امیر الصالحین جناب سراج الحق صاحب نے ”میرا جسم میری مرضی“ کی مہم پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ”میرا جسم میری مرضی کا نعرہ مغربی اور امریکی ایجنڈا ہے، فحاشی و عریانی کا فروغ برداشت نہیں کریں گے۔ کتنے افسوس کی بات ہے مغرب میں عورت پردے اور اپنے تحفظ کی جنگ لڑ رہی ہے اور پاکستان میں خواتین ہی خواتین کو بے آبرو اور بے پردہ کرنے کی مہم چلا رہی ہیں“۔ انہوں نے یہ تقریر مشعال خان کے واقعے سے شہرت پانے والے مردان شہر کی جامعہ تفہیم القرآن مردان میں کی۔
اب امیر صاحب سے سو اختلاف سہی، لیکن یہ بات تو ماننی پڑے گی کہ وہ ایک صاحب علم شخص ہیں۔ ان کے پاس علم بھی وہ ہے جو عامیوں کے پاس نہیں ہوتا۔ اب آپ خود انصاف سے بتائیں کہ کیا آپ کو یہ علم تھا کہ مغرب کی عورت پردے کی اتنی شائق ہے کہ اس کی خاطر جنگ لڑنے پر اتری ہوئی ہے؟ ہمیں تو یہ علم نہیں تھا۔ بہرحال ہم نے غور کیا تو مغرب کی عورت پر اب نہایت رحم آنے لگا ہے۔
کہاں وہ زمانہ تھا کہ مغربی عورت سمندر پر نہانے بھی جاتی تھی تو ایسے کپڑے پہنتی تھی کہ کسی کو شبہ تک نہیں ہوتا تھا کہ وہ نہانے جا رہی ہے۔ ٹخنے تک چھپانے والا ڈھیلا ڈھالا پاجامہ، لمبی آستینوں والی کھلی قمیض، اور بال چھپانے کو سر پر ٹوپی۔ نہ صرف یہ لباس ان خواتین کو ہوس پرست مردوں کی نگاہوں سے بچاتا تھا بلکہ یہ ان کو ڈوبنے سے بھی بچاتا تھا کیونکہ ایسا لباس پہن کر اتنے گہرے پانی میں جانا ممکن نہیں تھا جہاں ڈوبا جا سکے۔ بلکہ ڈوبنا کیا، اتنے گہرے پانی میں جانا بھی آسان نہیں تھا جہاں تیرا جا سکے۔
پھر ہوس پرست مکار مردوں نے ادھر مغرب میں آزادی نسواں کی تحریک چلا دی۔ جیسا کہ امیر الصالحین نے فرمایا ہے کہ ان کا اصل مقصد عورت کی آزادی نہیں تھا بلکہ عورت تک پہنچنے کی آزادی تھا۔ ان مردوں نے مطالبات کیے کہ عورت کو ووٹ کا حق دیا جائے اور انہیں مردوں کے برابر کا انسان سمجھا جائے۔ اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ نہ صرف گھر گھر جا کر عورتوں سے ووٹ ڈالنے کی درخواست کرنے کے بہانے ملا جائے، بلکہ وہ پولنگ بوتھ میں بھی میل ملاقات کے بہانے چاہتے تھے۔ لیکن مکار مردوں نے یہ چال چلی کہ چند گمراہ عورتوں کو ہی عورتوں کے حقوق کے نام پر تحریک چلانے پر لگا دیا اور خود پس پردہ رہے۔ بلکہ پس پردہ کیا رہنا تھا، ان مکاروں نے تو بظاہر اس تحریک کی مخالفت کی تاکہ بھولی بھالی عورتیں یہ سمجھیں کہ وہ یہ غلط کام خود اپنی مرضی سے کر رہی ہیں۔ حکومت بھی کیونکہ مردوں کی تھی تو بظاہر ہچر مچر کر کے بہ اکراہت عورتوں کو یہ نام نہاد حق دے دیا گیا کہ وہ ووٹ ڈال سکیں۔ اس کے بعد مردوں نے اگلی چال چلی۔
انہوں نے اس مرتبہ یہ سوچا کہ الیکشن تو چار پانچ سال بعد آتے ہیں تو کیوں نہ کوئی ایسی ترکیب کی جائے کہ عورتوں سے روز کی ملاقات ممکن ہو سکے۔ انہوں نے اس مرتبہ عورتوں کو دفتر میں کام کرنے کی ترغیب دینا شروع کر دی اور یہ راگ الاپا کہ ملک کی آدھی آبادی بیکار گھر میں بیٹھِی ہو تو ملک کیسے ترقی کرے گا۔ گو کہ دیہات میں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی آئی ہیں مگر شہری عورتیں اس گمراہی سے دور تھیں۔ اب وہ بھی بطور ٹیچر، کلرک اور ریسپشنسٹ دفاتر میں بھرتی کی جانے لگیں۔
