تیرے عشق نچایا
ربیعہ کنول مرزا
کائنات کو باندھے رکھنے یا جوڑے رکھنے کا ذریعہ محبت ہے، یا پھر یوں کہہ لیں کہ محبت کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔ تمام رشتے، تعلقات، میل جول، سماج، معاشرہ ادھورا ہے اگر اس میں جذبات کی عکاسی نہ ہو۔
Love is the only binding force
عموما لوگ، پیار، محبت اور عشق کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔
پیار:۔ پیار انسان کی فطرت میں شامل ایک جزو ہے، بالکل اِسی طرح جس طرح سانس لینا، کھانا کھانا، پانی پینا، سونا، جاگنا، انسانی فطرت کے جزو ہیں، اِسی لیے ہم ہر انسان سے بحیثیت انسان پیار کرتے ہیں۔ اپنے دوستوں سے پیار کرتے ہیں، عزیزوں اور رشتے داروں سے پیار کرتے ہیں۔ اپنے والدین بھائی، بہن، بیوی بچوں سے پیار کرتے ہیں۔ اپنے گھر، گلی، گاؤں، شہر اور ملک سے پیار کرتے ہیں اور جانوروں سے پیار کرتے ہیں۔
محبت:۔ محبت بھی پیار ہی کی طرح ایک فطری جذبہ ہے مگر یہ پیار سے کچھ بڑا ہوا ہوتا ہے۔ یہ عموماً صرف ایک شخص سے ہوتی ہے مگر کبھی کبھی ایک سے زیادہ لوگ بھی اِس کی تحریک کا سبب بن جاتے ہیں۔ اِس جذبے کا محرک شخص باقی سب لوگوں سے خاص ہو جاتا ہے اور اِس کے لیے بھی کسی باہمی رشتے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
عشق:۔ ایک وقت تھا جب عشق کی ایک ہی قسم تھی۔ اور وہ تھا سچا، پاک اور صاف عشق۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے دال، گھی، دودھ اور باقی اشیاء میں ملاوٹ ہوئی وہاں عشق بھی ان جراثیموں سے نہ بچ سکا۔
اور یوں عشق کی بہت سی اقسام ایجاد ہوگئیں۔
بلیڈیے عاشق
یہ ایسے عاشق ہیں جن کے اپنے جسم میں خون کا ایک قطرہ نہیں ہوتا، مچھر ان کا خون پینے آئے تو یہ Reversal mode یہ مچھر کا ہی خون چوس لیتے ہیں۔ ان کا عشق بلیڈ مارنے سے ڈاکٹر تک پہنچنے تک کا ہوتا ہے۔ان کے پاس ایک ہی دھمکی ہوتی ہے، امی یا تو میرے شادی اس سے کروا دیں یا میں خود کو بلیڈ مار لوں گا۔ اکثر تو امی خود ہی غصے میں اسے بلیڈ لا کر تھما دیتی ہیں کہ لے بیٹا مار لے بلیڈ۔۔۔ لیکن تجھے انہوں نے اپنی لڑکی نہیں دینی۔
پیکج والے عاشق
یہ سب سے زیادہ پائی جانے والی قسم ہے۔ یہ عاشق 13 روپے میں پورے دن کا پیکج کرتے ہیں۔ پھر اپنی لیلیٰ کے گھر کے بکری کے لیلے سے لے کراس کےامی، ابو، ماما، چاچا، تایا، خالہ، پھوپھو سب کا حال پوچھتا ہے۔ اگر پیکج پھر بھی بچ جائے تو دوبارہ پوچھتا ہے “اور سناؤ”۔ اگر تب بھی چند منٹس بچ جائیں تو اپنے دوست سے کہتا ہے کہ، لے یار کسی سے بات کرنی ہے تو کرلے، میرا پیکج ہے۔ دوست بھی پریشان ہوجاتا ہے کہ اپنے کام کیلئے بھی مس کال نہ کرنے والا آج فون کیسے کروا رہا ہے؟؟
