google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 7 of 7

    Thread: Jurm Ki Kahani - Suspense Full Novel - Written By Shahid Bhai

    Hybrid View

    1. #1
      New Member Shahid Bhai's Avatar
      Join Date
      Apr 2017
      Posts
      19
      Threads
      3
      Thanks
      2
      Thanked 10 Times in 8 Posts
      Mentioned
      1 Post(s)
      Tagged
      0 Thread(s)
      Rep Power
      0

      Re: Jurm Ki Kahani - Suspense Full Novel - Written By Shahid Bhai

      جرم کی کہانی
      از شاہد بھائی
      آخری قسط

      ریشم ممتاز اپنی سسر کی موت پر آنسو بہا رہی تھی۔ بیگم آئی جی عبدالباسط اُن کے ساتھ ہی تھیں۔ اِس وقت ریشم ممتاز کے گھر پر دوسرے رشتے دار بھی آئے ہوئے تھے۔ وہ ایک طرف انتقال پر افسو س کر رہے تھے اور دوسر ی طرف مجید کے جیل جانے پر حیرت بھی ظاہر کر رہے تھے۔عدالت میں شہباز احمد کے چہرے سے پسینے کے قطرے گر رہے تھے ۔ وہ کیس ہارنے کے قریب ہو چکے تھے ۔ ایم اے جیسوال نے واقعی پانچ منٹ میں اپنی چٹان جیسی مضبوط دلیل سے اْنہیں چاروں شانے چت کر دیا تھا۔ اب جج صاحب اپنا فیصلہ سنانے کے قریب تھے۔
      مجھے حیرت بھی ہے اور افسوس بھی ۔۔۔حیرت اِس بات پر ہے کہ شہباز احمد جیسے سچے وکیل نے آج ایک گناہ گار کی وکالت کی اور افسوس اس بات کا کہ شہباز احمد سو کیس جیتنے کے بعد آج کا کیس مکمل طور پر ہار گئے ۔۔۔ یہ عدالت مجید کو گناہ گار تسلیم کرتی ہے ۔۔۔ ایم اے جیسوال کی پر زور دلیلوں کے بنیاد پر یہ عدالت اِس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مجید نے سیٹھ افتخار کا قتل کیا ۔۔۔ اور اِس جرم میں اُسے ۔۔۔ ۔ جج صاحب نے اتنا ہی کہا تھا کہ شہباز احمد نے پرجوش لہجے میں اُن کی بات کاٹ دی۔
      ایک منٹ جج صاحب ۔۔۔ ۔ شہباز احمد کا لہجہ جوش سے تمتما رہا تھا۔ جج صاحب جس وقت فیصلہ سنا رہے تھے اُس وقت شہباز احمد کا اسسٹنٹ منظورپوسٹ مارٹم کی رپورٹ اُن کے پاس لایا تھا۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ پر نظر پڑتے ہی شہباز احمد نے جج صاحب کو فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا۔
      یہ آپ نے کیا بدتمیزی شروع کر دی شہباز صاحب ۔۔۔ مانتا ہوں شکست نے آپ کے دماغ کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔۔۔ آپ کا دماغ بھائیں بھائیں کر رہا ہے لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ جج صاحب کو فیصلہ سنانے سے روکیں ۔ ایم اے جیسوال مذاق اُڑانے والے انداز میں بولا۔
      دماغ تو اب آپ کا ہل جائے گا جیسوال صاحب ۔۔۔ ایک اور ہار مبارک ہو ۔ شہباز احمد پر جوش لہجے میں بولے۔
      یہ آپ کیا معما میں باتیں کر رہیں ہیں ۔۔۔ صاف صاف کہیے ۔ جج صاحب ناراض ہو کر بولے۔
