اس نے باقاعدہ روناشروع کردیا تھا۔
"تم ریاضی دان اور تمہاری یہ ریاضی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری جوتی ۔۔"سیاہ نقاب پوش نے کاپی پر حقارت سے تھوکتے ہوئے جیب سے لائٹر نکال کر اسے آگ لگانا شروع کردی۔ دیکھتے ہی دیکھتے شعلے بلند ہوتے گئے اور پھر نقاب پوش نے قہقہے لگا کر اسے مکمل طور پر نذر آتش کیا۔وہی شعلوں بھری کاپی اس نے آندرے کے پیٹ پر رکھی اور اسے اپنے فوجی بوٹوں سے بے دردی پیٹنا شروع کردیا۔آندرے کی کرب ناک چیخوں سے کمرہ گونج اٹھا۔کمرہ چونکہ ساؤنڈ پروف تھا اس لئے بیرونی دنیا سے کسی بھی قسم کی مدد کی کوئی امید نہیں تھی ۔جب آگ بجھ گئی اور تمام کاپی راکھ کا ڈھیر بن گئی تو اس نے نیچے جھک کر سفاکی سے اس کا گلادبادیا۔پھر اس نے پاس ہی موجود ایک الماری کھولی اور اس میں سے ایک بڑا سیاہ بیگ نکال لیا۔اسکی زپ کھولی تو اس میں سے کچھ کاغذات کا پلندہ برآمدہوا جواس نے نکال کر باہررکھا اور پھر آندرے کی لاش کو اس نے بیگ کے اندر رکھ کراسے بند کیااور کمرے کا پچھلا خفیہ دروازہ کھولتا ہوا وہ باہر نکل گیا۔

*********
دھماکے نے کچھ دیر انکو یوں ہی اپنے سحر میں جکڑے رکھاپھروہ سب ایک ایک کرکے بڑھتے ہوئے جوں ہی دوسری راہداری میں داخل ہوئے ایک گولی سنسناتی ہوئی حمید کے کان سے گزرتی ہوئی ایک دیوار میں جا گھسی جس سے بننے والے نشان سے دلوارکا پلاسٹر زمین پر گر گیا۔سب لوگ ایک دم سے کودتتے ہوئے اپنی سابقہ راہداری میں آگئے۔کچھ دیر بعد آگورا نے آگے بڑھ کر ہلکا سا راہداری میں جانکاتوایک اور گولی مخالف سمت مگر چھت کی طرف سے سنسناتی ہوئی اسکے پاس سے گزر گئی ۔تھوڑا غور کرنے کے بعد محسوس ہوا کہ گولی راہداری میں موجود ایک روشندان سے فائر ہوئی۔اس کا مطلب تھا کہ وہ لوگ جو کوئی بھی تھے قلعے کی چھت تک پہنچ گئے تھے۔حمید نے پیچھے مڑکرآگورا اور سامبا کو اشاروں ہی اشاروں میں کچھ سمجھایا تو دونوں نے اس کی بات میں سرہلا دیا مگرسامبا نے حمید کے ساتھ ہلکی بحث کی کہ اس کے بجائے وہ راہداری میں داخل ہوگا اور حمید اور آگورا اسے کور کریں گے۔حمید نے تھوڑی بحث کے بعد اسے آگے جانے کی اجازت دے دی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے سامبا تڑپ کر اچھلا اور رول ہوتا ہوا راہداری میں آگیا۔اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی مشین گن سے گولیوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے راہداری میں موجود دو آدمیوں کو ڈھیر کردیا۔وہ چیخیں مارتے ہوئے بری طرح سے تڑپتے ہوئے زمین پر گر گئے ۔اس دوران اس کے پیچھے سے حمیداور آگورا نے اس کی مخالف سمت راہداری میں اور روشن دان کی طرف اپنی اپنی مشین گنز کا رخ کرکے لاتعداد فائر کئے چھت کی طرف سے ایک انسانی چیخ بلند ہوئی اور پھر وہاں سے فائر ہونا بند ہوگئے ۔ اس کے ساتھ ہی وہ دونوں بھی اچھل کرراہداری میں آگئے۔اس عرصے میں سامبا راہداری کلیئر کرچکا تھا۔