بچپن میں بوسنیا سے کشمیر تک ہونے والے مظالم دکھا کر جذبہ جہاد کو میڈیا کی ہانڈی میں جوش دیا جاتا تھا۔ کبھی دھیمی کبھی دہکتی آنچ پہ جذبات چڑھا کر خوب پکایا جاتا یہاں تک کہ لڑکپن تک جہاد کا شوق سر چڑھ کر بولنے لگتا۔ یہاں پہنچنے تک جن گھرانوں کی رسد رسمی تعلیم تک ہوتی وہ اپنے بچے کو “سرکاری جہاد” یعنی پاک فوج میں شمولیت پہ آمادہ کر لیتے۔ ان کے علاوہ گاؤں دیہات کے ایسے خاندان بھی موجود تھے جن کا شوقِ جہاد تو پک پک کر خوب پاگل ہوچکا ہوتا، مگر واجبی تعلیم سے محروم ہونے کے باعث “پاک فوج” کا “سرکاری جہاد” ان کی قسمت میں نہ ہوتا۔ ایسے گھرانوں کے جوانوں کو لشکر طیبہ اور جیش محمد طرز کے سانپ انڈے کی طرح پی جاتے۔ یہ وہ وقت تھا جب پاک فوج کشمیری مجاہدین کی سرپرست اعلی ہوا کرتی تھی۔ شہید کے گھرانے کو باقاعدہ معاوضہ ہمارے والدین کی جانب سے ادا کیے جانے والے ٹیکس سے دیا جاتا۔ تب تک سب اچھا تھا۔
پھر یوں ہوا کہ ایک کمانڈو بہادر دنیا کے حالات کے آگے لیٹ گیا۔ جو جہاد باقاعدہ الاؤ جلا کر گرم کیا جاتا تھا وہی اب دہشت کی علامت قرار دے دیا گیا۔ کشمیری “مجاہدین” کو آتنک پھیلانے کا ذمہ دار کہہ کر جو حرکت مشرف بہادر نے کی اسے پس پشت ڈال کر اکثر موچی آج بھی گویے سپاہ سالار کو جری اور شریفین کو بھارت کا یار مانتے ہیں۔ اتنی جلدی تو محمد بن سلمان نے سعودیہ کا مذہبی بیانیہ تبدیل نہیں کیا جتنی جلدی میں مشرف نے جہاد کی تعریف بدل ڈالی۔ بیک جنبش قلم آپ جناب نے جہاد سے متعلقہ اپنی نصف صدی پہ مبنی روش بدل ڈالی۔ امارت اسلامیہ افغانستان پہ ایمان لانے والے پہلے تین ممالک میں سے پیش پیش اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہ نے جتنی جلدی طالبان کی امارت قبول کرنے میں لگائی اس سے زیادہ پھرتی ملا عبد السلام ضعیف کو سفارتکار ہونے کے باوجود امریکہ کے حوالے کرنے میں دکھائی۔ بلاشبہ امریکی او ایل ایکس کی پیدائش سے کہیں پہلے سب خرید لینے پہ یقین رکھتے تھے۔
یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افواج پاکستان کے اس طبقے نے بیانیے کی ایسی یکسر تبدیلی کیسے قبول کی جو طبقہ خود لڑکپن میں نسیم حجازی اور قدرت اللہ شہاب کو پڑھتے جوان ہوا اور فوج میں داخل ہوکر پاک ہوا؟ یعنی جہاد پہ ایمان لانے والے فوجی جوان کیسے اس بدلتے بیانیے کو ہضم کر پائے؟
اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں فوج سے متعلقہ دو حقائق سمجھنے ہوں گے۔ پہلی حقیقت کسی بھی فوج (بشمول افواج پاکستان) کے اندر وہ نظم و ضبط ہے جو فوج کو دیگر قانون نافذ کرنے والی مسلح قوتوں سے ممتاز کرتا ہے ۔ فوجی کی نفسیات میں “یس سر” کہتے ہوئے نفس کے ایک اہم حصے کی موت شامل ہوتی ہے۔ نفس کا یہ حصہ عام طور پر انا کہلایا جاتا ہے۔ میں ایک سے زیادہ ایسے ذہین ترین افراد کو جانتا ہوں جنہیں فوج میں ڈاکٹر کی سطح پر اس لیے ریجیکٹ کیا گیا کیونکہ ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اوسط سے کہیں زیادہ تھی۔ پس اپنے افسر کا بھلا برا ہر فیصلہ ماننا فوجی خاصیت ہے۔ یہ حقیقت دراصل فوجی نظم و ضبط کی بنیاد ہے۔ اس حقیقت کا ایک ثبوت یہ ہے کہ آج تک جمہوری حکومت پہ شب خون مارنے والے کسی ایک آرمی چیف کو “نو سر” کہنے والوں کی تعداد صفر کے قریب ہے۔
دوسری حقیقت جو اس یکسر بدلتے بیانیے کی ترویج میں مددگار ثابت ہوئی وہ فوج کے افسران کا سپاہی طبقے کی نسبت کہیں لبرل اور آزاد خیال ہونا ہے۔ یہاں یہ یاد دہانی کرواتا چلوں کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں البتہ درمیانی انگلی بہرحال انگوٹھے کی نسبت بڑی ہی رہتی ہے۔ لبرل یا آزاد خیال ہونا راقم کے نزدیک ہرگز بری بات نہیں البتہ قوم کو جہادی جذبے کے قصے سنا کر خود شراب، شباب اور کباب یا ان میں سے کسی ایک یا دو میں کھو جانا بہرحال منافقت کی معراج ہے۔ مزید تحقیقات کے لیے دعوت دی جاتی ہے کہ میجر سے اوپر کی سطح پہ افسران کے خاندانوں کا جائزہ لے لیا جائے۔
یہ حقیقت بھی یاد رہے کہ جس وقت مشرف بہادر جہادیوں کو اولاد سے دشمن بنانے کا اعلان کر رہے تھے اس وقت اور اس کے بعد بھی موصوف ان جہادیوں کی ہمدرد تمام مذہبی جماعتوں کے ساتھ اقتدار کے مزے بھی لوٹ رہے تھے۔ کیا اب بھی اعلی سطح کے فوجیوں میں سے اکثر کا منافق نہ ہونا قبول ہے؟
گویا ناجائز آمر کا ساتھ دینے سے لے کر اپنے پالے ہوئے جہادیوں کو اچانک یتیم کر دینا افسران بالا کے لیے ہاجمولہ کھائے بغیر ہضم کر لینا آسان رہا۔ نچلی سطح یس سر یس سر کے ہاتھوں مجبور فوجی نظم و ضبط کے تحت رضامند یا نیم ضامند رہی۔ میں افواج پاکستان کو پیشہ ورانہ درجہ بندی میں اوّل مان کر بھی یہ ماننے سے انکاری ہوں کہ بہترین لڑائی لڑنے والا ریاست کے حق میں بہترین دانشور بھی ہوگا۔ بالفرض ایسا مان بھی لیا جائے تو وہ شخص جو خود کو افواج پاکستان میں سے بہترین سپاہ سالار ثابت کر کے آرمی چیف کے عہدے تک پہنچا، وہ اتنا بڑا دانشور اور دور اندیش ہو کہ قوم کا بیانیہ اکیلا مرتب کرنے کا فیصلہ کر سکے، یہ بات ناقابل فہم ہے۔ سپاہ سالار ریاست چلانے کا اختیار زبردستی چھین سکتا ہے مگر درست قومی بیانیے مرتب کرنے کی گارنٹی نہیں دے سکتا۔ ایسی گارنٹی پر صرف جوتے صاف کرنے کے ماہر موچی ہی ایمان لا سکتے ہیں۔
اس طرح ہم نے ایک نسل منافقت کی نظر کر ڈالی جس کی بدولت ہم نے پہلے سانپوں کو قومی سطح پر پالتو جانور قرار دیتے ہوئے خوب دودھ پلایا۔ پھر جب ہم خود سہل پسند ہوگئے اور ہمارے سانپ کڑیل جوان اژدھے بن گئے تو ہم نے کسی اور کے کہنے پر ان اژدھوں سے دشمن داری پال لی۔ اس کے بعد ایک دہائی ہم ان اژدھوں کے ڈسنے کا شکار بنتے رہے۔ جب ہمیں ہوش آیا تو ہم نے اپنی صفوں کو ان سانپوں سے پاک کرنا شروع کیا اور پھر جب ہم اس صفائی کے عین قریب پہنچے تو ہم نے نئے سنپولیے ڈھونڈ لیے۔
مولانا خادم رضوی کی کمک کو ہزار ہزار روپے ڈنکے کی چوٹ پہ بانٹنے والے بریگیڈیئر صاحب کے افسر آج فرماتے ہیں کہ حکومت خادم حسین رضوی کو گرفتار کرے۔ وردی والے منافقین اعلی سے عرض ہے کہ بیشک آپ کے ہاتھوں میں ڈنڈا ہے جس کی بدولت آپ جمہوریت نامی بھینس سے مجرا کروا سکتے ہیں لیکن آپ اس بھینس کو اس بات پہ کیسے مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ آپ کو اپنا خصم عرف سنڈا بھی دل و جان سے مان لے؟ آپ جیو بند کروا سکتے ہیں، آپ عدالتی فیصلہ لکھوا سکنے پہ قادر ہیں، آپ لاڈلے کو وزیراعظم بنوانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ آپ جے آئی ٹی کے ہیروں سے پڑھوائے بغیر تفتیش بھی لکھوا سکتے ہیں۔ اس سب کے باوجود انتہائی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ آپ ہمیں اس بات پہ مجبور نہیں کر سکتے کہ ہم آپ کے رائج کردہ بیانیوں پہ ایمان لے آئیں اور آپ کے سپوت ملاؤں کو جب آپ چاہیں افضل جہادی اور جب آپ چاہیں اکثر فسادی مان لیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جب چاہیں توہین رسالت پہ ممتاز قادری کو دہشت گرد مان لیں اور جب چاہیں ملا خادم رضوی کو اپنا امام مان لیں؟ سنیے۔۔۔
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
دن ایک ستم، ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو، دشمن کو بھی تم مات کرو ہو
ہم خاک نشیں، تم سخن آرائے سرِ بام
پاس آ کے ملو، دُور سے کیا بات کرو ہو
ہم کو جو ملا ہے وہ تمھیں سے تو ملا ہے
ہم اور بھُلا دیں تمھیں، کیا بات کرو ہو
یوں تو ہمیں منہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو
جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
بکنے بھی دو عاجزؔ کو جو بولے ہے، بکے ہے

دیوانہ ہے، دیوانے سے کیا بات کرو ہو

بشکریہ …… معاذ بن محمود