ادھاری عاشق
یہ عاشقوں کی سب سے مشہور قسم ہے۔ یہ اکثر معشوق کے مقروض رہتے ہیں۔ ان کے اندر خدمت خلق کا جن کسی بڑی کیکر سے چڑھا ہوتا ہے۔ یہ ہر وقت اپنی محبوبہ سے روہنسا منہ بنا کر یہ کہہ کر پیسے مانگتے رہتے ہیں کہ، فرزانہ میرے دوست کی والدہ سخت بیمار ہیں اور اسے بیس ہزار کی اشد ضرورت ہے۔ اگر تم کچھ مدد کردو تو۔۔۔۔
فرزانہ بھی جل بھن کر کہتی ہے کہ تمہارے سب دوست ہی کنگلے ہیں یا سب کے گھروں میں بیماریوں کا راج ہے۔ ابھی پچھلے مہینے تم نے پندرہ ہزار لئے تھے کہ دوست کا والد بیمار ہے آج پھر؟
ادھاری عاشق لڑکی کو جذباتی کرنے کیلئے،،،،
یعنی کہ تمہیں لگتا ہے میں جھوٹ بول رہا ہوں؟ لڑکی تھوڑی ٹھنڈی ہو کر۔۔ نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔۔
عاشق ایسی ہی بات ہے۔۔ تبھی تم اپنے پیسوں کا رعب جھاڑ رہی ہو۔۔ تم نے نہیں دینے تو نا دو لیکن میرے دوستوں کے بارے میں کچھ نا کہو۔
لڑکی بھی اسکی دوستوں کیلئے محبت دیکھ کر آنسو بہاتی ہوئی بیس کی بجائے پچیس ہزار تھما کر کہتی ہے۔ باقی کا ان کے گھر راشن پہنچا دینا۔۔
ٹوپی باز عاشق
یہ عاشقوں کی سب سے الجھی ہوئی قسم ہے۔ ان کو آپ انگلش میں Multiple tasks performer بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کی زندگی کسی سٹاک ایکسچینج کی طرح کبھی اوپر کبھی نیچے ہوتی رہتی ہے۔ انہوں نے اپنی محبوباؤں کے نام کچھ اس انداز سے رکھے ہوتے ہیں کہ گھر والوں کو بھی شک نہیں ہوتا کہ کون ہے۔ نام کیسے ہوتے ہیں ذرا ملاحظہ ہوں۔
راشدہ کا رشید پلمبر
مہوش کا مٹھو حلوائی
گلنار کا گلزار درزی
یہ ایک وقت میں دو تین معاشقوں میں الجھے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ جذبات کی روش اختیار کر لیتے ہیں اور جذبات میں بہہ کر راشدہ سے بات کرتے کرتے زبان کی پھسلن کی وجہ سے کہہ دیتے ہیں۔۔۔ تم نے ٹھیک کہا مہوش۔۔
وہ کہتے ہیں نا جب گیدڑکی موت آتی ہے تو وہ شہر کو دوڑنےلگتا ہے۔ بس یہی ان عاشقان کے ساتھ ہوتا ہے۔۔۔ اپنی موت کا سامان خود اپنے منہ سے بتلا دیتے ہیں۔
لیکن یہ اس قدر ٹوپی باز یا عرف اصل میں چال باز ہوتے ہیں کہ اتنی بے عزتی کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوتے۔
حقیقی عشقِ مزاح کے بعد اب سنجیدہ عشق کی طرف آتے ہیں۔
عشق عربی زبان میں گہری چاہت کو کہتے ہیں جبکہ اس کی عقلی توجیہ کچھ اس طرح ہے کہ “عشق نام ہے بے لگام انسانی تڑپ کا، جو کسی قاعدہ اور قانون کی پابند نہیں۔ اس تڑپ کا تعلق محض وجدان سے ہوتا ہے‘‘۔
عشق کی ابتدا— اخلاص کی انتہا سے ہوتی ہے۔!! اور عشق کی انتہا تب ہوتی ہے کہ جب آپ حسرتوں کے بیتاب سمندر میں تیر تو رہے ہوں مگر اپنا دامن نہ بھیگنے دیں۔۔
علم ریاضی میں ایک اور ایک، دو ہوتے ہیں- علم تجارت میں گیارہ۔۔
جبکہ علم عشق میں پہلے ایک اور ایک دو ہوتے ہیں- دو سے پھر ایک، اور بالآخر ایک سے زیرو ہو کر عالم فنا کی مستیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔
عشق میں دوئی ہوتی ہی نہیں، وہ تو جنون ہے، پاگل پن ہے، یکسوئی ہے۔ اس میں محبوب نظر کے سامنے نہ ہو تو سانس نہیں آتی، صحت چاہ کر بھی ساتھ نہیں دیتی اور فراق جان لے کر دم لیتا ہے۔ یہی عشق کا دستور ہے۔ ہر چہرہ اپنے معشوق کا چہرہ دکھتا ہے اور حالت یہ ہوتی ہے کہ پہلے اردگرد بھول جاتا ہے اور پھر اپنا وجود بھی بھول کر محبوب کا عکس بن جاتا ہے۔ اسی کیفیت کو صوفیاء فنا فی الوجود سے تعبیر کرتے ہیں۔
کسی سے اپنی عقیدت کو ظاہر کرنے کے لیے ہمارے ہاں زیادہ تر لفظ عشق استعمال کیا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ لفظ ہماری محبت اور عقیدت کو بالکل صحیح انداز سے واضح کر دیتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عشق اور محبت و عقیدت میں بہت فرق ہے۔
؎ درد ہی خود ہے خود دوا ہے عشق
شیخ کیا جانے تُو کہ کیا ہے عشق
عشق مجموعہ ہے تین لفظوں کا۔۔ ع۔۔ ش۔۔۔ق۔۔۔
ع۔۔ (عبادت) یعنی جس سے ہمیں محبت ہے اُس کا نام ہم دن رات جبتے رہیں۔۔ ہمہ وقت اُسی کا ذکر زباں پر ہو۔
ش۔۔ (شک) یعنی جس سے آپ محبت رکھتے ہیں اُس کی نظر میں آپ سے بھی زیادہ محبت رکھنے والا انسان نہ آ جائے کہیں کہ وہ اُسے محبوب بنا لے۔ یہ ہوتی ہے شک کی سیڑھی جو آپ میں مزید تڑپ پیدا کرتی ہے۔۔۔ آپ کو ہر وقت جلاتی ہے اور آپ اُس ذات کا ذکر مزید کرتے ہیں تاکہ وہ بس آپ ہی کا محبوب رہے اور آپ اُس کے۔۔
ق۔۔ (قلم کر دینا / فنا) قلم سے مُراد سر قلم کر دینا یعنی کسی عظیم ہستی کی محبت میں اُس مقام پر پہنچ جانا کہ اپنی جان دینے سے بھی کوئی گُریز نہ کرنا۔۔۔ بلکہ اُس کی محبت میں خود کو فنا کر دینا۔۔۔۔ یہ عشق کا آخری مقام ہے۔۔۔۔۔
؎ چلنے کا حوصلہ نہیں، رُکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مُجھ کو نڈھال کر دیا
عشق کیا ہے؟ اس کا جواب ایک جیسا آنا ممکن نہیں ہے کہ ہر کسی کے تجربات یا احساسات اپنے ہیں۔ لہٰذا اس کی وضاحت کرنے میں لوگوں کا اختلاف ہو گیا بلکہ اس کے درجات کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ کتنے ہیں اور کس ترتیب سے ہیں۔ بہر حال میر تقی میر سے اختلاف کے ساتھ اس سوال کا جواب کہ “عشق کیا ہے؟”، یہ بھی ہو سکتا ہے:
؎ کیا کہوں میں تم سے کہ کیا ہے عشق
دل کا درد بلا کا سوز ہے عشق
ڈاکٹر میر ولی الدین صاحب نے اپنی کتاب میں اسبابِ عشق پر بھی ایک باب باندھا ہے اور یہ لکھا ہے کہ عشق کے اسباب میں صرف “حسن وجمال” شامل نہیں ہے جیسا کہ عام طور سمجھا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات آپ کو کسی سے محبت اس لیے ہو جاتی ہے کہ اس نے آپ پر “احسان” کیا ہو۔ یا محبت کا ایک سبب “کمال” بھی ہے کہ کسی کے اوصاف اور اخلاق کے کسی درجے کامل ہونے کے سبب اس سے محبت محسوس ہونے لگتی ہے۔
عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو
سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق
عشق ہے طرز و طور عشق کے تیں
کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق
عشق معشوق عشق عاشق ہے
یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق
کتاب میں ایک باب عشق مجازی پر بھی ہے اور اس کی دو قسمیں انہوں نے بیان کی ہیں؛ عشق حیوانی اور عشق نفسانی۔ عشق حیوانی وہ ہے جو معشوق کی رنگت، شکل وصورت اور حسن وجمال کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور اس میں حرص و ہوس ہوتی ہے لہٰذا اس میں کوئی خیر نہیں ہے اور نہ ہی عشق کی یہ قسم پسندیدہ ہے۔
ہے ہمارے بھی طور کا عاشق
جس کسی کو کہیں ہوا ہے عشق
عشق مجازی کی دوسری قسم یعنی عشق نفسانی یہ ہے کہ جو عشق کسی سے اس کے اوصاف اور خصائل کی وجہ سے پیدا ہو اور اس میں لطافت اور نفاست ہوتی ہے، یہ دل کی نرمی، فکر کی اصلاح اور شخصیت کی تعمیر کا باعث بن جاتا ہے۔ لہٰذا یہ مذموم نہیں ہے۔
عشق لامحدود جب تک رہنما ہوتا نہیں
زندگی سے زندگی کا حق ادا ہوتا نہیں
اور آخر میں ذکر میں پیر و مرشد سے عشق کا۔۔
جس طرح کسی بھی علم یا ہنر کو سیکھنے کے لیے ایک استاد کی ضرورت ہوتی ہے اورجس طرح کوئی بھی کام کسی وسیلہ کے بغیر انجام نہیں پا سکتا اس طرح اللہ پاک کی معرفت کا حصول، جو کہ انسان کا مقصدِ حیات ہے، وہ کسی وسیلہ کے بغیر کس طرح ممکن ہے۔
سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے۔ ترجمہ:’’روزِ قیامت ہر شخص اپنے امام (پیشوا، مرشد) کے ساتھ پکارا جائے گا‘‘ اور جس کا کوئی مرشد نہ ہوگا وہ شیطان کے ساتھ پکارا جائے گا کیونکہ حدیث پاک میں فرمایا گیا ’’جس کا مرشد نہیں‘ اس کا مرشد شیطان ہے‘‘۔ مرشد و رہنما کی غیر موجودگی میں شیطان کے لیے انسان کو بہکانا آسان ہوتا ہے۔
مرشد سے عشق یہی ہے کہ اس کے قول و فعل پر آنکھیں بند کرکے عمل کیا جائے، بشرطیکہ پیر و مرشد سُچا اور سچا ہو۔
پیرِکامل وہی ہوگا جو شریعت پر چلے گا، صحیح العقیدہ ہوگا اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بے لوث اپنے والدین و جان سے بھی بڑھ کر چاہے گا اور پھر عشق میں امتحان تو آتے ہیں، عبادت، ریاضت، معرفت، احکامات الہیٰ اور احکامات ِرسول ﷺ کو مانے گا
Bookmarks