پھر حمید نے سامبا کو بلاکرانہیں مزیدکچھ سمجھا تو کچھ دیر بعد آگوراکی مدد سے سامبا کوکندھے پر بٹھاکر چوڑ ے روشن دان کے اندر داخل کردیاگیا۔سامبا روشن دان کے ذریعے چھت پر پہنچتے ہی غائب ہوگیا، پھروہ دونوں مخالف سمتوں میں روانہ ہوگئے ۔ حمید نے ان کو مکمل ہدایات دیکر اپنے سے الگ کیا تاکہ قلعے کا ہرطرف سے دفاع کیا جاسکے ۔پھر حمید بڑھتا ہوا ہوا راہداری کے اختتام پر پہنچا جہاں سے راہداری بائیں جانب مڑرہی تھی اس کے پاس پہنچتے ہی حمیدنے ہلکا سا جھانک کر دوسری طرف دیکھا تو اسے ایک اور راہداری نظر آئی جسکے اختتام پردور اس قلعے کا باغ آسمانی بجلی کی چمک سے نظر آیا۔مگر یہ ایک طویل راہداردی تھی جسکے دائیں بائیں بہت سے بغیر دروازوں والے کمرے تھے۔اچانک ان دروازوں سے دائیں بائیں دو آدمی نمودار ہوئے جنہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں دو دو پستول اٹھا ئے ہوئے تھے ۔ دونوں نے باہر نکلتے ہی حمید پر بے شمار فائرکردیئے،حمید پھرتی سے سائیڈ پر ہوا اور
گولیا ں اس کی پشت پر موجود دیوار میں جالگیں اور مسلسل لگتی رہیں ۔گولیوں کے بے شمار نشانات دیوار کے اوپرپڑنے لگے اور اس جگہ کا پلاسٹر اکھڑ اکھڑکر زمین پر گرنے لگا۔اب حالت یہ تھی حمید راہداری میں تھااور اس کے سامنے دوسری راہداری میں دو نامعلوم آدمی بے تحاشہ فائر کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ان آتشی شعلوں کے درمیان جانا اور ان سے کھیلناخطرے سے خالی نہیں تھا۔لہذا حمید سکون سے انہیں انکی گولیاں خالی کرنے کا موقعہ دینا چاہتا تھا۔پھر اچانک وہ لمحہ آیا جب دونوں کے پستول خالی ہوکر کٹک کٹک کرنے لگے ،پس حمید نے اسی لمحے سے فائدہ اٹھا کر اپنی مشین گن سے راہدادی میں کودتے ہی اندھادھن فائرنگ کردی تھی جس سے دونوں اپنے آپ کوفائرنگ کی زد میں آنے سے نہ بچا سکے اورچیخیں مارتے ہوئیں وہیں ڈھیڑ ہوگئے۔ایکدم سے راہداری میں خاموشی چھاگئی البتہ باہر فائرنگ ہورہی تھی۔وہ آرام آرام سے چلتا ہوا آگے بڑھنے لگااور پھر وہ ان دونوں کی لاشوں کے بالکل پاس آگیا۔اس نے ان کی جیبوں سے ایک ایک کر بہت سے میگزین نکال لئے اور ان کی پستولوں کو اپنے قبضے میں لیکرانہیں اپنی اندرونی جیبوں میں ٹھونس کر وہ آگے بڑھنے لگا۔قدم قدم پر تجسس بڑھتا جارہاتھا کہ اچانک کوئی کسی کمرے سے راہداری میں نمودار ہواور پھر وہ حملہ کردے ۔ اس نے آگے بڑھ کر ایک ایک کمرے کو دیکھنا شروع کردیا ،فی الحال تو اسے کوئی وہاں نہ ملا مگر یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ باغ کے پاس صحیح سلامت پہنچ جاتا۔ فریدی کے ساتھ رہ رہ کر وہ بھی کبھی خطرہ محسوس کرلیا کرتا تھا اور اب اسے اسی قسم کے خطرہ کا احساس ہورہا تھا۔اسے لگ رہا تھا کہ جیسے ابھی اچانک کچھ ہونے والا تھا، مگر کیا؟ اس کا تعین کرنا اس کے لئے مشکل تھا۔وقت کے کانٹے آگے بڑھتے جارہے تھے البتہ باہر دیکھ کر لگ رہاتھا کہ بارش اب مدہم ہوگئی تھی، اس کی اب وہ شدت نہیں رہی جو پہلے تھی۔لیکن ایسا کیا تھا جو رہ رہ کر اس کے دل میں کھٹک رہا تھا۔ اچانک ایک آدمی راہداری میں ایک کمرے سے نمودارہوا اور اس نے اس کے کچھ فاصلے پر ہی اپنی جیکٹ کھول کر پھاڑ دی ایک دم سے بھیانک شعلے حمید کی جانب لپکے اسے ایسا لگا جیسے اس کے کان سن ہوگئے ہوں ایک سیٹی کی آواز آئی اور سب کچھ اڑتا ہوا پھیلنے لگا ۔ وہ آدمی تنکوں کی بکھرتا ہوا فضامیں اڑا چلا جارہا تھا اور اس کے جسم سے بہنا والا خون اور جسم کے چیتھڑے سب دیواروں پر پھیل گئے ،مگر ایک عجیب خاموشی تھی جس نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔وہ ایک خاموش قیامت تھی جو حمید کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔۔شاید اس کا انجام اسکے قریب تھا۔
*********
فریدی جوں ہی باہر نکلا تو اسے اردگرد دیکھ کر اندازہ ہوا کہ وہ قلعے کی پچھلی سائیڈ پر ہے۔اس وقت صبح کے چھ کا عمل تھا اور دور دور تک واضح نظرآرہاتھا۔ گہرے بادل ساری رات برس کر تھک کر اب وقفہ کررہے تھے۔ تھوڑا دور نیچے جاکر ایک وسیع میدان تھا جہاں کیچڑ کے ساتھ ساتھ بلیک فورس کے آدمیوں کی بہت سی لاشیں پڑی ہوئیں تھیں اور شاید بہت سے زندہ بھی تھے۔قلعے کی پچھلی دیوار تعمیر ہی نہیں کی گئی تھی اسی طرف گہری ڈھلوان تھی جہاں بہت سی جھاڑیاں،درخت اور انکے نیچے ایک بہت بڑا گہرے نیلے رنگ کادریا بہتا تھا۔فریدی کے ہاتھ اب بھی کچھ نہیں تھاوہ اوپر نیچے ، غیرواضح راستوں پر چلتا ہوا نیچے کی جانب اترنے لگا۔وہ اس کے اپنے آدمی تھے اور اسے ان سے پیار تھا وہ اس کی خاطر ہر جہنم میں بغیر کوئی سوال کئے کود جاتے تھے ،آج انہیں فریدی کی ضرورت تھی اور وہ بہت بری حالت میں تھے۔ دوسری طرف اسے حمید کی فکر بھی ستائے جارہی تھی۔نہ جانے وہ کس حالت میں ہوگا؟اتنے دھماکوں کے بعد وہ زندہ بھی ہوگا کہ نہیں ؟کیا آج سب کھیل ختم ہونے والا تھا؟ کیاقاتل واقعی کامیاب ہوگیا اور اب یہ طوفان پورے ساگالینڈ کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔انہی باتوں میں کھویا وہ آگے بڑھتے گیلی زمین پر پھسلتے مگر اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے جب میدان میں آیاتو اس کے سامنے بلیک فورس کے جانبازوں کے کٹے ہوئے لاشے جگہ جگہ بکھرے ہوئے نظرآئے اور درمیان میں کسی جگہ آگ بھی لگی ہوئی تھی۔ فریدی ایک ایک کے پاس جاکر انکی حالت دیکھنے لگا،اسے ان کی حالت پر بہت ترس آیا۔ فریدی اوپر سے جنتا سخت تھا اندر سے اتنا ہی نرم دل واقع ہواتھا۔اس کا قلیجہ منہ کو آگیا ،انکو دیکھتے ہوئے وہ ڈھلوان کے بالکل قریب پہنچ کر دوسری طرف کا منظر دیکھنے لگا۔بہت نیچے گہرائی میں ایک خوب صورت دریا انتہائی روانی سے بہہ رہا تھا۔منظر دیکھ روح تازہ ہوجاتی تھی مگر پیچھے لاشوں کو دیکھ کراسے بہت برا محسوس ہورہاتھا اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھائی ہوئی تھی اور دل پارہ پارہ تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے دور کہیں سے بہت سے لوگ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ایک قافلے کی صورت میں اچانک نمودار ہوئے اور پھر وہ چلتے ہوئے فریدی کی طرف آنے لگے۔ کچھ دیر بعد وہ لوگ چلتے ہوئے اپنے نیچے موجود لاشوں کو روندھتے ہوئے فریدی کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے ۔ فریدی بالکل خاموش کھڑا تھا،شاید وہ حرکت کرنا بھول گیا تھا۔یا پھر زمین نے اس کے پیر جکڑ لئے تھے،وہ گہری ٹٹولتی ہوئی نظروں سے ان سب کودیکھنے لگا اور پھر کچھ دیر بعد وہ لوگ درمیان سے بٹ کر دوحصوں میں تقسیم ہوگئے ۔انکے پیچھے سے ایک سیاہ نقاب پوش نمودار
ہوا اور تیز تیز چلتا ہوا فریدی سے کچھ فاصلے پر آکر کھڑا ہوگیا۔کچھ دیر دونوں ایک دوسرے کو گہری نظروں سے دیکھتے رہے پھر ایک دم اس نے نہ جانے کون سا مخصوص اشارہ کیا تو ایک بہت بڑا جہنم کا دھماکاعین قلعے کی جگہ پر ہوا اور اس کیساتھ ہی قلعے کی مرکزی عمارت کوگہرے شعلے سیاہ دھویں میں لپٹے ہوئے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔قلعے کی عمارت تنکوں میں بکھرتے ہوئے جہنم کے شعلوں میںِ گھر گئی۔یہ منظر ابھی چل ہی رہا تھا کہ سیاہ نقاب پوش فریدی کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا۔
"مسٹر فریدی تمہارے آنے کی وجہ سے مجھے کھیل میں کچھ ترمیم کرنا پڑی۔۔۔۔۔۔ورنہ میرے لئے گذارہ کرنا مشکل ہوتاجارہاتھا۔۔۔۔۔۔مسٹر فریدی یوئر گیم از اوور ۔۔۔۔اوور اینڈ آؤٹ۔۔۔۔۔۔۔اب تمہیں جنت میں فرشتوں کے ساتھ جاکر ہی شانتی ملے گی۔۔۔۔۔۔۔"آن کی آن میں اس نے جیب سے پستول نکالی اور پھر اس نے ٹریگردبا کر فائر کردیا ۔۔۔۔وقت تھم گیا تھاگولی جو پلک جھپکنے میں انسان کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔۔۔ اس نے آج اپنی رفتا انتہائی سست کردی تھی۔۔۔۔۔گھڑی کے کانٹے اپنی اصلی چال بھول کر گولی کو پستول سے نکلتے ہوئے دیکھنے لگے۔۔۔۔آسمان بھی سکتے میں تھا بادل بھی خاموش اور پیچھے پس منظر میں شعلے بھی اپنی پھرتی اور تپش بھلاکرسست ہوگئے تھے۔۔۔۔لگتا تھا کہ جیسے گردونواح کی تمام چیزوں پر سحر طاری ہوگیا ہو اور وہ سب کی سب اس گولی کو تیر کی طرح فریدی کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔پھر وہ گولی اپنی رفتار میں ڈرامائی انداز میں اضافہ کرتی ہوئی حیرت انگیز طور پر فریدی کے ماتھے کو چھید کرتی ہوئی پار نکل گئی۔۔۔۔۔۔فریدی کے سر سے خون کا فوار انتہائی سست رفتا ر میں نکلا اور پھر وہ اچھل کر اڑتا ہوا بلندی سے نیچے کی جانب پوری رفتارسے جانے لگا اور پھر وہ ایک جھپاکے سے دریا میں گرکراسکی تہہ میں اترتاچلاگیا۔اس کے بعد پانی کی لہریں اچھل کر ادھر ادھرگریں اور دریاکی موجوں نے فریدی کو اپنے دامن میں سمیٹ کر دنیا ومافیا سے ہمیشہ کے لئے بیگانہ کردیا۔

*********
(جاری ہے)