بس ، اب اور نہیں
وہ لوگ جو صحافی کہلاتے ہیں یا وہ لوگ جو لکھاری ہونے کے دعویدار ہیں۔ ان پر بڑی زمے داری عائد ہوتی ہے ۔ ان کے قلم کی حرمت اسمیں پوشیدہ ہے کہ انہیں علم ہو کہ قلم کو کیسے چلانا ہے، کہاں ٹہرنا ہے اور کب رک جانا ہے ۔
صحافی کی صحافتی تربیت یہ نہیں ہوتی کہ خبر کو بارہ مصالحے کی چاٹ بنا کر پیش کرے۔ اسی طرح لکھاری کے لئے کچھ اخلاقی تقاضے بھی ہوتے ہیں جو کسی حالات و واقعات کو بیان کرتے ملحوظ رکھنا ضروری ہوتے ہیں۔
ہم میں سے ہر شخص مختلف ہے سب کی اخلاقیات کی سطح بھی مختلف ہوسکتی ہے۔ ذاتی طور پر کسی بات کو بیان کرنے کا انداز جو ایک کے لئے ناگوار ہو دوسرے کے لئے ایک نارمل سی بات ہوسکتی ہے لیکن ہم میں سے اکثریت کو علم ہوتا ہے کہ معاشرے میں کسی واقعے یا حادثے کو بیان کرنے کا کیا طریقہ ہونا چاہئے۔ اور کونسے الفاظ مہذب اور کون سے سطحی ہوسکتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ صبح کے وقت چھپنے والے قومی لیول کے اخبارات کو معاشرے کی عمومی اخلاقی اقدار کو ملحوظ رکھ کر ترتیب دیا جاتا ہے جب کہ شام کے وقت سڑکوں پر بکنے والے اخبارات کی سطحی انداز میں بیان کردہ خبریں ان کے قارئین کو مد نظر رکھ کر بنائی جاتی ہیں۔
سوشل میڈیا کی مثال ایک بے ترتیب سے درخت کی سی ہے جس نے اچھے لکھنے والے صحافیوں سے لے کر عام انسانوں تک کو اپنی رائے کے اظہار کا پلیٹ فارم دیا ہے اور یہاں ایک بڑی تعداد ان کی بھی ہے جو لکھنے کی کچھ نہ کچھ شدھ بدھ ضرور رکھتے ہیں۔
لیکن آپ صحافی ہوں، لکھاری ہوں یا عام فیس بک کے لکھاری ایک سنجیدہ موضوع پر اظہار اور احتجاج سب کا حق ہوتے ہوئے بھی ہمیں کس موضوع پر کونسی تفصیل لکھنی ضروری ہے کونسی غیر ضروری یا واقعے کے مظلوم متعلقین کے لئے تکلیف کا باعث یہ ہم فراموش کرنے لگے ہیں۔ اور عوامی رائے کے اس موثر پلیٹ فارم کا تاثر شام کے اخبار کا سا ہونے لگا ہے۔
کالج میں لڑکیوں کے ساتھ ہراساں کئے جانے کی بات ہو، زینب کے ساتھ زیادتی و قتل کا قصہ ہو یا دو دن پہلے فاروق بندیال کے ایکٹریس شبنم کے حوالے سے کیس کی تفصیلات۔ بڑے سنجیدہ لکھنے والوں سے لے کر ان کے فالوورز تک قلم کو کہاں پر روک لینا چاہئے کہ مظلوم کی دل آزاری و دل شکنی نہ ہو اس کا سنجیدگی کی حد تک فقدان نظر آیا۔
چاہے آپ صحافی ہوں اور حقائق سامنے لانا چاہتے ہوں اپنی تحریر کو کسی واقعے کے حوالے سے پبلک کرنے سے پہلے لحظہ بھر ضرور ٹہرئیے اور دیکھئیے کہ حقائق کے پردے میں آپ سطحی زہنیت کے لوگوں کی تسکین کا سامان تو نہیں کر رہے ؟
کہیں سچائی اور حقائق بیان کرتے وقت آپ اس وکیل کا کردار تو نہیں ادا کر رہے جو عدالت میں ریپ کے ملزم کا دفاع کرتے سمے مظلوم عورت سے اس قدر تکلیف دہ سوالات کرتا ہے کہ عورت اپنا کیس لڑنے اور ظالم کو سزا دلوانے کے بجائے اس گھڑی مرجانے کا سوچنے لگتی ہے؟
کہیں ایک لکھاری کے طور پر آپ زینب جیسی بچیوں کے بارے میں ایسی تفصیل تو نہیں لکھ رہے جو ان کے والدین کو پھر سے ازیت کے سمندر میں دھکیل دے؟
سوال اٹھانا، حقائق سامنے لانا صحافی کا حق سہی، تبصرہ کرنا احتجاج کرنا عام انسان کا حق سہی لیکن قلم کو کہاں روکنا ہے اسکو سیکھنا ہوگا ۔
اور اس کو سیکھنا زیادہ مشکل نہیں آپ جس واقعے پر لکھنے لگے ہوں بس تصور کیجئیے کہ خدانخواستہ اس کے وکٹم یا متاثرہ شخص آپ یا آپ کا کوئی پیارا ہے (خاکم بدہن) اسکے بعد قلم کہاں تک چلنا ہے اور کہاں رک جانا چاہیے یہ آپ کو سیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔
آپ شام کے اخبار کی ہیڈلائن اور خبریں تخلیق نہیں کرسکیں گے کہ آپ کے اندر کی آواز آپ کو ٹہر نے پر مجبور کردے گی کہ -
بس ، اب اور نہیں ۔۔۔۔
ثمینہ رشید
Bookmarks