جرم کی کہانی
از شاہد بھائی
قسط نمبر - 4
ایل ایل بی شہباز احمد حیران و پریشان بیٹھے اس عورت کو دیکھ رہے تھے جو ابھی کچھ دیر پہلے اْن کے گھر میں داخل ہوئی تھی اور پھر فوراََ ہی اْس نے اپنے شوہر کا کیس لڑنے کی درخواست رکھ دی تھی۔ سیٹھ افتخار عالم کے قتل کی خبر وہ نیوز چینل میں سن چکے تھے اور نیوز چینلز میں بتایا جا رہا تھا کہ قاتل مجید رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے اور گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اب اُسی مجید کی بیوی اْن کے سامنے اپنے شوہر کے لئے کیس لڑنے کی فریاد کر رہی تھی۔ ایل ایل بی شہبا ز احمد نے کچھ سوچ کر سادیہ کو اشارہ کیا اور وہ مجید کی بیوی کو ڈرائنگ روم میں لے گئی ۔ ایل ایل بی شہباز احمد نے بیگم کو اشارہ کیا اوروہ مہمان کے لئے چائے بنانے باورچی خانے میں چلی گئیں ۔ اب ایل ایل بی شہباز احمد نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور ڈرائنگ روم کا رخ کیا۔ اْن کے پیچھے وہ چاروں بھی ڈرائنگ روم کی طرف بڑھے ۔ جب وہ ڈرائنگ روم میں پہنچے تو سادیہ نے بیگم مجید کو باتوں لگا رکھا تھا۔ آخر صوفوں پر اطمینان سے بیٹھ کر وہ بیگم مجید سے مخاطب ہوئے۔
اب بولئے ۔۔۔ آپ کیا چاہتی ہے ۔۔۔ بلکہ سب سے پہلے اپنا نام بتائیں ۔ ایل ایل بی شہباز احمد نے کہا۔
میرا نام ریشم ممتاز ہے ۔۔۔ میں مجید کی بیوی ہوں ۔۔۔ وہی مجید جسے قاتل سمجھ کر سب انسپکٹر تنویر نے گرفتار کر لیا ہے لیکن یہ بات صرف میں جانتی ہوں کہ میرے شوہر کسی کو قتل نہیں کر سکتے ۔۔۔ وہ توایک مچھر کو مارنے سے بھی ڈرتے ہیں ۔۔۔ پھر وہ کسی انسان کا خون کیسے کر سکتے ہیں ۔۔۔ پولیس نے اْنہیں حوالات میں بند کر رکھا ہے ۔۔۔ دو دن بعد اُن کی عدالت میں پیشی ہے ۔۔۔ دوسری طرف اْن کے والد اشفاق احمد ہسپتال میں زندگی اورموت کے درمیان لڑ رہے ہیں ۔۔۔ وہ تو اُن کے اُپریشن کے لئے پیسے جمع کرنے نکلے تھے ۔۔۔ میں جانتی ہوں یہ اْن کے خلاف سازش کی گئی ہے ۔ ریشم ممتاز ایک ہی سانس میں کہتی چلی گئی۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ میں سب سے پہلے مجید کے والد صاحب کے لئے کچھ کرتا ہوں ۔۔۔ تاکہ اُن کا اُپریشن شروع ہو سکے ۔۔۔ پھر میں مجید سے ملوں گا اور یہ فیصلہ کر کے ہی اُس کا کیس لوں گا کہ وہ بے گناہ ہے یا نہیں ۔ ایل ایل بی شہباز احمد نے کچھ سوچ کر کہا۔
اچھی بات ہے ۔۔۔ آپ میرے ساتھ ہسپتال چلیں ۔۔۔ پھر تھانے میں چلئے جہاں مجید کو حوالات میں بند کر رکھا ہے ۔ ریشم ممتاز اْٹھتے ہوئے بولی۔
میرا خیال ہے آپ اپنے گھر جائیے اور یہ سب کچھ مجھ پر چھوڑ دیجئے ۔۔۔ سب انسپکٹر تنویر کو میں جانتا ہوں ۔۔۔ وہ میرا دوست بھی ہے ۔۔۔ بس آپ مجھے اُس ہسپتال کا پتا بتا دیجئے جس میں مجید کے والد صاحب ایڈمٹ ہیں ۔ ایل ایل بی شہباز احمد مسکرا کر بولے۔ ریشم ممتاز نے ہسپتال کا پتا بتا دیا ۔ اتنے میں بیگم شہباز چائے کا کپ لئے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں اور پھر ریشم ممتازکو چائے پیش کی گئی۔ ایل ایل بی شہباز احمد نے اب وہاں رکنا مناسب نہ سمجھا اور گھر سے باہر دروازے کا رخ کیا۔ پانچوں بچے بھی اْن کے پیچھے باہر نکلے۔
بھئی ۔۔۔ میرا خیال ہے تمہیں ابھی میرے ساتھ چلنے کی ضرورت نہیں ۔ شہباز احمد نے مسکرا کر کہا۔
ضرورت ایجاد کی ماں ہے اباجان ۔۔۔ اوراِس وقت ہماری ماں جیسی انٹی ریشم ممتاز پریشان ہیں تو ہم آپ کے ساتھ اْن کی پریشانی دور کرنے کیوں نہ چلیں ۔ سلطان شوخ لہجے میں بولا۔
اِس بات میں یہ محاورہ کہاں سے ٹپک پڑا ۔ عرفان حیران ہو کر بولا۔
میری زبان سے ۔ سلطان مسکرا یاجس پر عرفان برے برے منہ بنانے لگا۔ آخر وہ سب ہسپتال کی طرف روانہ ہوگئے۔ ہسپتال پہنچ کر ایل ایل شہباز احمد فوراََ ڈاکٹروں سے ملے اور مجید کے والد اشفاق احمد کا اپریشن شروع کروا دیا۔ پچیس لاکھ روپے اْنہیں نے بعد میں ادا کرنے کا کہہ دیا تھا۔ ویسے بھی ڈاکٹر اُن کا گہرا دوست تھا او ر ایک بار انسانی عضا چوری کرنے کے کیس سے اُسے ایل ایل بی شہباز احمد نے بچایا تھا ۔ اُس دن سے ڈاکٹر ایل ایل بی شہباز احمد کا گہرا دوست بن گیا تھا۔ آج وہی دوستی مجید کے والد کے کام آرہی تھی۔اُپریشن شروع کر وا کر ایل ایل بی شہباز اور اُن کے بچے ہسپتال سے باہر نکل آئے۔اب اُن کا رخ تھانے کی طرف تھا۔ سب انسپکٹر تنویر بھی ایل ایل بی شہباز احمد کا دوست تھا۔ کیس کے سلسلے میں اُن کی ملاقات اکثر ہوتی رہتی ہے ۔ سب انسپکٹر تنویر نے شہباز احمد اور اُن کے بچوں کو دیکھا تو چونک اْٹھا اور پھر اُس کا چہرہ خوشی سے کھل اْٹھا۔
رات کے اِس وقت میرے پاس۔۔۔ آج یہاں کا راستہ کیسے یاد آگیا ۔ سب انسپکٹر تنویر خوش ہو کر بولا۔
بس تنویر صاحب ۔۔۔ ایک کیس کے سلسلے میں آیا ہوں ۔۔۔ آپ تو جانتے ہی ہیں یہی پیشہ اب میرا فرض بن چکاہے ۔۔۔ سیٹھ افتخار عالم کے قتل کیس میں آپ نے جس مجید کو گرفتار کیا ہے میں اُس سے ملنا چاہتا ہوں ۔۔۔ اُس سے ملنے کے بعد یہ فیصلہ کرؤں گا کہ اُس کا کیس لوں یا نہیں ۔ شہباز احمد بولتے چلے گئے۔
میر ا مشورہ مانیں یہ کیس ہرگز نہ لیں ۔۔۔ مجید کو میں نے خود رنگے ہاتھوں گرفتار کیا ہے ۔۔۔ سیٹھ افتخار عالم کی بیوی اُن کے بچے اُن کا نوکر اور اُن کے بھائی جمیل نے بھی مجید کو رنگے ہاتھوں پکڑا ہے ۔۔۔ اب اِس کیس میں کچھ اورکہنے سننے کے لئے نہیں بچا ۔ سب انسپکٹر تنویر نے مشورہ دیا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ آپ کی بات بھی درست ہے لیکن میرا خیال ہے ایک بار مجید سے مل لینے میں کوئی برائی نہیں ۔ شہباز احمد بولے اور حوالات کا رخ کیا۔ اْن کے ساتھ بچوں نے بھی حوالات کا راستہ طے کرنے کی ٹھانی۔حوالات میں اْنہیں مجید بے بسی کے عالم میں گھٹنوں میں سر رکھ کربیٹھا نظر آیا۔