      صاف بات یہ ہے جج صاحب کہ یہ کیس قتل کا نہیں بلکہ خود کشی ہے ۔۔۔ سیٹھ افتخار نے خود کشی کی ہے ۔ شہباز احمد بولتے چلے گئے ۔
      کیا !!! ۔ پوری عدالت ایک ساتھ چلا اُٹھی۔ دوسرے ہی لمحے وہاں ایسی خاموشی ہوگئی جیسے وہاں کوئی موجود ہی نہ ہو۔آخر اِس خاموشی کو جیسوال نے توڑا۔
      یہ کیا بکواس کر رہے ہیں آپ ۔ جیسوال گرجا۔
      یہ بکواس نہیں حقیقت ہے جیسوال صاحب ۔۔۔ ہار کا مزا چکھنے کے لئے تیار ہوجائیے۔۔۔اب آپ کو میں پوری کہانی سناؤں گا۔۔۔ رات کے نو بجے چاقو سیٹھ افتخار کے سینے پر گھونپا گیااورسیٹھ صاحب کی دلدوز چیخ سے گھر گونج اُٹھا ۔۔۔ مجید یہ چیخ سن کر فوراََ سیٹھ صاحب کے کمرے میں داخل ہوگیا اور مجید کے کمرے میں داخل ہونے کے ایک منٹ بعد یعنی نو بج کر ایک منٹ بعد گھر والے داخل ہوئے اور نوبج کر دو منٹ پر سیٹھ افتخار نے دم توڑ دیا۔۔۔ اب جیسوال صاحب نے دلیلوں کے ذریعے یہ واضح کیا کہ نوبجے مجید کے علاوہ کوئی اور کمرے میں نہیں تھا اِس لئے قاتل مجید ہی ہے ۔۔۔لیکن مجید کے علاوہ وہاں ایک اور شخص بھی موجود تھا اور وہ خود سیٹھ صاحب تھے ۔۔۔ سیٹھ افتخار نے خود چاقو اپنے سینے میں اْتارا اور چیخ مار کر گرئے جس پر مجید دوڑتا ہوا آیا۔۔۔ایک منٹ بعد گھر والے بھی وہاں پہنچ گئے اور اْنہیں نے مجید کو قاتل سمجھ کر گرفتار کر ادیا۔۔۔اب رہا یہ سوال کہ سیٹھ صاحب نے خود ہی اپنی جان کیوں لی ۔۔۔ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ سیٹھ صاحب ذہنی مریض تھے ۔۔۔ یہ میں نے کل سیٹھ صاحب کی رپورٹ میں پڑھا ہے۔۔۔کل کا پورا دن میں اِس کیس پر غور کرتا رہا ۔۔۔ مختلف فائلیں سب انسپکٹر تنویر سے منگواتا رہا اور اُس کا مطالعہ کرتا رہا۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ سیٹھ صاحب ایک ذہنی مریض تھے ۔۔۔ اُنہیں اِس دنیا سے کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی تھی ۔۔۔ اُن کی بیگم سے اْن کے تعلقات بھی کچھ خاص نہیں تھے ۔۔۔یہ بات مجھے گھر کے ملازم شرفو کا ریکارڈ کردہ بیان پڑھ کر پتا چلی ہے ۔۔۔سیٹھ صاحب کے اپنے بھائی سے بھی تعلقات خراب تھے ۔۔۔ آئے دن گھر میں جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔۔۔ سیٹھ صاحب نیند کی گولیاں کھانے لگے تھے ۔۔۔ آخر پرسوں رات سیٹھ صاحب نے خود کشی کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔ اپنے پاس پڑے چاقو سے سینے کو خون سے تر کر دیا۔۔۔ اُس چاقو کو سینے پر اُتار دیا۔۔۔مجید اُس رات اپنے والد کے لئے پیسے جمع کرنے میں مگن تھا۔۔۔ اِسی مقصد کے لئے وہ سیٹھ صاحب کے پاس آیا تھا۔۔۔ لیکن یہاں ایک اور کہانی بھی ہے ۔۔۔ کسی نے فون کرکے مجید کو یہ پیغام دیا تھا کہ وہ سیٹھ صاحب کے گھر جا کر پچیس لاکھ روپے لے آئے ۔۔۔ اب یہ بیان کس نے دیا تھا یہ میں واضح کرتا ہوں ۔۔۔ کسی زمانے میں سیٹھ صاحب جوان تھے اورجوانی میں وہ کسی سے محبت کر بیٹھے تھے ۔۔۔ اْس لڑکی سے اُنہیں نے شادی بھی کی تھی لیکن ایک رات وہ لڑکی اُنہیں لوٹ کر سار ے پیسے تجوری میں سے نکال کر فرار ہوگئی۔۔۔ اُس وقت سے سیٹھ صاحب زندگی سے روٹھ گئے تھے ۔۔۔دوستوں کے کہنے پر اُنہیں نے شادی تو کی لیکن کبھی خوش نہ رہے۔۔۔ اُس رات مجید کو فون بھی اُسی لڑکی نے کیا تھاجس سے کسی زمانے میں سیٹھ صاحب نے شادی کی تھی کیونکہ وہ لڑکی جانتی تھی کہ سیٹھ صاحب خودکشی کرنے والے ہیں ۔۔۔ وہ چاہتی تھی کہ مجید اُن کے قتل کے کیس میں گرفتار ہو جائے ۔۔۔ مجید سے اُسے نہ جانے کیا دشمنی تھی لیکن یہ بات خود مجید نے مجھے بتائی ہے کہ اُس کی مجید سے آئے دن لڑائی رہتی ہے ۔۔۔وہ مجید کو نا کامیاب کہتی ہے اور وہ کوئی اور نہیں مجید کی بیوی ریشم ممتاز ہے ۔ یہاں تک کہہ کر شہباز احمد خاموش ہوگئے۔عدالت میں سناٹا چھا گیا۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو حیرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
      واہ بھئی واہ۔۔۔ آج سے میں آپ کو ایل ایل بی شہباز احمد کے بجائے مصنف شہباز احمد کہوں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا ۔ جیسوال کی اِس بات پر قہقہہ گونج اْٹھا۔
      اُرڈر اُرڈر اُرڈر ۔۔۔ سائلنس اِن دا کورٹ پلیز ۔ جج صاحب ہتھوڑالکڑی کی پلیٹ پر مار کر بلند آواز میں بولے ۔
      جج صاحب سنا آپ نے ۔۔۔ کیا کہانی بنائی ہے ہمارے شہباز احمد صاحب نے ۔۔۔ اب میں اْنہیں مصنف نہ کہوں تو اور کیا کہوں ۔ ایم اے جیسوال ہنس کر بولا۔
      کمال ہے جیسوال صاحب ۔۔۔ سچ آپ کو کہانی لگ رہا ہے ۔ شہباز احمد کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور یہ مسکراہٹ اُن کی فتح کا چیخ چیخ کر اعلان کر رہی تھی۔
      شاید آپ کو پتا نہیں شہباز صاحب ۔۔۔ عدالت کہانیوں پر نہیں ثبوتوں پر یقین کرتی ہے ۔ جیسوال نے مذاق اْڑانے والے لہجے میں کہا۔
      ثبوت بھی ہے میرے پاس جیسوال صاحب ۔۔۔ سب سے پہلے تو پوسٹ مارٹم رپورٹ جو کہ ابھی ابھی موصول ہوئی ہے ۔۔۔ اِس رپورٹ کے مطابق چاقو اُوپر سے نیچے کی طرف مارا گیا ہے جبکہ اگر سیٹھ صاحب کا قتل ہوا ہوتا تو چاقو نیچے سے اُوپر کی طر ف مارا جاتا یا پھر سیدھا مارا جاتا ۔۔۔ دوسری بات کہ چاقو پر انگلیوں کے نشان نہیں ہیں ۔۔۔ اِس کا صاف جواب یہ ہے کہ اْس رات سردی کی وجہ سے سیٹھ صاحب نے دستانے پہن رکھے تھے ۔۔۔ ہم اِس بات کو مکمل طور پر نظر انداز کر گئے کیونکہ مجید کے ہاتھوں پر دستانے تو موجود تھے ہی نہیں پھر یہ قتل مجید کس طرح کر سکتا تھا۔۔۔تیسری بات یہ کہ اُس رات سیٹھ صاحب نے شرفو کے علاوہ تمام نوکروں کو چھٹی دے دی تھی تاکہ وہ آسانی سے خود کشی کر سکیں اور کوئی نوکر مداخلت نہ کر سکے۔۔۔یہی وجہ تھی کہ مجید بنا روک ٹوک گھر کے اندر داخل ہوگیا تھااور اُسے دروازے پر کوئی چوکیدار نہیں ملا تھا۔۔۔اب اگر کوئی اور ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہے تو میں حاضر ہوں ۔ آخر میں شہباز احمد نے مسکرا کر کہا۔
