کامیابی: اچھے فیصلوں کا نتیجہ




انتھونی رابنز
ہمیں اپنی غلطیوں پر کڑھتے رہنے یا کف افسوس ملنے کی بجائے ان سے سبق سیکھنا چاہیے اور آئندہ انہیں دہرانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ایسا عارضی طور پر ہوتا ہے کہ ہم کہیں اٹک کر رہ جاتے ہیں اورتذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جنہیں ہم اپنی زندگی میں ناکامیاں سمجھ کر مایوس ہو جاتے ہیں درحقیقت وہ ناکامیاں نہیں بلکہ وہ صرف نتائج ہوتے ہیں۔ کبھی ہم سوچ کے اس بھنور یا گرداب میں پھنس جاتے ہیں کہ ہم نے ایسا کیوں کیا یا کیوں نہیں کیا؟ ہمیشہ اس مقولے کو یاد رکھیں کہ کامیابی اچھے فیصلوں کا نتیجہ ہوتی ہے، اچھا فیصلہ کسی تجربے کا نتیجہ اور تجربہ اکثر برے فیصلوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ آپ نے ماضی کی کسی غلطی سے کیا سبق سیکھا، جو آج آپ کی زندگی کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے؟ کامیابی اور ناکامی کسی ایک واقعہ کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔ ناکامی کسی سے بے توجہی اور لاتعلقی اختیار کرنے کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی کی طرف خود پیش قدمی نہ کرنا اور یہ نہ کہنا کہ مجھے تم پسند ہو۔ اس کا نتیجہ محبت میں ناکامی ہو سکتی ہے۔ ناکامی انسان کے چھوٹے چھوٹے ایسے فیصلوں کی ڈور میں بندھی ہوئی ساتھ ساتھ چلتی ہے جو کہ فوری طور پر نہیں لیے گئے ہوتے۔ اسی طرح کامیابی کوئی فوری قدم اٹھا لینے سے ملتی ہے۔ مثلاً عین ممکن ہے کہ آپ کے دل کی گہرائیوں سے کیے گئے جادو بیان اور سحر آفرین اظہارِ پسندیدگی نے آپ کو محبت میں کامیابی سے ہم کنار کر دیا ہو۔ اب آپ کو اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہیے: آج کامیابی کی طرف گامزن ہونے کے لیے آپ کے اندر وہ کون سا قدم اٹھانے کا خیال پیدا ہوا جو آپ آسانی سے اٹھا سکے؟ تحقیق سے مسلسل یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ دنیا میں کامیاب لوگوں میں فوری طور پر فیصلہ کرنے کا رجحان پایا گیا۔ وہ کامیاب لوگ جنہوں نے اپنے فیصلے بدلنے کے لیے بہت کم پیچھے مڑ کر دیکھا، وہ اس بات پر قائم رہے کہ جو فیصلہ ہو گیا سو ہو گیا وہ کامیاب ٹھہرے۔ وہ لوگ جو کوئی بھی فیصلہ کرنے میں تذبذب میں مبتلا ہوتے ہیں اور لیت و لعل سے کام لیتے ہیں، وہ جلد اپنے فیصلے بدلتے ہیں۔ ان میں قوت فیصلہ کی کمی ان کی ناکام زندگی کا سبب بنتی ہے۔ آپ ایک بار جو فیصلہ کریں اس پر ڈٹے رہیں۔ یہاں ایک مثال دینا چاہوں گا۔ ایک ایسا انسان، جس نے اپنی پوری زندگی وھیل چیئر پر گزار دی۔ اسے بہت سے چیلنجز کا سامنا تھا۔ بظاہر اس کی جسمانی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ اپنا یا دوسروں کا معیار زندگی بہتر کرنے کے لیے کچھ کر سکتا، لیکن پھر اس نے ایسا کر دکھایا۔ وہ ایڈروبرٹس (1939 ء تا 1995ئ) تھا۔ اس نے امریکا میں معذوروں کے حقوق کی تحریک کی بنیاد رکھی۔ وہ اپنے صرف ایک لمحہ کے فیصلہ کی قوت کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ کس طرح اس نے ایک فوری فیصلہ کیا اور پھر اس پر عمل پیرا ہو گیا۔ اس نے وہ کام کر دکھایا جس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وھیل چیئر پر زندگی بسر کرنے والے اس شخص نے یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے سے معذوروں کی بحالی اور بہتری کے مضمون میں گریجویشن کی اور پھر ریاست کیلی فورنیا کے شعبہ بحالی معذوراں کا ڈائریکٹر بن گیا۔ اس نے معذور افراد کے حقوق کے لیے حکومتی سطح پر آواز اٹھائی اور معذوروں کے حقوق اور قوانین پر عمل درآمد کے لیے بڑا نمایاں کردار ادا کیا۔ معذور افراد کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے روبرٹس نے ایسے نئے انداز اور نئی جہتیں اور راستے پیدا کیے جو قابل تحسین و آفرین ہیں۔ اگر کچھ کر دکھانا ہو تو کسی کی راہ میں کوئی بہانہ اور کوئی بھی عذر یا معذوری حائل نہیں ہو سکتی۔ آپ ایسے تین فیصلے کریں جو آپ کے روزگار یا کیرئیر، آپ کے تعلقات اور آپ کی صحت کے معاملات میں خوش آئند تبدیلی لا سکیں اور آپ ان پر عمل پیرا ہو جائیں۔ ٭٭٭