SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 2 of 2

    Thread: یہ کیسا عشق ہے اردو زبان کا

    1. #1
      Moderator Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982
      smartguycool's Avatar
      Join Date
      Nov 2017
      Posts
      616
      Threads
      448
      Thanks
      102
      Thanked 493 Times in 328 Posts
      Mentioned
      127 Post(s)
      Tagged
      61 Thread(s)
      Rep Power
      7

      یہ کیسا عشق ہے اردو زبان کا

      ہر چیز کا ایک وقت ہوتاہے۔ پہلے کتاب پتّوں پر لکھی جاتی تھی پھر کاغذ وجود میں آیا اور اب انٹرنیٹ کا دور ہے۔کتاب اور کاغذ سے ہمیں اس لیے بھی محبت ہے کہ یہ ہمارے دور کی چیزیں ہیں۔ آنکھ کھولتے ہی ہم نے کاغذ کی خوشبو محسوس کی کتاب کے لمس کا مزا لیا۔لیکن کیا نئے دور کو آنے سے روکا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہمارا مسئلہ کتاب نہیں قاری ہونا چاہیے۔ ایک بچہ اگر کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب کی بجائے موبائل پر کچھ پڑھنے کا شوق رکھتاہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟خود ہم نے تو دس برس کے دوران بیس بیس موبائل تبدیل کرلیے لیکن ہماری خواہش ہے کہ ہمارے بچے پرانی چیزوں پر ہی اکتفا کریں۔میرے ایک دوست کا دعویٰ تھا کہ رات کواُس کے سرہانے کوئی نہ کوئی کتاب ضرور موجود رہتی ہے اور جب تک وہ کتاب کاکچھ حصہ پڑھ نہ لے اسے نیند نہیں آتی۔ میں نے چیک کیا تو اُس کا کہا سچ پایا موصوف بستر میں گھس کر تین گھنٹے موبائل استعمال کرتے تھے اور جب تھک جاتے تو کتاب اٹھاتے اور پہلا صفحہ پڑھتے ہی گہری نیند کی آغوش میں اتر جاتے۔ گویا کتاب انہوں نے نیند کی گولی کے طور پر رکھی ہوئی تھی۔
      پریشانی کی با ت کتاب کی صدی کا ختم ہونا نہیں یہ تو صرف نئی ٹیکنالوجی پر منتقل ہورہی ہے۔ مسئلہ تو یہ درپیش ہے کہ کتاب پڑھنے والوں کی تعداد کیسے بڑھائی جائے۔ وزولز کی وجہ سے ساری دنیا میں پڑھنے سے زیادہ دیکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔یہ سچ ہے کہ اکثرافسانہ جب ڈرامائی شکل میں سامنے ہو تو پڑھنے سے زیادہ لطف دیتاہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ لکھی ہوئی چیز کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے اپنا ایک ماحول ہوتا ہے۔اُردو جب سے رومن میں ڈھلی ہے انتہائی خطرناک صورتحال ہوگئی ہے۔موبائل سے لے کر انٹرنیٹ تک یہ انگریزی شکل والی اُردو چھاتی جارہی ہے اور حال یہ ہوگیا ہے کہ نئی نسل کی اکثریت کو نہ ٹھیک اُردو آتی ہے نہ انگلش۔ کسی نے بڑا اچھا کہا کہ ہم بیک وقت چار زبانوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ گھر میں اردو بولتے ہیں آپس میں پنجابی وغیرہ اسکول میں انگلش اور مرنے کے بعد حساب عربی میں ہوگا۔
      اردو کے ساتھ جو سلوک ہمارے ہاں رو ا رکھا جارہا ہے اُس کی اِس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے بچے بھی بغیر اغلاط کے اُردو میں دس لائنیں نہیں لکھ پاتے۔مطالعے کا یہ عالم ہے کہ میں نے پہلے بھی کہیں لکھا تھا کہ ایک دفعہ یونیورسٹی کے ایک لیکچر کے دوران میں نے طلباء سے پوچھا کہ منیر نیازی کون تھے؟ ایک لڑکی نے ہاتھ کھڑا کیا اور فوراً بولیبہت اچھے گلوکار تھے۔ یہ سنتے ہی پوری کلاس تالیوں سے گونج اٹھی۔ میں نے سرکھجایا اور پوچھا کہ ان کا کوئی گانا یاد ہے؟ محترمہ نے ذہن پر زور دیا اور پھر چہک کر بولیںجی سر! ان کا یہ گانا تو بڑا مشہور ہےساڈا چڑیاں دا ڈیرہ وے بابلا۔اس ہولناک جواب پر پھر تالیاں بج گئیں۔
      آج بھی آپ مختلف یونیورسٹیز میں جاکر یہ سوال پوچھ لیں کہ منٹو کون تھا؟ تو اکثریت کا یہی جواب ہوگاوہ بہت عظیم شاعر تھے۔جب مغالطہ مطالعہ بن جائے تو یہی ہوتاہے۔ دُکھ تو یہ ہے کہ جن گھروں میں پڑھا لکھا ماحول ہے وہاں بھی نئی نسل اردو پڑھے بغیر جوان ہورہی ہے۔ماں باپ کی ترجیح بھی سیاست پر گفتگو رہ گئی ہے۔ وہ دور گذر گیا جب انگلش کی ٹیویشن رکھی جاتی تھی آج کل ماں باپ اردو کا ٹیوٹر ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ بچوں کے سب سے کم مارکس بھی اُردو میں ہی آرہے ہیں۔ظاہری بات ہے جب ہر اسکول پر انگلش میڈیم کا لیبل چپکا کر اونچ نیچ کا ماحول پیدا کریں گے تو کون اردو پڑھے گا۔ میں ترس گیا ہوں کوئی ایسا اسکول دیکھنے کو جس پر جلی حروف میں لکھا ہواردو میڈیم۔