      میر ا خیال ہے اب کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ۔۔۔یہ عدالت اِس نتیجے پر پہنچی ہے کہ سیٹھ افتخار نے خودکشی کی ہے ۔۔۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نے یہ بات واضح کر دی ہے ۔۔۔دوسری طرف مجید بالکل بے قصور ہے ۔۔۔ یہ عدالت مجید کی بیوی ریشم ممتاز کو گرفتار کرنے کا حکم دیتی ہے اور اُسے مجید کے خلاف سازش کرنے کے جرم میں اور سیٹھ افتخار کی تجوری صاف کرکے فرار ہونے کے جرم میں ا ور سیٹھ افتخار کو دھوکا دے کر خود کشی پر مجبور کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سناتی ہے اور مجید کو باعزت بری کرتی ہے ۔۔۔ دا کیس اِس کلوسڈ ۔ جج صاحب نے فیصلہ سنایا۔ ایک طرف مجید کے چہرے پر خوشی تھی تو دوسری طرف وہ اپنی بیوی کی عمر قید کی سزا پر غمگین بھی تھا۔تبھی اُس کے ذہن میں یہ سوال گونجا کہ اُس رات راستے میں اْس سے ٹکرانے والا کون تھا لیکن پھر خود ہی اْس کے ذہن نے یہ جواب دیا کہ وہ ضرور اُس کی بیوی ریشم ممتاز کے لئے کام کرنے والا کوئی کرایے کا غنڈہ تھا۔ پھر یہ سوال اُس کے ذہن میں ہل چل مچانے لگا کہ اگر اُس کی بیوی ریشم ممتاز اُسے پھنسانا چاہتی تھی تو پھر وہ کیس لے کر شہباز احمد کے پاس کیوں آئی۔ وہ اِس سوال کا جواب جاننے کے لئے بے چین ہوگیا۔یہاں شہباز احمد مسکرا کر جیسوال کو دیکھ رہے تھے اور وہ جلا بھنا اْنہیں غصے سے گھور رہا تھا۔تبھی مجید اُن کے پاس آکھڑا ہوا۔
      شہباز صاحب ۔۔۔اگر میری بیوی مجھے پھنسانا چاہتی تھی تو پھر وہ میرا کیس لے کر آپ کے پاس کیوں آئی ۔ مجید الجھن کے عالم میں بولا۔
      اِس سوال کا جواب کچھ مشکل نہیں ہے ۔۔۔ وہ آئی جی عبدالباسط کی بیگم کی سہیلی بھی تھی۔۔۔اگر وہ اپنے شوہر کے لئے کچھ نہ کرتی اور گھر میں مزے اُڑاتی تو اْس پر ضرور شک کیا جاتا ۔۔۔اْس نے خود کو شک سے بری کرنے کے لئے یہ سارا ڈرامہ کھیلا ۔ شہباز احمد نے وضاحت کی۔مجید اْ ن کا جواب سن کر مطمئن ہوگیا۔جیسوال جل بھن کر اُنہیں دیکھ کر رہا تھا۔
      بس کیجئے جیسوال صاحب۔۔۔ اب کیا آنکھوں ہی آنکھوں میں کھا جانے کا ارادہ ہے ۔ شہباز احمد مسکرا کر بولے۔
      آج کا دن آپ کے نام رہا لیکن اگلی بار میں آپ کو پانچ منٹ میں ہرا کر کیس جیت جاؤں گا ۔ جیسوال جل کر بولا اور وہاں سے رخصت ہوگیا۔ شہباز احمد نے اُسے جاتے دیکھ کر سردآہ بھری۔ اِدھر شہباز احمد کے بچے اُچھل کود کر کے شہباز احمد کے ایک سوایک ویں کیس جیتنے کا جشن منا رہے تھے۔

      ٭٭٭٭٭
      ختم شدہ
      ٭٭٭٭٭


      Last edited by Shahid Bhai; 07-31-2018 at 08:38 PM.

    2. The Following User Says Thank You to Shahid Bhai For This Useful Post:

      Jelly Bean (08-04-2018)

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •