الیکشن کا انعقاد اتنی بھاری قیمت پر؟
محمد علی میو
۔2002۔میں الیکشن ہوئے اور ق لیگ برسراقتدار آئی۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت نے پانچ سالہ مدت پوری کی۔ پھر 2008 میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور پیپلز پارٹی نے حکومت سنبھالی۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کیے۔ اور پھر 2013 میں ایک بار الیکشن ہوئے۔ جس میں مسلم لیگ ن نے جیت کر حکمرانی کی نشست سنبھالی۔ اور مسلسل دوسری بار جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی۔ 31مئی 2018 کو ن لیگ نے اپنی مدت پوری کی اور یکم جون 2018 کو نگران وزیراعظم ناصر الملک نے عہدہ سنبھالا۔ الیکشن کمیشن کی تجویز پر صدر مملکت نے 25 جولائی 2018 بروز بدھ کو ایک بار پھر عام انتخابات کی منظوری دیدی۔ تاہم چہ میگوئیاں ہیں آیا الیکشن کا انعقاد بروقت ہو سکے گا یا نہیں۔

راقم بھی اسی حوالے سے کسی حتمی رائے پر نہیں پہنچ سکا تو ایک بار پھر ناہنجار بھولا خبری کا خیال آیا۔ اس بار ناچاہتے ہوئے فون اٹھایا اور اسے افطاری کی پر مدعو کر لیا۔ کھانے سے فراغت کے بعد اس کی جہان بھر کی فضولیات اور قصے کہانیاں مجبوراًسنیں اور پھر اسے اصل مدعا پر لایا۔ موضوع چھیڑا کہ الیکشن میں تاخیر کی قیاس آرائیوں میں کتنی صداقت ہے۔ سوال سن کر بھولا خبری اپنی مکار ہنسی ہنسا اور اپنی روایتی بے تکلفی سے راقم کے برابر آکر بیٹھ گیا۔ بھولا خبری نے راقم کے خیال سے اتفاق کیا کہ عام انتخابات 25 جولائی کو ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ راقم نے اس کے پیچھے وجوہات پوچھیں تو بھولا خبری بولا کہ نگران حکومت کے ہوتے ہوئے قومی نوعیت کے کچھ اہم معاملات ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ اگلی حکومت آنے سے قبل ان کاموں کی نیا پار ہو جائے۔ استفسار پر بھولے نے بتایا کہ سب سے اہم معاملہ نواز شریف خاندان کا ہے۔ امکان ہے کہ جون کے آخر یا جولائی میں نواز شریف اور مریم نواز کو عدالتوں سے سزا سنا دی جائے گی اور یہ پابند سلاسل ہونگے۔ لیکن بہت حد تک امکان ہے کہ نواز شریف عید الفطر کے آس پاس بیرون ملک چلے جائیں۔ اور ہوسکتا ہے کہ وہ واپس نہ آئیں لیکن اگر پاکستان میں موجود رہے تو جیل ان کی منتظر ہے۔ راقم نے بھولے کی بات سے اتفاق کیا۔
الیکشن میں تاخیر کی دوسری بڑی وجہ بھولے نے پی ٹی آئی بتائی۔ بھولے نے توجہ دلائی کہ روزانہ کے حساب سے ملک کے مختلف حلقوں سے درجنوں رہنما تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے پارٹی کے پرانے کارکنوں اور پرانے رہنماؤں میں تشویش پائی جا رہی ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ اتنا عرصہ پارٹی کیلئے قربانیاں دیں لیکن جب حکومت میں آنے کا امکان ہے تو الیکشن میں ٹکٹس لوٹوں اور حالیہ شامل افراد کو دی جا رہی ہیں۔ اسی وجہ سے پی ٹی آئی میں بڑے پیمانے پر انتشار کا امکان ہے۔ اور ناراض ووٹر غصے میں کپتان سے انحراف کر سکتا ہے۔ بھولے نے بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ کمزور پی ٹی آئی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ جب تک کپتان اس بحران پر قابو نہ پالیں عین ممکن ہے کہ الیکشن میں تاخیر ہو جائے۔ کیونکہ اگر اس صورتحال میں الیکشن ہوتے ہیں تو یقیناً کوئی بھی جماعت وفاق میں واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی۔ جس سے حکومت چلانے میں بہت مشکل ہو سکتی ہے۔ غیر یقینی صورتحال میں عمران خان کبھی بھی وزیراعظم بننے کا رسک نہیں لیں گے۔ اس لیے عمران خان بھی چاہیں گے کہ الیکشن لیٹ ہوں تاکہ غیر یقینی صورتحال کے بادل چھٹ جائیں اور معاملات ان کے حق میں آئیں۔ بھولا خبری نے اس صورت میں ایک اہم نقشہ کھینچا جو راقم کے دل کو چھوا۔ بھولے نے 2002 کے الیکشن یاد کرائے جس میں درجنوں وفاقی و صوبائی وزرا کو غیر متوقع شکست ہوئی تھی۔ اسی طرح 2008 میں ہونے والے چند بڑے اپ سیٹ یاد کرائے۔ اس کا خیال ہے جس طرح نواز شریف خاندان کی سیاست کا سورج غروب ہو چکا ہے۔ اسی طرح الیکشن میں کئی بڑے سیاسی خاندانوں کا سورج غروب ہو جائیگا اور ان کو بری طرح شکست ہوگی۔ الیکشن کے بعد ان کے گرد گھیرا تنگ کر دیا جائیگا اور کئی بڑے نام جیل میں ہونگے۔
