مصنف:- شاہد بھائی
1قسط نمبر-0
عرفان برادرز تحصیل روڈ صدر تھانے میں لگی ٹی وی سکرین کو غم و حیرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ دیکھ رہے تھے ۔فیصلہ ان کے والد کے حق میں تھا لیکن ان
کے چہرے مرجھا گئے تھے۔ دوسری طرف سب انسپکٹر بشیر رضا برے برے منہ بنا رہاتھا۔ آخر وہ چپ نہ رہ سکا:۔
اب تم میری طرف بھی متوجہ ہو جاؤ ۔۔۔کیا پوچھنا چاہتے ہو ‘‘ سب انسپکٹر بشیر رضا زبردستی مسکرایا۔
ایک چوری کی رپورٹ کے بارے میں ۔۔۔ کچھ دنوں پہلے سراج معین صاحب کی گاڑی چور ی ہوگئی تھی۔۔۔ انہوں نے گاڑی کی چوری کی رپورٹ بھی تھانے میں درج کروائی تھی ۔۔۔ اس چوری کی رپورٹ کا مکمل جائزہ لینا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بات بھی جاننا چاہتے ہیں کہ اس کیس کے سلسلے میں کیا اقدام اٹھائے گئے ‘‘ عرفان نے وضاحت کی۔
سراج معین صاحب کی گاڑی کی چوری کی رپورٹ! ۔۔۔ ہاں یاد آگیا۔۔۔ ہم نے کافی تلاش کرنے کے بعداس کیس کی فائل بند کر دی تھی اور سراج صاحب سے معذرت کر لی تھی۔۔۔ پھرا نہوں نے ایک نئی گاڑی خرید لی تھی‘‘ سب انسپکٹر نے چونک کر کہا۔
اور یہ کافی تلاش آپ نے کہاں کی۔۔۔میرا مطلب ہے ۔۔۔ اس چوری کے سلسلے میں آپ نے تلاش کہاں سے شروع کی اور کہاں ختم کی ‘‘سلطان نے طنزیہ انداز میں کہا۔
ہر جگہ کی تھی لڑکے ۔۔۔ آس پاس کا ہر علاقہ چھان مارا تھا ۔۔۔ لیکن گاڑی کہیں نہیں ملی تھی ۔۔۔سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی چور کی شکل نظر نہیں آئی تھی ‘‘ سب انسپکٹر بشیر روانگی کے عالم میں کہہ گیا۔
سی سی ٹی وی فوٹیج ۔۔۔ اوہ !۔۔۔ یعنی سراج صاحب کے گھر کے باہر کیمرہ لگا ہے ۔۔۔ پھر تو وہ فوٹیج ہم بھی دیکھنا چاہیں گے ‘‘ عرفان نے پر جوش عالم میں کہا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ شوکت ۔۔۔ ذرہ وہ سی ڈی لے آؤ جب میں سراج صاحب کے گھر کی باہر کی فوٹیج ہے ‘‘ سب انسپکٹر نے کانسٹبل کو پکارا۔ دوسرے ہی لمحے وہ سی ڈی ان کے سامنے آگئی۔ سب انسپکٹر نے لیپ ٹوپ پر سی ڈی لگائی اور سکرین آن کی ۔ اگلے ہی پل وہ سب چونک کر سکرین پر لگی فوٹیج دیکھ رہے تھے۔رات کے اندھیرے میں سراج معین صاحب کی گاڑی گھر کے باہرصحن میں کھڑی تھی۔ تبھی ایک شخص گھر کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوا۔اندر داخل ہونے کے بعد صدر دروازے کی کنڈی کھولی۔ گاڑی کے پاس آیا۔ اپنی جیب سے ماسٹر چابی نکالی اور گاڑی کا لاک کھول کر اندر سوار ہوگیا۔پھر اس نے دوبارہ ماسٹر کی سے گاڑی کو سٹارٹ کیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ گاڑی لے کر گھر سے باہر نکلتا چلا گیا۔ دروازہ اس نے بند کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ مکمل فوٹیج دیکھ کر وہ حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے:۔
کمال ہے ۔۔۔ سراج صاحب رئیس و امیر انسان ہونے کے باوجود اس قدر کنجوس ہیں کہ گھر کے دروازے پر کوئی سیکورٹی گارڈ نہیں رکھا‘‘ عدنان نے حیران ہو کر کہا۔
اس کی وجہ انہیں نے اِف آئی ار میں درج کرا دی تھی ۔۔۔ اُس دن اُن کا سیکورٹی گارڈ بیمار تھا اس لئے کام پر نہیں آیا تھا‘‘ سب انسپکٹر بشیر رضا منہ بنا کر بولا۔
خیر۔۔۔ گاڑی کے ٹائر کے نشان کے ذریعے آپ نے تفتیش کی ۔۔۔یعنی یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ گھر سے ٹائر کے نشان کہاں تک جاتے ہیں‘‘ عرفان نے سوال کیا۔
ہاں ۔۔۔ یہ کام بھی کیا گیاتھا ۔۔۔ ٹائر کے نشان سراج صاحب کے گھر سے ایک بند فیکٹری تک جاتے ہیں ۔۔۔ اس کے بعد غائب ہوجاتے ہیں ‘‘ سب انسپکٹر نے اکتا کر کہا۔
اور وہ بند فیکٹری کون سی ہے ۔۔۔ کس کی ہے ‘‘ عدنان نے پرجوش لہجے میں جلدی سے پوچھا۔
بند فیکٹری یہاں کے ایم این اے سلطان کے نام پر رجسٹرڈ ہے ۔۔۔ آج کل وہاں پر کام بند کر دیا گیا ہے ‘‘ سب انسپکٹر نے پرسکون لہجے میں جواب دیا۔
لوبھئی ۔۔۔ سلطان ۔۔۔ اب تم بھی اس کیس میں پھنس جاؤ گے ‘‘ عمران نے سلطان کی طرف مسکرا کر دیکھا۔
ارے باپ رے ۔۔۔ میری ایک فیکٹری بھی ہے۔۔۔اور میں یہاں کا ایم این اے بھی ہوں۔۔۔پھر تو میں واقعی پھنس جاؤں گا ‘‘ سلطان نے مصنوعی گھبراہٹ ظاہر کی جس پر عرفان اور عدنان اسے کھاجانے والے انداز میں دیکھنے لگے۔
بہرحال کچھ بھی ہو ۔۔۔ ہم اس فیکٹری میں جائے بغیر نہیں رہ سکتے۔۔۔ اب ہمیں تفتیش کا اگلا قدم وہاں پہنچ کر ہی طے کرنا ہے ‘‘ عرفان نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
لیکن میں یہ قدم تم لوگوں کے ساتھ طے کرنے کو تیار نہیں ہوں ۔۔۔ تم لوگ اکیلے ہی جاؤ گے کیونکہ میں اس کیس کی فائل بند کر چکا ہوں۔۔۔اور ویسے بھی علاقے کے ایم این اے کے خلاف میں کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا ‘‘ سب انسپکٹر نے صاف لہجے میں کہا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ آپ نے ہماری اتنی مدد کی یہی کافی ہے ۔۔۔ اب ہم چلتے ہیں ۔۔۔ اگر ضرورت بھی پڑی تو آپ کو فون نہیں کریں گے ‘‘ عمران نے مسکرا کر کہا اور پھر وہ سب اٹھ کھڑے ہوئے ۔ سب انسپکٹر اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں اور اپنی توجہ چائے اور سموسے پر ہی رکھی۔ وہ سب تھانے سے باہر نکل آئے۔باہر نکل کر انہوں نے ٹیکسی کے لئے نظریں دوڑائیں ۔ آخر انہیں ایک ٹیکسی نظر آگئی۔ دوسرے ہی لمحے انہوں نے ٹیکسی ڈرائیور کو ایم این اے سلطان کی فیکٹری کانام بتایا۔ وہ فوراً پتاسمجھ گیا اور ٹیکسی پوری رفتار سے چھوڑ دی۔ان سب کے دل دھک دھک کر رہے تھے ۔ اب وہ اپنی منزل کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔نہ جانے اُنہیں کیوں محسوس ہو رہا تھا کہ اب اُنہیں تفتیش کے لئے آگے کہیں نہیں جانا بلکہ یہاں پر ہی اُنہیں سادیہ مل جائے گی۔ آخر وہ بند فیکٹری کے پاس پہنچ گئے ۔ نیچے اتر کر انہوں نے ٹیکسی ڈرائیور کو کرایہ ادا کیا او ر پھر فیکٹری کے دروازے کی طرف بڑھے۔ یہاں ایک بڑا سا تالا لگا ہوا تھا۔ انہوں نے الجھن کے عالم میں تالے کی طرف دیکھا اور پھر آنکھوں کے اشارے سے پوری فیکٹری کے اردگرد کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ وہ سب فیکٹری کے صدر درواز ے سے ہٹ کر پیچھے کی طرف آئے ۔ دوسرے ہی لمحے وہ چونک اُٹھے ۔ پیچھے ایک چھوٹا سا دروازہ نظر آرہا تھاجس پر تالا نہیں لگا ہوا تھا۔ وہ سب جوش کے عالم میں دروازے کی طرف بڑھے اور دباؤ ڈالا لیکن دروازہ اپنی جگہ سے ٹھس سے مس نہ ہوا۔ وہ سمجھ گئے کہ فیکٹری بند نہیں ہے بلکہ صرف صدر دروازے کو تالا لگا کر یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ فیکٹری بند ہے ۔ یہ بات ذہن میں آتے ہی انہیں اپنی بہن کی یاد ستانے لگی۔ سادیہ کا چہرہ ان کی آنکھوں میں گھوم گیا۔آج تین دن ہوگئے تھے لیکن وہ اپنی بہن کو دیکھ نہیں سکے تھے ۔ نہ جانے وہ کس حال میں تھی؟ یہ سب ذہن میں آنے کی دیر تھی کہ انہیں نے اپنے ہوش و حواس کوپرے دھکیلااور پوری قوت سے دروازہ پیٹ ڈالا۔ کافی دیر تک وہ دروازہ بجاتے رہے لیکن کسی نے دروازہ نہ کھولا۔ آخر انہو ں نے دروازہ توڑنے کا فیصلہ کرلیا۔چاروں پہلے پیچھے ہٹے اور پھر پوری قوت سے دروازے سے ٹکرائے۔ دروازہ اوندھے منہ پیچھے گرا۔دوسرے ہی لمحے وہ فیکٹری کے اندر داخل ہوچکے تھے لیکن ابھی وہ سنبھل بھی نہ سکے تھے کہ ان کے سروں کے اوپر پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ انہیں ایسا لگا جیسے کسی نے ان کے سر وں پر کوئی بہت ہی وزنی چیز پھینک ماری ہو۔ وہ کٹے ہوئے تنے کی مانند زمین پر گرے اور پھر انہوں نے بے ہوش ہوتے ہوئے کسی کی چہکتی ہوئی آواز سنی :۔
یہ لوگ آئے تھے پیروں پر لیکن یہاں سے جائیں گے دوسروں کے کندھوں پر ‘‘ایک بھاری سی آواز سنائی دی۔ اس آواز کے ساتھ ہی وہ تاریکی میں ڈوب گئے اور انہوں نے بے ہوشی کی وادی میں قدم رکھ دیا۔
٭٭٭٭٭
سب سے پہلے سلطان کو ہوش آیا۔ ہوش میں آتے ہی اس نے آس پاس نظریں دوڑائیں۔ دوسرے ہی لمحے وہ چونک اُٹھا۔ اس کے سامنے اس کے بھائی رسیوں کے ذریعے الٹے لٹکے ہوئے تھے ۔اس نے اپنا جائزہ لیا۔ اس کے پاؤں بھی رسی کے سرے سے باندھے ہوئے تھے اور رسی چھت کے اوپر لوہے کے ڈنڈے کے گرد لپٹی ہوئی تھی۔ وہ خود بھی رسی کے سہارے الٹا لٹکا ہوا تھا۔ اس حال میں وہ خود کو نہایت تکلیف میں محسوس کر رہا تھا۔اِدھر اُدھر نظر یں دوڑانے پر اسے کچھ مٹی سے بھری ہوئی بوریاں نظر آئیں جن میں کچھ پتھر بھی شامل کئے گئے تھے۔ وہ سمجھ گیا کہ وہ اس وقت اسی بند فیکٹری میں ہے جہاں وہ تفتیش کرتے ہوئے پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ اس نے فوراً اپنے بھائیوں کو پکارا۔ آخر ایک ایک کر کے عرفان عدنان اور عمران نے بھی آنکھیں کھول دیں۔ آس پاس کاجائزہ لینے کے بعد وہ بھی باتیں کرنے کے قابل ہوگئے:۔
اس کا مطلب ہے ہم صحیح جگہ پہنچ گئے ہیں ۔۔۔ ہماری بہن کو بھی یہاں پر ہی اغوا کرکے رکھا گیا ہوگا ‘‘عرفا ن نے پریقین لہجے میں کہا۔
ہاں ۔۔۔ بالکل درست اندازہ لگایا ۔۔۔ تمہاری بہن کو جلد تمہارے سامنے لایا جارہا ہے ‘‘ بند فیکٹر ی میں آواز گونج اُٹھی۔ آواز سن کر وہ بری طرح چونک اُٹھے۔اِدھر اُدھر دیکھا لیکن کوئی بھی نظر نہ آیا۔ آواز ایک بار پھر سنائی دینے لگی:۔
چونکنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ تمہارے والد سے بھی ہم اسی طرح بات چیت کر چکے ہیں ‘‘ آواز مسکراتی ہوئی معلوم ہوئی۔
کیا مطلب !۔۔۔ ہمارے والد سے تم نے کب بات کی‘‘ عرفان حیرت انگیز لہجے میں بولا۔
تین دن پہلے جب تمہاری بہن کو اغوا کیا گیا تو ساتھ میں تمہارے والد ایل ایل بی شہباز کو بھی اغوا کیا گیا تھا۔۔۔ انہیں اس شرط پر چھوڑا گیا کہ وہ ہمارے لئے کیس لڑیں گے اور منظور کو رہا کرائیں گے ‘‘ اس آواز نے وضاحت کی۔
اوہ!۔۔۔ اس کا مطلب ہے اباجان اس لئے ہمیں جھوٹی گواہی دینے پر مجبور کر رہے تھے اور خود بھی جھوٹ کا ساتھ دے رہے تھے ۔۔۔ اب میں سمجھا ۔۔۔ مطلب ہمار ا شک بالکل ٹھیک تھا۔۔۔ سادیہ کا اغوا جیسوال بم دھماکہ کیس سے جڑا ہوا تھا‘‘ عرفان نے کھوئے کھوئے اندازمیں کہا۔
اب سمجھنے سمجھانے کا کام چھوڑولڑکے ۔۔۔ اور اپنی بہن سے ملاقات کرو‘‘ اس آواز کے ساتھ ہی سادیہ ایک کونے سے باہر نکلتی نظر آئی۔ اسے دیکھ کر وہ دھک سے رہ گئے ۔ وہ بے حدکمزور نظر آرہی تھی جیسے اسے پچھلے تین دن سے بھوکا رکھا گیاہو۔ اس کے ہاتھوں پر رسی کے سرخ نشان بھی نظر آرہے تھے۔ وہ کمزوری کے عالم میں چلتی ہوئی اداس چہرے سے اپنے بھائیوں کے پاس چلی آئی۔ اسے دیکھ کر ان سب کا خون کھول اُٹھا۔
ہماری بہن کی تم نے یہ کیا حالت بنا دی۔۔۔ اب ہم تمہیں چھوڑیں گے نہیں ‘‘ سلطان اور عرفان ایک ساتھ گرج کر بولے۔دوسری طرف سے قہقہہ کی آواز سنائی دینے لگی۔ وہ حیران ہو کر قہقہے سنتے رہے اور پھر ان سب کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔ایک کالے نقاب میں ملبوس شخص دو کلاشن کوف والوں کے ساتھ باہر نکلتا نظر آیا۔ اس کی آنکھوں میں درندگی اور سفاکی صاف نظر آرہی تھی۔
مجھے چھوڑنے کی بات تو بعد میں کرنا ۔۔۔ پہلے تم سب دنیا چھوڑنے کی تیاری کرو‘‘ نقاب پوش غرایا۔دوسرے ہی لمحے اس نے کلاشن کوف بردراز کو اشارہ کیا۔کلاشن کوف ان کی طرف اُٹھ گئیں لیکن تبھی سادیہ کلاشن کوف کے سامنے آگئی۔
میرے بھائیوں کو مارنے سے پہلے مجھے مارو ‘‘ سادیہ جذباتی انداز میں بولی۔
سامنے سے ہٹ جاؤ سادیہ۔۔۔ یہ جذبات میں بہنے کا وقت نہیں ‘‘ عرفان نے سخت لہجے میں کہا لیکن سادیہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔اس کی آنکھوں میں اپنے بھائیوں کے لئے موت سے لڑ جانے کا جذبہ نظر آرہا تھا۔ دوسری طرف اس کے بھائی اس کی زندگی کے لئے بے چین ہوگئے تھے۔تبھی!!!۔۔۔ نقاب پوش بے رحمی سے آگے بڑھا اور سادیہ کو پوری قو ت سے دھکا دیا۔ وہ ایک سیمنٹ کی بوری کے ساتھ جا ٹکرائی ۔ایک کراہ اس کے منہ سے نکلی۔ساتھ ہی اس کے ماتھے سے خون رسنے لگا۔ دوسرے ہی لمحے وہ گنودگی کے عالم میں چلے گئی اور اس نے بے ہوشی کی وادی میں قدم رکھ دیا ۔ اب نقاب پوش کے اشارے پر کلاشن کوف بردارز نے کلاشن کوف کی نال عرفان اور سلطان کی طرف کر دی ۔یہ دیکھ کر بھی ان کی آنکھوں میں موت کا خوف نظر نہیں آرہا تھا بلکہ سلطان کی آنکھوں میں اب بھی شرارت ہی شرارت تھی۔ اس کی لئے موت ایک مذاق سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ دوسری طرف عرفان بھی مضبوط انداز میں کلاشن کوف بردراز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر موت کا سامنے کرنے کو تیار تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہیں نے کلمہ طیبہ کا ورد بھی شروع کر دیا۔ اور پھر !!!۔۔۔ ایک زبردست فائر کی آواز فیکٹری میں گونج اُٹھی۔دوسرے ہی لمحے دل دوز چیخ نے فضا کے رونگٹے کھڑے کر دئیے۔
٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭
Bookmarks