SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 7 of 7

    Thread: Jurm Ki Kahani - Suspense Full Novel - Written By Shahid Bhai

    Threaded View

    1. #1
      New Member Shahid Bhai's Avatar
      Join Date
      Apr 2017
      Posts
      19
      Threads
      3
      Thanks
      2
      Thanked 10 Times in 8 Posts
      Mentioned
      1 Post(s)
      Tagged
      0 Thread(s)
      Rep Power
      0

      Jurm Ki Kahani - Suspense Full Novel - Written By Shahid Bhai



      جرم کی کہانی
      تحریر :۔ شاہد بھائی
      قسط نمبر-1

      آئی سی یو میں آخری سانسیں لیتا ہوا یہ شخص اپنی زندگی کی بازی ہار رہا تھا۔ موت اْسے کسی وقت بھی اپنی آغوش میں لے سکتی تھی۔ دوسری طرف باہر ہال میں کھڑا اْس کا بیٹا مجید اپنے باپ کو بے قراری کے عالم میں آئی سی یو کے دروازے کی جھری سے دیکھ رہا تھا۔ اْس کے والد اشفاق احمد کسی وقت بھی موت کو گلے لگا سکتے تھے۔مجید کا چھوٹا بیٹا ارسلان بھی ہسپتال میں آنا چاہتا تھا تاکہ اپنے دادا ابو کو دلاسہ دے سکے لیکن مجید نے اْسے پیار سے سمجھایا کہ بچوں کا ہسپتال میں داخلہ ممنوع ہے۔آپ کے دادا ابو جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔ اپنے پانچ سال کے بیٹے کو تواْس نے سمجھا دیا تھا لیکن خود کو وہ کسی طرح سمجھا نہیں پا رہا تھا۔ باپ کی سائے سے وہ محروم ہونے کے قریب تھا۔ کل صبح اشفاق احمد کی اچانک حالت بگڑی تھی اور اْنہیں پھر ایمبولنس میں ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ اْس وقت سے اب تک اشفاق احمد کی حالت میں کوئی بہتری نہیں تھی۔ آج اْنہیں آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ڈاکٹروں کی ایک ٹیم مستقل طور پر اْن کا معائنہ کر رہی تھی۔ اِ س وقت سورج غروب ہو رہا تھا اور شاید مجید کے والد اور ننھے ارسلان کے دادا ابو کی زندگی کا سورج بھی غروب ہونے کے قریب تھا۔ مجید بے تابانہ نظروں سے آئی سی یو کی جھری سے اندر جھانک رہا تھا۔ تبھی ایک ڈاکٹر بجھے بجھے انداز میں باہر نکلا۔
      آپ کے والد اشفاق احمد کا کنسر آخری سطح پر پہنچ چکا ہے ……اب اْن کا بچنا بہت مشکل ہے …… ہمیں فوراََ اْپریشن کرنا ہوگاجس کے لیے تقریباََ پچیس لاکھ روپے کی ضرورت ہے …… آخری سطح کے کنسر کا علاج کچھ دنوں پہلے امریکہ کے ماہر ڈاکٹر نے دریافت کر لیا تھااور یہ حیرت انگیز ایجاد ابھی کچھ دنوں پہلے ہی ہمارے ملک میں آئی ہے ……اِس حیرت انگیز ایجاد کے ذریعے اگر علا ج کیا جائے تو پچاس فیصدبچنے کی اْمید کی جا سکتی ہے …… یہ ٹیکنالوجی ابھی نئی ہے اِس لیے کافی مہنگی ہے …… آپ کو ہم سالوں سے جانتے ہیں اِس لئے صرف پچیس لاکھ روپے میں یہ علاج شروع کر سکتے ہیں ……آپ آج رات تک یہ پیسے جمع کرا دیں تاکہ آج رات ہی آپ کے والد کا اْپریشن ہو سکے بصورت دیگر اْن کی زندگی ختم ہو جائے گی ۔ڈاکٹر کے یہ الفاظ مجید پر پہا ڑ بن کر ٹوٹ رہے تھے۔ ایک ملازم پیشہ شخص کے لیے پچیس لاکھ روپے کا بندوبست کرنا آسان کام نہیں تھاوہ بھی آج رات تک۔ اب مجید کا چہرہ سفید پڑتا جارہا تھا۔ ڈاکٹر سے بنا کچھ کہے وہ ہسپتال سے باہر نکل آیا اور ایک سڑک پر پید ل چلنے لگا۔ بار بار پیسوں کا خیال اْس کے دل میں آنے لگا۔ وہ کھوئے کھوئے انداز میں سڑک پر چل رہا تھا۔ تبھی ایک شخص پوری قوت سے اْس سے ٹکرایا۔دونوں دھڑام سے نیچے گرئے اور پھر ٹکرانے والاشخص بوکھلا کر کھڑا ہوگیا۔
      مجھے معاف کیجئے …… شاید میرا دھیان کئی اور تھا ۔مجید سے ٹکرانے والا شخص شرمندگی سے بولا۔
      کوئی بات نہیں ۔مجید نے جلدی سے کہا اور آگے بڑھ گیا۔ مجید سے ٹکرانے والا شخص بھی دوسری طرف چل پڑا۔ مجید پندرہ منٹ تک کھویا کھویا سا سڑک پر مٹر گشتی کرتا رہا۔ آخر اْس نے ایک رکشہ پکڑا اور اپنے گھر کا پتا بتایا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنے گھر میں داخل ہورہا تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی مجید کا پانچ سال کا بیٹا ارسلان اْس سے آکر لپٹ گیا۔
      ابو …… دادا ابوکو ساتھ نہیں لائے ۔ارسلان نے معصومیت سے کہا جس پر مجید کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
      نہیں بیٹا…… وہ جلد آجائیں گے ۔مجید نے جلدی سے کہا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی اْسے اپنے باپ کا چہرہ دکھائی دینے لگاجو آئی سی یو میں آخری سانسیں لے رہا تھا۔ دوسری طرف اْس کا پانچ سال کا بیٹا ارسلان بے تابی سے اپنے دادا ابو کا انتظا رکر رہا تھا۔ اِن حالات میں مجید کو اپنی جیب کچھ بھاری محسوس ہوئی۔ اْس نے بوکھلا کر اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ جب ہاتھ جیب سے باہر نکلا تو اْس میں ایک کاغذ دکھائی دے رہا تھا۔ مجید نے بے قراری سے کاغذ کی تہ کھولی اور کاغذپر لکھی تحریرپڑھنے لگا۔ کا غذ پر لکھا تھا:۔
      میں وہی ہو جو تم سے آج شام کو ٹکرایا تھا۔میں جانتا ہوں تمہیں اپنے باپ کی زندگی بچانے کے لئے پچیس لاکھ روپے کی ضرورت ہے۔ میں تمہیں یہ پیسے دینے کو تیار ہوں اگر تم میرا ایک کام کر دو۔نیچے میرا فون نمبر لکھا ہے۔اگر اپنے باپ کی زندگی بچانا چاہتے ہو اور مجھ سے پچیس لاکھ روپے لینا چاہتے ہو تو مجھے فوراََ فون کرو۔
      فون نمبر:۔۹۸۹۱۴۵
      تمہارا ہمدرد۔
      تحریر پڑھ کر مجید سوچ میں پڑ گیا۔ اْس کے آنکھوں کے سامنے کبھی اپنے ننھے بیٹے کا چہرہ تو کبھی اپنے بیمار باپ کا چہرہ گھومنے لگا۔ پھر اْس کے دماغ میں ننھے ارسلان کے الفاظ گونجنے لگے۔
      ابو…… دادا ابو کو ساتھ نہیں لائے ۔ مجید کے ذہن میں بجلی سے کوندی۔ دوسرے ہی لمحے اْس کا ہاتھ فون کی طرف بڑھ گیا۔

      ٭٭٭٭٭
      باقی آئندہ
      ٭٭٭٭٭


      Last edited by Shahid Bhai; 07-23-2018 at 04:06 PM.

    2. The Following User Says Thank You to Shahid Bhai For This Useful Post:

      Jelly Bean (08-04-2018)

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •