ثقافتوں کا پھیلاؤ اور نفوذ

یسرا خانعام کہا جا تا ہے کہ ہماری ثقافت پر مغربی ثقافت کا اثر بڑھ گیا ہے۔ لیکن دوسری طرف یہاں کی تہذیب نے بھی مغرب پر بہت سے اثرات چھوڑے ہیں۔ لندن میں اگر پکوڑے، سموسے اور مرچ مسالوں والے کھانے ملتے ہیں اور گورے بھی انہیں کھاتے ہیں تو اسے ثقافتی نفوذ یا پھیلاؤ ہی کہا جا سکتا ہے۔ ثقافتی نفوذ یا پھیلاؤ سے مراد کسی ایک ثقافتی گروہ یا علاقہ سے ثقافت کا دوسرے گروہ یا علاقوں تک پہنچنا ہے۔ ثقافتی رجحانات اور خاصیتوں کا نفوذ یک رخا نہیں ہوتا۔ بالعموم جب دو یا زائد ثقافتیں ایک دوسرے سے ربط میں آتی ہیں تو دونوں کی ثقافت کے اجزا انتقال پذیر ہوتے ہیں۔ یوں تو مشہور مؤرخ ہیروڈوٹس نے پانچویں صدی قبل مسیح میں بھی ثقافتی نفوذ کی مثالیں پیش کی ہیں، لیکن درحقیقت نئی جغرافیائی دریافتوں بالخصوص امریکا کی دریافت کے بعد ثقافتی نفوذ پر بطور خاص بہت زیادہ توجہ دی گئی اور اس پر بہت تحقیق ہوئی۔ سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوا کہ آیا نئی دنیا کے قدیم باشندوں کی ثقافت اپنے جغرافیائی ماحول کی پیداوار ہے یعنی کیا یہ صرف براعظم شمالی و جنوبی امریکا کے حالات سے پیدا ہوئی یا اس پر بھی قدیم علاقوں بالخصوص ایشیا سے ثقافتی عناصر شامل ہوئے۔ اس ضمن میں دو مکتبِ خیال پیدا ہو گئے۔ ایک وہ جو ارتقائی نظریہ کے قائل تھے اور جن کا خیال تھا کہ مختلف علاقوں میں آزادانہ طور پر، بلا خارجی ربط کے بھی مماثل ثقافتی خصوصیات پیدا ہو سکتی ہیں۔ دوسرے مکتب کا خیال تھا کہ ارتقائی امکانات کے باوجود ہر ثقافت کی نشوونما میں نفوذ کا بنیادی کردار ہے۔ اس مکتب خیال کا سب سے بڑا حامی ماہربشریات ایڈورٹیلر تھا جس نے انیسویں صدی میں ثقافتی نفوذ پر متعدد تحقیقی مقالے تصنیف کیے۔ 1890ء تک یورپ اور امریکا میں یہ بات تسلیم کی جا چکی تھی کہ آزادانہ ارتقا کے نظریہ میں بے شمار منطقی جھول پائے جاتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ثقافتی نفوذ ہر زمانہ میں کسی نہ کسی حد تک موجود رہا ہے۔ یعنی دنیا کے مختلف خطوں کی ثقافتیں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی رہیں۔ ثقافتی نفوذ کا سب سے اہم سبب کسی ثقافت کے افراد یا گروہوں کا دوسری ثقافت میں منتقل ہونا ہوتا ہے۔ انسان زمانہ قدیم سے ہجرت کرتے آ رہے ہیں۔ اس لیے انسانی آبادی کے ایک گروہ کا دوسرے میں جانا حیرت کی بات نہیں۔ وہ جاتے ہوئے اپنی ثقافت بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی کسی ثقافت کے تمام اجزا دوسری ثقافت میں تسلیم نہیں کر لیے جاتے۔ بلکہ عموماً درآمدی ثقافت ان میں سے کچھ خاصیتوں کو اپنے مزاج اور ضروریات کے اعتبار سے قبول کر لیتی ہے، اور اس میں بھی مقامی تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ مذہبی مبلغین، سیاح، طبیب، تاجر اورمہم جو ثقافتی نفوذ اور پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نوآبادیاتی دور میں اس کی لاتعداد مثالیں ملتی ہیں جب یورپین اقوام نے نئی دنیا اور ایشیائی افریقی ممالک پر تسلط حاصل کیا۔ ان تمام مواقع پر نہ صرف یہ کہ نوآبادیاتی ثقافتوں نے مغربی ثقافتوں سے بہت کچھ حاصل کیا۔ بلکہ خود یورپ میں بھی ان علاقوں کی ثقافتوں سے بے شمار خصوصیات منتقل ہوئیں۔ ثقافتی نفوذ دو رخا ہوتا ہے۔ بعض اوقات حاکم یا مقتدر اقوام کی ثقافت کے بعض اجزا کو محکوم ثقافتوں کے لوگ محض وقار کی خاطر اختیار کر لیتے ہیں۔ اگرچہ یہ اجزا ان کی ثقافت، آب و ہوا اور ضروریات کے لیے بالکل موزوں نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر استوائی ثقافتوں کے عوام نے سامراجی تسلط کے زمانے میں یورپی لباس کو اپنایا اور باوجود اس کے کہ یہ گرم لباس ان کے لیے موزوں نہ تھا۔ لیکن پھر بھی اس کو وقار کی علامت سمجھا جاتا رہا۔ بارود کی ایجاد اور ا س کے نفوذ و پھیلاؤ کے ساتھ یورپ اور ایشیا کی مختلف ثقافتوں میں یکساں قسم کی فوجی تنظیم اور طرزجنگ کی خصوصیات پیدا ہونے لگیں۔ اس کی سب آسان مثال ٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں ہونے والا ثقافتی پھیلاؤ ہے۔ جہاں جہاں ٹیکنالوجی کی توسیع ہوتی جائے گی وہاں یکساں ثقافت کی دوسری خصوصیات بھی مقامی ضروریات اور تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ پیدا ہوتی جائیں گی۔ عالمگیریت میں ٹیکنالوجی کا پھیلاؤ بہت بڑھ گیا۔ مغربی ٹیکنالوجی ملیشیا اور چین جیسے ممالک میں پہنچ گئی۔ اس کے ساتھ وہاں کے گانے، کھانے اور لباس بھی پہنچے۔ یہ تبدیلیاں صد فی صد مماثل نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر گوتھک آرٹ جرمنی، فرانس اور اٹلی میں بالکل ایک سا نہیں تھا۔ اسی طرح انڈونیشیا کا ہندو اور بدھ آرٹ ہندوستان سے کافی مختلف ہے۔ یونانیوں نے سامی زبان کے حروف تہجی کو اختیار کیا، لیکن اس کی طرز تحریر اور استعمال میں مقامی تبدیلیاں ہوئیں۔ چنانچہ پورے یورپ میں یونانی اور لاطینی زبانوں کا اثر ہے۔ لیکن ہر ملک کی زبان نے اپنا مقامی رنگ طرزتحریر اور معانی اختیار کر لیے۔ اردو میں عربی اور فارسی حروف تہجی کو استعمال کیا گیا لیکن مقامی ضروریات کے مطابق اس میں اضافے کر لیے گئے۔ سندھی، پشتو اور سرائیکی میں بھی حروف تہجی میں اسی طرح کے اضافے کیے گئے۔ موجودہ دور میں سوشل میڈیا نے ایک دوسرے کی ثقافت کو جاننے کے امکانات کو پہلے سے کہیں زیادہ بڑھا دیا ہے