رمضان کے اس مہینے کا آغاز ہوچکا جس میں روزے اور تلاوت کے بعد صدقہ تیسری بڑی عبادت ہے۔ اور ستم دیکھئے کہ اس ماہ ہمارے چہروں سے وہ تبسم ہی بالکل غائب ہوجاتا ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے صدقہ ہی قرار دیا ہے۔ مسلمان کے پاس اس ماہ دینے کے لئے روپیہ پیسہ تو ہوتا ہے مگر تبسم بانٹنے کو نہیں رہتا۔ ایسا نہیں کہ یہ تبسم خرچ ہوکر ناپید ہوجاتا ہے بلکہ وہ دیگر اشیاء کی طرح اس کی بھی جیسے ذخیرہ اندوزہ ہی کر لیتا ہے۔ اس ماہ آپ جسے بھی دیکھئے چہرے پر یا تو طیش کے آثار ہوں گے یا بلا کی ایسی سنجیدگی جیسے ڈاکٹر نے میڈیکل رپورٹس پڑھ کر کوئی بری خبر سنادی ہو، مسکراہٹ ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گی۔ حالانکہ یہ رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جس میں خدا نے ایک طرف ثواب کے انبار لگا رکھے ہیں تو دوسری جانب اس انبار کے لوٹ کی ایسی آسانی پیدا فرمادی ہے کہ شیطان کو ہی قید کرلیا جاتا ہے جو اس ثواب کو لوٹنے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
اس پہلو سے غور کیجئے تو یہ مسرت کے لمحات سے بھرپور مہینہ ہے لیکن ہمارے چہروں پر اضافی مسرت کے آثار تو چھوڑئے
وہ معمول کا تبسم بھی غائب ہوجاتا ہے جو سال کے دیگر گیارہ مہینوں میں نظر آتا ہے۔ عجیب بات یہ کہ رمضان میں بھی صرف روزے کی حالت میں ہی یہ تبسم غائب رہتا ہے افطار کے بعد تو ایک حد تک لوٹ آتا ہے۔ کیا اس کا تعلق بھوک اور پیاس سے ہے ؟ اور وہ بھی ایسی بھوک اور ایسی پیاس جس میں فاقوں کا ہولناک خوف شامل نہیں ہوتا بلکہ اس کا اختتام چند گھنٹے بعد انواع اقسام کی نعمتوں پر ہونا طے ہوتا ہے۔
نہیں ! یہ تبسم چند گھنٹے کی بھوک پیاس کے ہاتھوں نہیں بلکہ کچھ علتوں کے سبب رخصت ہوتا ہے جن کا ہم نے خود کو اسیر کر رکھا ہے۔
ہم میں سے اکثر لوگ پان، سگریٹ، نسوار میں سے کسی ایک علت کے ضرور اسیر ہوتے ہیں۔ وہ لوگ اقلیت میں ہیں جو ان تین میں سے کسی ایک نشے کی اسیری میں نہ ہوں لیکن ایسوں کی بھی اکثریت چائے کی تو ضرور ہی اسیر ہوتی ہے جو بجائے خود دنیا کے چند سب سے زیادہ مستعمل نشوں میں سے ہے۔ چائے تو اس درجہ عام و مرغوب نشہ ہے کہ اس کی لت مائیں ہی اپنے بچوں کو لگاتی ہیں۔ دو سے تین سال کی عمر میں مائیں اپنے بچوں کو دو وقت چائے کی باقاعدہ عادت ڈالتی ہیں بس بچے کے بچپنے کا لحاظ یوں فرما لیتی ہیں کہ اس ابتدائی عمر میں بچوں کی چائے میں پتی کی مقدار کم رکھتی ہیں جس کا آسان سا ٹوٹکا وہ یہ کر لیتی ہیں کہ بچے کی چائے کے کپ میں اضافی دودھ ڈال لیتی ہیں۔ ماؤں کی توجہ اس جانب جاتی ہی نہیں کہ چائے نہ صرف یہ کہ انسانی ضرورت نہیں بلکہ یہ محض ایک مضر صحت نشہ ہے جو انسان کو اپنا قیدی بنا لیتا ہے لہذا اور نہیں تو مادری جبلت سے ہی کام لیتے ہوئے اپنے بچوں کو اس نشے سے بچا لیا جائے۔
کوئی بھی ماں یہ سوچنے کا تکلف گوارا نہیں کرتی کہ وہ اپنے بچے کو اپنے ہی ہاتھوں محض دو تین سال کی عمر میں ایک نشے کا عادی بنا رہی ہے جس کا یہ ساری زندگی اسیر رہے گا۔ اور اسیر بھی اس حد تک کہ رمضان جیسے شاندار مہینے روزے کی حالت میں پورا دن محض اس لئے اس کی شکل پر بارہ بج رہے ہوں گے کہ اسے چائے کی طلب ستا رہی ہوگی۔ خدا بھلا کرے ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا جن سے چند ماہ قبل اپنے معدے کے علاج کے سلسلے میں مشاورت کی تو دوران گفتگو فرمانے لگے کہ پان کی علت سے جان چھڑانی ہوگی ورنہ دوا عارضی افاقہ تو دے گی مگر پان کے ہوتے مرض سے جان نہ چھوٹے گی۔ جو شخص بتیس سال سے پان کھا رہا ہو وہ اس قسم کے مشوروں کا بھی عادی رہا ہوتا ہے سو اسے ہر بار بس اتنا ہی تکلف کرنا پڑتا ہے کہ معالج سے توڑنے کے لئے ایک وعدہ مزید کر لیا جائے مگر ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کے ساتھ اس واردات کی ہمت نہ ہوئی۔
یوں بتیس سال بعد یہ پہلا رمضان ہے جو پان کی علت کے بغیر ہے۔ پان، سگریٹ اور نسوار وہ آفت ہے جس کے عادی روزہ دار کے ساتھ ظہر کے بعد گفتگو سے قبل احتیاطا آیت الکرسی اور معوذتین دم کرنے پڑتے ہیں تاکہ اس کے شر سے تحفظ میسر رہے۔ پچھلے بتیس رمضان ہمارے ہاں بھی یہی احتیاط ہوتی رہی کہ گھر والے ظہر کے بعد تو دم درود کے سہارے ضروری گفتگو فرما لیتے لیکن عصر کے بعد وہ دم درود پر بھی بھروسہ نہ کرتے اور ہم سے کسی آتش گیر مادے کی طرح فاصلے پر رہتے۔
اس بار معاملہ مختلف ہے۔ ظہر تو ظہر عصر کے بعد بھی ہمارے چہرے کی مسکراہٹ اور ہلکے پھلکے قہقہے دیکھ کر بے یقینی سے ایک دوسرے کو تکنے لگتے ہیں۔ سب سے دلچسپ تجربہ لکھنے کا رہا۔ پان سگریٹ جیسی علتوں کا اسیر روزے کی حالت میں صبح آٹھ دس بجے بھی کچھ نہیں لکھ سکتا جبکہ ہم اس رمضان عصرکے بعد بھی کئی تحریریں لکھ چکے اور کوئی دقت پیش نہ آئی حالانکہ رمضان میں عصر کے آس پاس تو وہ اہل قلم بھی کچھ نہیں لکھ پاتے جو صرف چائے کے ہی عادی ہوں۔ چائے کے سلسلے میں اپنا معاملہ یہ ہے کہ پورے دن میں ایک ہی کپ کی عادت ہے اور وہ بھی صبح ناشتے میں، سو اس کی طلب کا وقت مقرر ہے، ناشتے کے علاوہ کبھی چائے کی طلب ہوتی ہی نہیں لیکن ارادہ کر لیا ہے کہ اب اگلے مرحلے میں چائے سے بھی جان چھرانی ہے۔
ایسی علتوں کا کیا فائدہ جن کا قیدی بن کر رمضان جیسا مسرتوں بھرا مہینہ آفت لگنے لگے اور روزے کی حالت میں مسلمان کا تبسم ہی چھن
جائے، یعنی صدقے کا مہینہ اور صدقہ غائب !
رعایت اللہ فاروقی
Bookmarks