بھولے خبری نے ایک اور اہم بات بتائی کہ بعض حلقوں میں بازگشت ہے کہ کچھ ادارے اتنی تاکید سے 25 جولائی کو الیکشن کا بار بار کہہ رہے ہیں ایسا لگ رہا ہے جیسے الیکشن کے نتائج پہلے سے ہی تیار شدہ ہیں۔ ایسی صورتحال میں الیکشن ہوئے تو ان نتائج کو ہارنے والے کبھی قبول نہیں کرینگے اور دھاندلی کا شور مچا دینگے۔ سوشل میڈیا کے دور میں الیکشن کے شفاف انعقاد پر انگلیاں اٹھیں گی۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس آواز میں قوت اور شدت پیدا ہوتی جائیگی۔ جو اس معلق پارلیمنٹ کیلئے خطرے کی گھنٹی ہوگی۔
سب سے بڑی مخبری جو بھولے نے راقم کو دی اس نے خدشہ ظاہر کیا کہ پہلی بات تو عام الیکشن 25 جولائی کو ہونے نہیں دیئے جائیں گے۔ ایسی صورتحال پیدا کر دی جائیگی کہ الیکشن میں تاخیر ہو۔ لیکن اگر اگر اگر الیکشن کا انعقاد ہو بھی گیا تو کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں کرنے دی جائے گی اور ایک معلق پارلیمنٹ بنے گی۔ اور سب سے بڑا ڈر یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ 1990 کی دہائی جیسی پارلیمنٹ ہوگی جو اپنی مدت پوری نہیں کر سکے گی۔
اس دوران کچھ مزید باتیں بھی گفتگو کا حصہ بنیں جس میں سب سے اہم دہشتگردی اور سیلاب تھے۔ ملکی صورتحال کے تناظر میں الیکشن مہم کافی خطرناک ہوں گی۔ ملک میں دہشتگردی کا خطرہ ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ خدا نخواستہ کسی بھی انتخابی جلسے میں سیکیورٹی انتظامات ناقص نکلے اور وہاں دہشتگردی ہو گئی تو سیکیورٹی ادارو ں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان پڑے گا۔ سانحہ راولپنڈٰ ی میں بے نظیر بھٹو جیسی عظیم لیڈر کو کھو دینے کے بعد قوم مزید کسی سانحہ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس لیے انتخابی جلسوں میں سیکیورٹی کو سب سے زیادہ اہمیت دینی چاہئے۔ اور عموماً جولائی اگست میں ملک میں سیلاب اور بارشوں کا سلسلہ بھی ہوتا ہے جس وجہ سے بڑے حصے میں الیکشن کا انعقاد بھی متاثر ہو سکتا ہے۔
موجود ہ صورتحال کے نتیجے میں جو نقشہ کھینچا جا سکتا ہے۔ اس کے مطابق بطور صحافی راقم کا خیال ہے کہ جولائی میں الیکشن پر دھاندلی زدہ ہونے کا لیبل لگ سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی۔ جو 2 یا ڈھائی سال سے زیادہ نہیں چل سکے گی۔ کیونکہ جب اتحادی زیادہ ہوں اور اپوزیشن بھی مضبوط ہو تو آئےروز تحریک عدم اعتماد کا خطرہ منڈلاتا رہے گا۔ ایسی صورت میں پارلیمنٹ زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ راقم کا مشورہ ہے کہ نگران حکومت پہلے کرپشن کا گند صاف کرے اور اگر الیکشن میں کچھ تاخیر کر لے تو بہتر ہے۔ اس وقت پاکستان کی مغربی سرحدوں پر حالات کشیدہ ہیں۔ برسات میں سیلابوں اور بارشوں کا خطر ہ ہے۔ فوج الیکشن کرائے گی یا امدادی کارروائیاں کریگی یا سرحد سنبھالے گی؟ اتنے کم وقت میں سیکیورٹی انتظامات پورے کرنا بھی مشکل ہے۔ کسی بھی جلسے جلوس یا کسی بھی سیاسی لیڈر پر دہشتگردی کا حملہ ہو گیا تو عالمی سطح پر کیا تاثر جائیگا اور اس کا الیکشن پر کس حد تک منفی اثر پڑے گا، یہ سب کو معلوم ہے۔ اور ویسے بھی برسات اور حبس زدہ موسم میں لوگوں کی بڑی تعداد ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشن کا رخ نہیں کریگی۔ راقم کی ناقص رائے میں اگر الیکشن ستمبر کے آخر میں یا اکتوبر میں کرا لیے جائیں تو ہر لحاظ سے موزوں رہیگا۔ نہ خراب موسم کا مسئلہ نہ افراتفری کا عالم ہو گا نہ سیلاب نہ بارشیں اور تمام جماعتوں کو بھرپور طریقے سے انتخابی مہم چلانے کا موقع بھی مل سکے گا۔