      آپ لاکھ کہہ لیں کہ کتاب کو کچھ نہیں ہوگا۔۔۔لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ کتاب ہماری زندگیوں سے کتنی تیزی سے نکلتی جارہی ہے۔ کتاب کی فروخت کتاب میلوں تک کیوں محدود ہوکر رہ گئی ہے؟ خالصتاً بک سٹالز آہستہ آہستہ اسٹیشنری اسٹورز میں کیوں بدلتے جارہے ہیں۔لاہورجیسے مرکز میں ایسے کئی بک اسٹالز ہیں جو یا تو بند ہوگئے یا اُن پر اب جنرل اسٹورز کی آئٹمز بھی دستیاب ہیں۔ گنے چنے رائٹرز کی کتابیں رائلٹی پر شائع ہوتی ہیں ورنہ لکھاری اپنی کتاب اپنے پیسوں سے خود چھپواتاہے سینکڑوں لوگوں کو بھیجتا ہے۔ تصویریں چھپتی ہیں تبصرے چھپتے ہیں اورپھر دوسرا ایڈیشن آجاتاہے۔ہمارے تو قومی سطح کے اخبارات کو بھی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ کتابوں پر تبصرے کے لیے کم ازکم ایک جلد ہی منگوا لیا کریں۔ آپ کو ہر جگہ یہی لکھا نظر آئے گاتبصرے کے لیے دو کتب بھیجیں۔ ہماری لائبریریاں ایسی کتب سے بھری پڑی ہیں جنہیں مارکیٹ سے خرید کر شائد ہی کوئی پڑھنا پسند کرے۔ ایک وہ دور تھا جب نثر نگار افسانہ نگار بننا چاہتے تھے ناول نگار بننا چاہتے تھے۔ اب پہلی ترجیح کالم نگار بننا ہے اور ڈائریکٹ سیاسی تجزیہ نگار بننا ہے۔
      ڈیجیٹل عہد میں نایاب ترین کتابیں آن لائن منتقل ہورہی ہیں۔ ایک کلک پر پوری لائبریری دستیاب ہے۔رائٹر کو کتاب فروخت ہونے کی اتنی خوشی نہیں ہوتی جتنی کتاب پڑھے جانے کی ہوتی ہے۔شکر ہے کہ آج بھی اطمینان بخش تعداد میں ایسے رائٹرز موجود ہیں جو ادب تخلیق کر رہے ہیں تحقیقی کتابیں لکھ رہے ہیں شاعری کر رہے ہیں۔ آنے والے وقت میں اخبار کی طرح کتاب بھی فری دستیاب ہوا کرے گی اور اچھی کتاب کا فیصلہ اس کے لائکس کمنٹس اور شیئرز کیا کریں گے۔ یہ کوئی بری بات نہیں۔کتاب کے لیے اس سے اچھا فیڈ بیک کوئی نہیں۔آغر ندیم سحر اورپروفیسر ڈاکٹرعرفان شہزاد تارڑ صاحب کا بے حد شکریہ جنہوں نے منڈی بہاؤ الدین میں کتاب کے متوالوں کے لیے اتنی شاندار کانفرنس سجائی جس کا لوگو تھایہ کیسا عشق ہے اردو زبان کا۔اس کانفرنس کے ذریعے انہوں نے اردو سے محبت کا جو پیغام دیا ہے وہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ادبی مراکز سے دور مضافات میں علم و ادب کے فروغ کے لیے اتنا بڑا کام کرنے کے لیے ہمت اور محنت کے ساتھ ساتھ بندے کا تھوڑا بہت پاگل ہونا بھی بہت ضروری ہے کہ یہ تڑکا انسان سے ناممکن کام بھی کروا دیتاہے۔
      ایک واقعہ جو مجھے اس سفر کے دوران نہیں بھولے گا وہ یہ کہ میں جب فرخ شہباز وڑائچ کی ہمراہی میں لاہور سے موٹر وے کے ذریعے منڈی بہاؤ الدین آرہا تھا تو راستے میں ایک ریسٹ ایریا میں کافی پینے کے لیے رکا۔ یہاں پارک میں بیٹھے ایک جاننے والے مل گئے۔پہلے سیلفی بنوائی پھر بڑے تپاک سے ملے اور پوچھنے لگے کہ کہاں جارہے ہیں؟میں نے بتایا کہ منڈی بہاؤ الدین کی اردو کانفرنس میں۔یہ سن کر وہ بڑے حیران ہوئے پھر خوش ہوکر بولےارے واہ۔۔۔کتنا ٹکٹ ہے؟۔ فرخ شہباز کوئی اور جواب دینے لگا تھا کہ میں نے اسے جلدی سے روکا اوراُن صاحب کو بتانا پڑا کہ اللہ کا شکر ہے ابھی تک پاکستان میں شاعروں ادیبوں کو دیکھنے پر ٹکٹ نہیں لگا۔۔۔!!!(یہ مضمون منڈی بہاؤ الدین کی اردو کانفرنس کے افتتاحی سیشن بعنوانڈیجیٹل عہد میں کتاب مسائل اور امکانات میں پڑھا گیا)

      بشکریہ گل نوخیز اختر



    2. The Following User Says Thank You to smartguycool For This Useful Post:

      intelligent086 (04-03-2018)

    3. #2
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: یہ کیسا عشق ہے اردو زبان کا

      خوب صورت شیئرنگ کا شکریہ



      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •