انڈیا میں کھانے پینے سے متعلق سب سے زیادہ غلط تصوارت اور فرسودہ روایتی باتیں کیا ہیں؟
اس ضمن میں سب سے بڑی خام خیالی یہ ہے کہ انڈیا وسیع پیمانے پر سبزی خور ملک ہے۔
لیکن کسی بھی طرح یہ حقیقت حال نہیں ہے۔ گذشتہ غیر سنجیدہ تجزیے میں کہا گیا کہ ایک تہائی سے زیادہ افراد سبزی خور ہیں۔
اگر آپ بڑے پیمانے پر کیے جانے والے سرکاری جائزے کو لیں تو 23 سے 37 فیصد ہندوستانی سبزی خور ہیں۔
امریکہ کے ماہر بشریات بال مرلی نٹراجن اور انڈیا کے ماہر معاشیات سورج جیکب کی نئی تحقیق میں ڈھیروں شواہد پیش کیے گئے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سرکاری تجزیے بھی ثقافتی اور سیاسی دباؤ کے سبب سچ سے زیادہ بتائے گئے ہیں۔
لوگ عام طور پر گوشت کھانے اور بطور خاص بیف کھانے کے بارے میں کم بتاتے ہیں اور سبزی کھانے کے بارے میں مبالغے سے کام لیتے ہیں۔
دونوں محققین کا کہنا ہے کہ تمام چیزوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انڈیا میں صرف 20 فیصد افراد صحیح معنوں میں سبزی خور ہیں اور یہ عام دعوؤں اور فرسودہ روایات سے بہت کم ہیں۔
ہندو ملک کی آبادی کا 80 فیصد ہیں اور وہ بڑے پیمانے پر گوشت خور ہیں۔ یہاں تک کہ انڈیا کے مراعات یافتہ بڑی ذاتوں میں بھی صرف ایک تہائی سبزی خور ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ سبزی خور کنبوں کی آمدن اور صرف زیادہ ہے اور یہ لوگ گوشت خور خاندانوں کے بجائے زیادہ خوشحال ہیں۔


ہندوؤں میں پسماندہ طبقہ دلت (پہلے جنھیں اچھوت کہا جاتا تھا) اور قبائلی افراد زیادہ تر گوشت خور ہیں۔
دوسری جانب ڈاکٹر نٹراجن اور ڈاکٹر جیکب کی تحقیق میں پایا گيا ہے کہ بیف کھانے کا فیصد بھی عام تصوارت اور دعوؤں سے کہیں زیادہ ہے۔
حکومتی جائزے کے مطابق کم از کم سات فیصد ہندوستانی بیف کھاتے ہیں۔
لیکن ایسے شواہد ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار خاطر خواہ کم کر کے بتائے گئے ہیں کیونکہ بیف انڈیا میں ثقافتی سیاسی اور گروپ کی شناخت کی جدوجہد کا حصہ ہے۔
نریندر مودی کی حمکراں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی سبزی خوری کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور یہ کہتی ہے کہ گائے کا تحفظ کیا جانا چاہیے کیونکہ ہندوستانی اکثریت ہندو اسے مقدس تسلیم کرتے ہیں۔
ایک درجن سے زیادہ ریاستوں نے اس کے ذبیحے پر پہلے سے ہی پابندی لگا رکھی ہے اور مودی دور حکومت میں گائے کے محافظ گروپس نے بغیر کسی ‎سزا کے خوف کے مویشیوں کے لانے لے جانے والوں کی جانیں لی ہیں۔
سچ یہ ہے کہ دلت، مسلم اور مسیحی برادری کے کروڑوں ہندوستانی بیف کھاتے ہیں۔ جنوبی ریاست کیرالہ کی تقریبا 70 برادریاں بکرے کے مہنگے گوشت پر بیف کو ترجیح دیتی ہیں۔
ڈاکٹر نٹراجن اور ڈاکٹر جیکب نے اپنی تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تقریبا 15 فیصد یا 18 کروڑ ہندوستانی بیف کھاتے ہیں اور یہ سرکاری اعدادوشمار سے 96 فیصد زیادہ ہے۔


اس کے علاوہ ہندوستانی کھانوں کے بارے میں دوسرے مروجہ فرسودہ تصورات ہیں۔
دہلی جہاں صرف ایک تہائی لوگ سبزی خور ہیں اسے انڈیا کا بٹر چکن دارالحکومت کہلانے کا حق ہے۔
لیکن چینئی کو جنوبی ہند کے سبزی خور کھانے کا مرکز کہا جانا انتہائی غلط ہے۔ کیونکہ ایک جائزے کے مطابق وہاں کے صرف چھ فیصد افراد ہی سبزی خور ہیں۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پنجاب مرغی کے گوشت کو پسند کرنے والا خطہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شمالی ریاست کے 75 فیصد لوگ سبزی خور ہیں۔
اندور میں سب سے زیادہ 49 فیصد سبزی خور ہیں جبکہ میرٹھ 36، دہلی 30، ناگپور 22، ممبئی 18، حیدر آباد 11، چینئی چھ اور کولکتہ میں چار فیصد ہی سبزی خور ہیں۔
تو پھر انڈیا کے سبزی خور ہونے کا غلط تصور کیونکر عام ہوا؟
انڈیا کے سبزی خور شہر
اندور 49 فیصد
میرٹھ 36 فیصد
دہلی 30 فیصد
ناگپور 22 فیصد
ممبئی 18 فیصد
حیدرآباد 11 فیصد
چینئی چھ فیصد
کولکتہ چار فیصد
ڈاکٹر نٹراجن اور ڈاکٹر جیکب نے اس ضمن میں کہا کہ ایسے متنوع سماج میں جہاں ہر چند کیلومیٹر کے فاصلے پر سماجی گروپ کے ساتھ کھانے بھی بدل جاتے ہیں وہاں آبادی کے بڑے حصے کے لیے کوئی عمومی بات وہی کہتا ہے جو اس گروپ کی جانب سے بولتا ہے۔
برادریوں، علاقوں یا یہاں تک کے پورے ملک کی نمائندگی کرنے کی طاقت ہی غلط تصوارت کو جنم دیتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایسی صورت میں طاقتوروں کی غذا ہی غریبوں کی غذا کہلاتی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ بعض غلط تصوارت نقل مکانی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔
اس طرح جب جنوبی ہند کے لوگ شمالی ہند کی جانب نقل مکانی کرتے ہیں تو ان کا کھانا تمام جنوبی ہندوستانی کھانوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اور یہ ان شمالی ہند کے باشندوں کے بارے میں بھی درست ہے جو ملک کے دوسرے حصے کے لیے نقل مکانی کرتے ہیں۔
اور بعض غلط تصوارت بیرونی افراد بناتے ہیں۔ چند جنوبی ہندوستانیوں سے مل کر ان کی وسیع ثقافتی تنوع کو جانے بغیر شمالی ہند والے ان کے بارے میں تصور قائم کر لیتے ہیں اور یہی معاملہ جنوبی ہند والوں کے بارے میں بھی درست ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ بیرونی نشریاتی ادارے بھی اس میں شامل ہیں کیونکہ وہ کسی سماج کو اس کی بعض لازمی خصوصیات سے ہی پکارتے ہیں۔
اس تحقیق میں مرد اور خواتین کے کھانوں کی عادتوں کے فرق پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مثال کے طور پر مردوں کے مقابلے زیادہ خواتین یہ کہتی ہیں کہ وہ سبزی خور ہیں۔


محققین کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ مرد زیادہ تر گوشت گھر کے باہر کھاتے ہیں اور انھیں اخلاقی استثنیٰ حاصل ہوتی ہے حالانکہ باہر کھانے کا مطلب گوشت کھانا نہیں ہے۔
اس میں پدر شاہی اور اس کی سیاست کا بھی عنصر ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر نٹراجن اور ڈاکٹر جیکب کہتے ہیں سبزی خوری کی روایت کو برقرار رکھنے کا بوجھ زیادہ تر عورتوں پر ہی پڑجاتا ہے۔
جتنے گھروں میں سروے کیا گیا ہے ان میں سے 65 فیصد گھروں میں میاں بیوی دونوں گوشت خور ہیں جبکہ صرف 20 فیصد سبزی خور ہیں۔ صرف 12 فیصد معاملوں میں شوہر گوشت خور تھے اور بیوی سبزی خور جبکہ صرف تین فیصد ایسے معاملے سامنے آئے جس میں بیوی گوشت خور اور شوہر سبزی خور تھے۔
اس طرح زیادہ تر ہندوستانی کسی نہ کسی شکل میں مستقل یا پھر کبھی کبھی گوشت کھاتے ہیں جن میں مرغ اور بکرے کے گوشت کا زیادہ استعمال ہے۔ جبکہ سبزی خوری اکثریت کے یہاں رائج نہیں ہے۔
تو پھر ہندوستان اور ہندوستانیوں کو دنیا بھر میں سبزی خور ملک کیوں کہا جاتا ہے؟ کیا اس کی وجہ کھانے کی پسند پر نگرانی رکھنے سے کھانے کے متعلق غلط تصورات کو ایک پیچیدہ اور کثیر ثقافتی سماج پر تھوپنا ہے؟