مو لا نا محمد اجمل خان کی دینی و علمی خدمات
علامہ ابوالحسن محمد ارشد
۔1919ء میں جمعیت علمائے ہند کی بنیاد ڈالی گئی جس کے پہلے سر براہ شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ بنے۔ جب آپ کو جمعیت کا سر براہ بنایا گیا اس وقت آپ مالٹا کی جیل میں تھے جہاں آپ نے قر آن مجید کا ترجمہ لکھا اور نصف قرآن مجید کی تفسیر مکمل کی۔ پھر آپ رہا کر دیئے گے۔ ہندو ستان واپسی پر آپ نے اعلان فرمایا کہ میں اور میرے رفقا اب دو کام کریں گے، ایک قرآن مجید کے پیغام کو عام کریں گے اور دوسرا امت میں اتحاد و اتفاق کے لیے کردار ادا کریں گے۔ مالٹا کی جیل میں بہت سوچنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قرآن مجید سے دوری اور امت میں انتشار کی وجہ سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے۔ مولانا محمود حسن کے اس درد دل کو آپ کے شاگردوں اور آپ کی جماعت کے لوگوں نے خوب سمجھا۔ آپ ہی کے شاگرد اور جے یو آئی کے سر براہ مولانا احمد علی لاہوریؒ نے اپنے استاد کے مشن کا آغاز لاہور میںکیا۔ آپ کے ساتھ اس مشن کو حضرت مولانا محمد اجمل خان نے آگے بڑھایا اور اتحاد امت کے لیے بھی جمعیت کے پلیٹ فارم سے ملک کے طول و عرض میں پیغام کو عام کیا۔ اس مناسبت سے مولانا محمد اجمل خان بھی بانیان جمعیت میں شامل ہیں۔ 7 اپریل 2017ء کو نوشہرہ میں تاریخ ساز صد سالہ عالمی اجتماع میں جمعیت کی موجودہ قیادت نے اپنے اکابرین مولانا محمود حسنؒ، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا حسین احمد مدنی، علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا احمد علی لاہوریؒ، مولانا عبد اللہ درخواستیؒ، مولانا مفتی محمودؒ، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا محمد اجمل خان، مولانا امروٹی، مولانا عبید اللہ انور، مولانا عبدالکریم قریشی اور دیگر اکا برین کے مشن کو پُرامن اور منظم انداز میں آگے بڑھانے کا اعلان کیا۔ لاہور، جسے حضرت مجدد الف ثانیؒ نے قطب البلاد قرار دیا، کے روحا نی مرکزی جا مع مسجد رحمانیہ میں بیٹھ کر آپ نے تین وقت درس قر آن کا سلسلہ شروع فرمایا۔ بعد نماز فجر عوام الناس کے لیے درس قرآن دیتے۔ بعد نماز ظہر سرکاری افسران، سرکاری ملا زمین اور کا لج و سکول کے اساتذہ کے لیے درس ہوتا تھا اور بعد از نماز عشاء درس قر آن میں ہر طبقۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شریک ہوتے تھے۔ اس درس سے یہ انقلاب آیا کہ ’’مسٹر اور عالم‘‘ کی تفریق ختم ہو گئی۔ دونوں طبقات کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملا۔ مولانا محمد اجمل خان عالم باعمل تھے۔ بات کہنے سے پہلے عمل کے میدان میں کھڑے ہو تے تھے۔ خطیبِ اسلام نے مو لا نا احمد علی لاہوری ؒ کے ساتھ سیا ست کے میدان میں جمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے سیا ست کا آغاز کیا تھا اور زندگی کی آخری سانس تک اسی قافلے کے روح رواں رہے ۔ جمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے چلنے والی تحریکات میں حضرت احمد علی لاہوریؒ ، مولانا عبد اللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے ساتھ شانہ بشانہ نظر آئے۔ جمعیت کے اکابرین نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ کے لیے قریہ قریہ، بستی بستی، گائوں گائوں، نگر نگر پہنچے اور عوام کو اس مشن کے لیے تیار کیا اور پھر یہ نعرہ ہر ایک کی زبان پر تھا کہ یہ دھرتی اللہ کی ہے، نظام بھی اسی کا چلے گا ۔ مولانا محمد اجمل خان کہا کرتے تھے کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب اس دھرتی پر آمنہ کے لعل ﷺکا نظام آئے گا۔ جامعہ قاسم العلوم ملتان میں جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس دور کے حکمران سکندر مرزا سے کہا تھا کہ اسلام ہمارا مقصد ہے۔ اگر یہ کام حکمران کر دیں، ہم تمھارے ساتھ ہوں گے ورنہ پُرامن جدوجہد جاری رہے گی، لیکن اسلام نافذ نہیں کرو گے تو موجودہ اور آنے والے حکمرانوں سے ہمارا مقابلہ ہوگا اور اپنے مشن کی تکمیل کے لیے جان کی بازی لگانا ہم فخر سمجھتے ہیں ۔اس جلسہ سے امیر جمعیت مولانا احمد علی لاہوریؒ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں امیر جمعیت کی حیثیت سے اعلان کرتا ہو ں کہ مولانا محمد اجمل خان نے درست کہا کہ اگر حکمران اسلام نافذ کر دیں تو ہمارا کام مکمل ہو جائے گا۔ 53ء اور74ء کی تحریکِ ختمِ نبوت یا 77ء کی تحریک نظام مصطفی ﷺ میں مولانا محمد اجمل خان کا قائد انہ کردار تاریخ کا حصہ ہے۔ ہر آمریت کے خلاف جدوجہد میں بھی آپ کا نمایاںکردار ہے۔ آپ نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور جیل میں پہنچ کر بھی آواز حق کو بلند کیا۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی عشق رسالت ﷺ کی روح پھونکی۔ ان کے تاریخی الفاظ آج بھی اہلیان پاکستان کے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ سیاست کے میدان میں علماء کو کرسی کی خواہش نہیں ہے انہیں ممبر اسمبلی بننے کی ضرورت نہیں کیونکہ علماء کرام تو صرف نفاذ اسلام میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے زندگی بھر سرکاری مراعات لیں نہ ہی سرکاری پیشکشوں کو قبول کیا۔ قومی اتحاد اسلامی جمہوری، اتحاد جمہوری، محاذ ملی یکجہتی کونسل و دیگر اتحادوں میں جماعت کی نمائندگی اور قیادت کا حقیقی حق ادا کیا اور مختلف ادوار میں وزارت اسلامی نظریاتی کو نسل کی چیئرمین شپ اور دوسری پیشکشوں کو اپنے اکا برین کا امین بن کر ٹھکرا دیا ۔ مو لانا محمد اجمل خان نے ساری عمر درویشی کی گزاری اور جنازہ اٹھا تو لاہور کے تاریخی جنازوں میں ایک تھا۔ اس مرددروش کا جنازہ مسجدکے حجرے سے اٹھا۔ اللہ ان کی قبر پر کروڑ ں رحمت نازل فرمائے۔ ٭٭٭
Bookmarks