میں ایل ایل بی شہباز احمد ہوں ۔۔۔ تم سے ملنا آیا ہوں ۔ شہباز احمد جلدی سے بولے۔ اُن کی آواز سن کر مجید چونک اْٹھا اور حیران ہو کر اُنہیں اور اُن کے بچوں کو دیکھنے لگا۔
میری بیوی نے آپ کو بھیجا ہے ۔ مجید نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔
جی ہاں ۔۔۔ تم بے فکر رہو ۔۔۔ اگرتم بے گناہ ہو تو تمہیں اِس ملک کی کیا دنیا کی کوئی بھی عدالت سزا نہیں سنا سکتی ۔۔۔ تمہیں اپنے والد کے حوالے سے بھی فکر کر نے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ اُن کا اُپریشن میں نے شروع کروا دیا ہے ۔ شہباز احمد روانگی کے عالم میں بولے۔
آپ کا بہت بہت شکریہ ۔۔۔ میں بالکل بے قصور ہوں ۔۔۔ میں نے کسی کا قتل نہیں کیا ۔۔۔ میں آپ کو شروع سے ساری بات بتاتا ہوں ۔۔۔ آج میرے والد کا اُپریشن تھا اور اُپریشن کے لئے مجھے پچیس لاکھ روپے کی ضرورت تھی ۔۔۔ میں ایک نوکری پیشہ آدمی ہوں ۔۔۔ اتنے سارے پیسے کہاں سے لاتا ۔۔۔ میں سڑکوں پر آوارہ پھرتا رہا ۔۔۔تبھی کوئی شخص مجھ سے ٹکرا کر آگے نکل گیا ۔۔۔ میں نے اُس وقت کوئی توجہ نہ دی ۔۔۔ جب میں گھر آیا تو میں نے اپنی جیب میں ایک لفافہ دیکھا ۔۔۔اُس میں ایک شخص کا فون نمبر لکھا تھا اور یہ بھی لکھا تھا کہ اگر اپنے والد کو بچانا چاہتے ہو تو مجھے فوراََ فون کرو ۔۔۔ میں نے فون کیا تو اُس شخص نے مجھے ایک کام سونپا ۔۔۔ مجھے شہر کے ایک چوک میں جانے کا حکم دیا اور وہاں سے کچھ پیسے اُٹھانے کے لئے کہا۔۔۔ اْس نے یہ بھی کہا کہ وہ پیسے لے کر کسی غریب کو دے دوں اور پھر سیٹھ افتخار عالم کی کوٹھی میں سے پچیس لاکھ روپے لے لوں ۔۔۔ میں پہلے تو بہت حیران ہوا پھر میں سمجھا کہ میرے حالات جان کر مجھے یہ فون سیٹھ افتخار عالم نے ہی کسی کے ذریعے کروا یاہے اور مجھے اِس چھوٹے سے کام کے بدلے میں پچیس لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا ہے ۔۔۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ مجھ سے کام اِس لئے لے رہا ہیں تاکہ میرانفس مجروع نہ ہو اور میں خوشی خوشی پیسے لے لوں ۔۔۔بس یہ سوچ کر میں نے وہ پیسے ایک غریب کو دے دئیے اور خود سیٹھ افتخار عالم کی کوٹھی کا رخ کیا ۔۔۔ جب میں کوٹھی میں داخل ہوا تو پوری کوٹھی خاموشی کی لپیٹ میں تھی۔۔۔اس پراسرار خاموشی کو دیکھ میں حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔۔۔ میں ابھی حیران ہی تھا کہ ایک دل دوز چیخ کی آواز سنائی دی ۔۔۔ میں دیکھنے کے لئے کہ کیا ہوا ہے فوراََ چیخ کی سمت میں بھاگا تو وہاں سیٹھ افتخار عالم تڑپ رہے تھے۔۔۔اْن کے سینے میں چاقو گھونپا ہوا تھا ۔۔۔ ابھی میں خوف کے عالم میں اُنہیں دیکھ ہی رہا تھا کہ گھر کے افراد چلاتے ہوئے آئے اور مجھے قاتل سمجھ کر گرفتار کروا دیا ۔۔۔ بس یہ ہے کل کہانی ۔ یہاں تک کہہ کر مجید خاموش ہوگیا۔
کیا تمہیں کوٹھی کا دروازہ کھلا ملا تھا ۔ ایل ایل بی شہباز احمد نے سوچتے ہوئے پوچھا۔
جی ہاں ۔۔۔ اور مجھے اِس بات پر حیرت بھی ہوئی تھی ۔۔۔ ایک اور حیران کن بات یہ تھی کہ درواز ے پر کوئی چوکیدار بھی نہیں تھا ۔۔۔ ورنہ بڑی بڑی کوٹھیوں میں دروازے پر باوردی نگران کھڑے ہوتے ہیں ۔ مجید بولتا چلا گیا۔
عمران کیا یہ سچ کہہ رہا ہے ۔ شہباز احمد نے عجیب سے لہجے میں پوچھا جس پر مجید چونک اْٹھا۔
جی اباجان ۔۔۔ یہ بالکل سچ کہہ رہا ہے ۔ عمران نے اْس کے چہرے اور آنکھوں پر نظر ڈال کر کہا۔
آپ کا بیٹا کیا کالا جادو جانتا ہے ۔ مجید نے حیران ہو کر کہا۔
نہیں یہ کالا یا سفید یا سرخ کوئی بھی جادو نہیں جانتا ۔۔۔ بس یہ آنکھوں اور چہرے کو کتاب کی طرح پڑھ لیتا ہے ۔ سلطان نے مذاق اْڑانے والے لہجے میں کہا۔
اوہ !!! ۔ مجید کے منہ سے حیرت کے عالم میں نکلا۔
ٹھیک ہے مجید ۔۔۔ میں تمہارا کیس لڑنے کے لئے تیار ہوں ۔۔۔ فلحال تمہیں حوالات میں رہنا ہوگا ۔۔۔ عدالت میں پیشی تک میں اور میرے بچے تمہارے کیس میں اصل مجرم کا سراغ لگاتے رہے گے ۔۔۔ اور اِس دوران اگر ہم قاتل تک پہنچ گئے تو اُسے عدالت میں پیش کر دیں گے اورتمہیں رہا کر الیں گے ۔ شہباز احمد نے کہا۔
بہت بہت شکریہ ۔۔۔ میں آپ یہ احسان یاد رکھوں گا ۔ مجید کی آواز جذ بات تلے دب کر رہ گئی۔ شہباز احمد نے اْسے دلاسا دیا اور حوالات سے باہر نکل آئے۔
کیوں ۔۔۔ کیا یہ کیس لے لیا آپ نے ۔ سب انسپکٹر تنویر نے اُنہیں گھورا۔
جی ہاں تنویر صاحب ۔۔۔ بے گناہوں کو انصاف دلانا ہی میرا پیشہ ہے ۔ شہباز احمد مسکرا کر بولے اور تھانے سے باہر نکل آئے ۔ گھر پہنچے تو ریشم ممتاز اپنے گھر جا چکی تھی ۔ شہباز احمد تھکن کے مارے سیدھا اپنے کمرے میں گئے اور بستر پر نیم دراز ہوگئے ۔ پانچوں بچوں نے بھی اپنے کمرے کی راہ لی۔ صبح فجر کے وقت سب نماز کے لئے اُٹھے اور پھر چونک اُٹھے۔ موبائل پر کسی نے سات سے آٹھ مس کالیں دی تھیں لیکن وہ تھکن کی وجہ سے فون سن نہیں سکے تھے۔ ایل ایل بی شہباز نے اُس نمبر پر واپس فون کیا تو دوسری طرف سے آواز سنائی دی۔مجید صاحب کے والد کا انتقال ہوگیا ہے ۔۔۔ اْن کی میت لے جائیے ۔ دوسری طرف کی بات سن کر شہباز احمد کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ گیا اور اْن کی آنکھیں غم میں ڈوب گئیں ۔ یہ بات مجید کو بتانا از حد ضروری تھا ۔ وہ نماز پڑھ کر فوراََ حوالات کی طرف روانہ ہوگئے ۔ بچوں کو اُنہیں نے گھر پر ہی چھوڑ دیا تھا۔ مجید نے یہ خبر سن کر کوئی رد عمل نہ دیا بلکہ حیران و پریشان چپ سادھے کھڑا رہا اور پھر اُس کی سسکیوں سے حوالات کی دیواریں گونج اْٹھیں۔ شہباز احمد کی بھی آنکھیں نم ہوگئیں۔ مجید کو ایک بار پھر دلا سا دے کر وہ واپس لوٹ آئے ۔ گھر پہنچے تو ریشم ممتاز عدالت کا صمن لیے بیٹھی تھی ۔ اُسے بھی انتقال کی خبر مل چکی تھی اور وہ آنسو بہا رہی تھی ۔ عدالت کا صمن شہباز احمد نے کھولا اور پھر چونک اْٹھے ۔ مجید کی عدالت میں پیشی کل ہی تھی ۔ جسٹس جبران محمو د اِس کیس میں بطور جج فرائض انجام دے رہے تھے ۔ مخالف وکیل کا نام سن کر تو وہ حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہ ایڈوکیٹ ایم اے جیسوال ہی تھا جو شہباز احمد نے از حد جلتا تھا۔ پانچ منٹ میں کیس حل کرنا اْس کا شوق تھا اور پچھلا کیس شہباز احمد سے ہارنے کے بعد تو وہ زخمی شیر بن چکا تھا۔اب تک وہ صر ف ایک کیس ہی ہارا تھا اور وہ پچھلا کیس تھا۔ شہباز احمد کے ماتھے پر شکنیں اُبھر آئیں۔ اْنہیں نے دلاسا دے کر ریشم ممتاز کو بھیج دیا اور خود اپنے دفتر میں آگئے۔ گھر کے بالکل ساتھ ہی اُن کا دفتر تھا۔اِس دفتر سے دوکام لئے جاتے تھے۔ پہلا کام تو شہباز احمد لیتے تھے ۔ بطور وکیل لوگ اُن سے کیس حل کرانے آتے تھے اور اِسی دفتر کے دوسرے کونے پر عرفان برادرز بیٹھتے تھے ۔ یہ پرائیوٹ جاسوسی کے فرائض انجام دیتے تھے۔ شہباز احمد اپنے دفتر میں آکر کرسی پر پرجمان ہوگئے اور کیس پر غورکرنے لگے۔ پھر اُنہیں نے سب انسپکٹر تنویر کو فون کرکے ایک کانسٹبل کے ذریعے سب انسپکٹر تنویر سے کیس کی فائل منگوائی اور فائل میں گم ہوگئے ۔ ناشتے کرنے کے بعد عرفان برادرز بھی دفتر میں آگئے تھے ۔ آج کل اُنہیں موسم سرما کی چھٹیاں تھیں۔دفتر میں بیٹھے بیٹھے وہ تنگ آگئے لیکن کوئی بھی نیا کیس لے کر نہ آیا۔ دوسری طرف شہباز احمد افتخار عالم قتل کی فائل میں گم ہو کر رہ گئے تھے۔ آخر عرفان نے تنگ آکر اخبار پر نظریں جما دیں۔ پہلے ہی خبر نے اُسے چونکنے پر مجبور کر دیا۔ یہ خبر سیٹھ افتخار عالم قتل کیس کے بارے میں ہی تھی ۔ مکمل خبر پڑھنے کے بعد بھی اْسے کوئی نئی بات معلوم نہ ہوسکی۔تبھی وہ سب چونک اُٹھے۔ دفتر میں داخل ہونے والے کو دیکھ کر وہ چونک ہی سکتے تھے ۔ یہ ایڈوکیٹ ایم اے جیسوال تھااور دفتر کے دروازے پر کھڑا اُنہیں طنزیہ نظروں سے گھور رہا تھا۔
٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭
Bookmarks