خودداری




عائشہ عارف
کہا نااماں میں بھیک نہیں مانگوں گی۔ آپ نے ایک عرصہ اس سب میں گزار دیا، دو وقت کی روٹی ہی انسان نے کھانی ہے ناں، تو بہتر ہے عزت اور محنت سے کھائے۔ میں بار بار کہہ رہی ہوں میں بھیک نہیں مانگوں گی، نہیں مانگوں گی۔ ارے او جھلی تیرا تو دماغ چل گیا ہے۔ پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے کچھ بھی کرنا پڑتا ہے اور تو کیا سمجھتی ہے ہم نے محنت نہیں کی۔ ہر ایک کے سامنے جا کے ہاتھ پھیلانا، کہیں سے دھتکارے جانا تو کہیں سے چند سکے مل جانا، سارا دن مارے مارے پھرنا، پھر جا کے کہیں یہ چند روپے ہاتھ آتے ہیں اور بمشکل گزر بسر ہوتی ہے۔ پر اماں جتنا رزق اللہ نے لکھ دیا اتنا تو ملنا ہے۔ اب یہ تو انسان پر ہے کہ لکھے ہوئے رزق کو جائز طریقے سے حاصل کرے یا ناجائز طریقے سے لائے۔ یہ الفاظ کہتے ہوئے وہ چھوٹی سی لڑکی عجب انداز میں مسکرائی تھی۔ ارے کمبخت پھر تو بتا تو کرے گی کیا۔ میں بیمار نہ ہوتی تو کبھی تجھے نہ کہتی۔ پر تو ہے کہ مانتی ہی نہیں۔ اچھا چل بتا کیا کرے گی، بھیک نہیں مانگے گی تو؟ کیسے پیٹ بھرے گی اپنا اور ان چھوٹوں کا؟ اماں میں ’’حبیب اللہ‘‘ بنوں گی۔ وہ فخر سے مسکراتے ہوئے بولی۔ ہیں یہ کیا ہوتا ہے جھلی لڑکی؟ اماں نے حیرت سے اسے تکتے ہوئے کہا۔ اماں! ابا بھی تو ’’حبیب اللہ‘‘ تھے۔ اور ابا نے مجھے وصیت کی تھی کہ ’’الکاسب حبیب اللہ‘‘ کہ بیٹا جو بندہ رزق حلال کما کر کھاتا ہے وہ اللہ کا دوست ہوتا ہے۔ اب میں ’’حبیب اللہ‘‘ ضرور بنوں گی انشاء اللہ۔ اس چھوٹی سی لڑکی کا جوش بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ تیرا باپ تو سڑکوں پر بیٹھا جوتے پالش کرتا تھا اور تو ایسے فخر سے کہہ رہی ہے جیسے وہ کوئی بڑا افسر تھا۔ ارے میری بھولی اماں ہو سکتا ہے میرے باپ کا درجہ ان دنیاوی افسروں سے بھی اوپر کا ہو۔ اماں نے تمسخرانہ انداز میں قہقہہ لگایا۔ جوتے پالش کرنے والے کا درجہ افسروں سے بھی اوپر کا، پاگل! ہاں اماں کیونکہ میرا باپ کینسر کا مریض تھا لیکن پھر بھی جب تک اس کے جسم نے اس کا ساتھ دیا وہ سڑکوں پر جا کر جوتے پالش کرتا رہا، محنت کرتا رہا اور ہمیں خون پسینے سے کمایا ہوا رزق حلال کھلایا۔ ہمارے نبیﷺ جب صحابہ کرامؓ کے ساتھ کہیں جاتے تو فارغ نہیں بیٹھتے تھے، ساتھ مل کر کام کرتے، کبھی پیٹ پر پتھر باندھ کر خندقیں کھودتے تو کبھی کھانا پکانا ہوتا تو لکڑیاں چن کر لاتے۔ اماں، ابا بتاتے تھے کہ حضرت داودؑ اپنے ہاتھوں سے اپنی روزی کماتے تھے۔ اور پتا ہے اماں حضرت موسیؑ کی مزدوری تو اللہ کو اتنی پسند تھی کہ اللہ نے ان کی مزدوری کاذکر قرآن میں کر کے عزت بخشی اورہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ نے ان کا ذکر ان الفاظ میں کیا ’’حضرت موسیؑ نے آٹھ یا دس برس اس طرح مزدوری کی کہ اس دوران وہ خود بھی پاک دامن رہے اور اپنی مزدوری کو بھی پاک رکھا۔ (مشکوۃ) تو اماں مجھے بس ابا کا سامان دو جوتے پالش کرنے والا میں کل سے ابا کی جگہ پر جاکر ابا والا کام کروں گی۔ اماں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ٹھیک ہے جو مرضی کرو مگر جاتے ہوئے اپنے بہن بھائیوں کے چہرے دیکھتی جائو جو بھوک سے مرجھائے ہوئے ہیں۔ جی اماں آپ پریشان نہ ہو مجھے اللہ پر کامل یقین ہے وہ میری محنت کو ضائع نہیں کرے گا۔ اس نے اماں سے بال کنگھی کرائے، اپنی لال اوڑھنی اوڑھی اور چل پڑی۔ اس کے جاتے ہی ماں کا ضبط جواب دے گیا اور کتنی دیر کے روکے ہوئے آنسو بہہ نکلے تھے۔ وہ فوراً جائے نماز لے آئی اور رو رو کر دعا کرنے لگی کہ یارب میری بیٹی میری طرح ہمت و حوصلہ نہ ہار دے۔ اللہ تو تو جانتا ہے میں نے کس دل سے اسے بھیک مانگنے کا کہا۔ کس ماں کا دل کرتا ہے اس کی اولاد سڑکوں پر لوگوں کی پھٹکار سنے۔ اللہ یہی عزت کی، محنت کی روٹی تو میں نے بھی کمانا چاہی تھی پر تو جانتا ہے کچھ بھی حاصل نہ ہوتا تھا۔ اسے وہ دن یاد آیا جب وہ سارے دن کی تھکی ہاری اپنا سامان اٹھائے گھر کو واپس آ رہی تھی۔ شوہر کی وفات کے بعد چند دن تو لوگوں نے مدد کی لیکن کوئی کب تک کرتا ہے۔ آہستہ آہستہ سب رشتے داروں اور محلے داروں نے منہ موڑا۔ فاقوں کی نوبت آئی تو ماں شوہر کا سامان لیے سڑک پر جا بیٹھی مگر مسلسل تین دن سڑک پر گزار کر رات کو وہ ایک دن بھی بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا نہ کھلا سکی تھی۔ کچھ سرمایہ ہوتا تو وہ کوئی اور کام شروع کر لیتی مگر آخر جب اس نے دیکھا کہ سڑک پر مانگنے والوں کے ہاتھ نوٹوں سے تو کبھی سکوں سے بھرے ہوتے ہیں تو پانچویں ہی دن وہ بھی سڑک پر ہاتھ پھیلائے لوگوں سے مانگ رہی تھی۔ اسے بیٹی کی باتوں نے حوصلہ دیا تھا ہمت دی تھی کہ وہ بھی ٹھیک ہوتے ہی کہیں محنت کر کے عزت کی روزی تلاش کرے گی۔ پر ابھی وہ دعا کر رہی تھی، اللہ میری بیٹی کو مایوس نہ لوٹانا… اسے جو تجھ پر یقین ہے اسے اور پختہ اور کامل کر دینا۔ ٭…٭…٭