آپ نے اگر اوپر موجود تصویر میں موجود خواتین پر خوب غور کیا ہو تو آپ یہ نوٹ کیے بغیر نہیں رہے ہوں گے کہ خواتین کو یہ نام نہاد حقوق دینے اور ان کے سوئمنگ کاسٹیوم کے مختصر ہونے کی تاریخ ایک سی ہے۔ جب بھی کوئی حق دیا گیا تو لباس مزید مختصر ہو گیا۔ کون ذی شعور شخص مانے گا کہ یہ محض ایک اتفاق ہے؟ اس زمانے میں تو مکار مردوں نے ساحلوں پر ایسے پولیس والے چھوڑ رکھے تھے جو خواتین کا لباس فیتہ لے کر ناپتے تھے اور اگر کسی کا لباس مقرر کردہ حد سے بڑا نکلتا تھا تو اس کے خلاف پرچہ کٹ جاتا تھا۔
بہرحال اب مغرب کی عورتوں کو احساس ہو گیا ہے کہ مکار مردوں نے ان کو چکر میں ڈال دیا ہے۔ کہاں وہ سکون سے گھر بیٹھ کر بچوں سے کھیلتی تھیں اور صرف ہانڈی روٹی کرتی تھِیں اور پیسہ کمانا مرد کی ذمہ داری تھا۔ تمام ملکی و خانگی فیصلے کرنے کی ٹینشن لینا مردوں کے ذمے تھا۔ عورتوں کی کوئی ذمہ داری نہ تھی۔ پھر ان کو اپنا دماغ استعمال کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ انہوں نے کیا کھانا اوڑھنا ہے، کیسے زندگی گزارنی ہے، اس کی ساری ٹینشن مرد لیا کرتے تھے۔ وہ تو بس مردوں کی حسب خواہش قوم کے نونہالوں میں اضافے اور ان کی تربیت کی ذمہ دار تھیں۔
کہاں یہ وقت آ گیا ہے کہ مغربی عورتیں خود دن بھر کام کر کے روزی روٹی کمانے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ خود فیصلہ کرتی ہیں کہ کس سے شادی کرنی ہے۔ کرنی بھی ہے یا نہیں۔ بچے پیدا کرنے ہیں یا نہیں۔ سیکس کرنی ہے یا نہیں۔ خود سوچتی ہیں کہ کسے ووٹ ڈالنا ہے۔ خود فیصلہ کرتی ہیں کہ کیا پہننا ہے۔ خود فکر کرتی ہیں کہ زندگی میں کیا کرنا چاہتی ہیں۔ اب وہ پچھتا رہی ہیں کہ کیسے مردوں کی اس سازش سے نکلیں۔
لیکن ہیں وہ عقل مند۔ ان کو علم ہے کہ مردوں نے ان کو اس جال میں پھنسانے کے لئے ان کو پردہ نہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اس لئے اب وہ پردے کے حق کے لئے جنگ لڑ رہی ہیں۔ وہ سر سے پاؤں تک ایسا پردہ کرنے کی خواہاں ہیں جیسا افغانی خواتین کرتی ہیں تاکہ مردوں سے بچ سکیں۔ آپ کو علم ہو گا کہ جب کسی بڑے طاقتور دشمن سے جنگ لڑی جاتی ہے تو دوبدو مقابلہ کرنا ایک بدترین شکست کھانے کا سبب بنتا ہے۔ اس لئے دماغ والے ایسے مواقع پر گوریلا جنگ لڑتے ہیں جو اتنی زیادہ خفیہ ہوتی ہے کہ اس کا علم صرف ذی شعور افراد کو ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی عورتوں کی پردے کے حق میں لڑی جانے والی اس جنگ کی خبر صرف امیر الصالحین کو ہی ہے، ہما شما کو اس کا علم نہیں ہے۔
ایک طرف مغربی عورتوں کی پردے سے ایسی محبت کہ وہ اس کے لئے خفیہ گوریلا جنگ لڑ رہی ہیں، اور دوسری طرف مغرب زدہ امریکی ایجنٹ دیسی خواتین یہ کہتی پھر رہی ہیں کہ ان کا جسم ان کی مرضی، ان کو مردوں کے برابر کا انسان سمجھا جائے اور مرد کھانا خود گرم کریں۔ ویسے تو ان کو یہ آزادی ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ امیر الصالحین نے اس کی حوصلہ شکنی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور امید ہے کہ جلد ہی وطن عزیز کے گلیوں کوچوں میں ان کی تربیت یافتہ فورس گمراہ خواتین کو راہ راست پر لاتی دکھائی دے گی، لیکن بفرض محال ان کو یہ نام نہاد آزادی مل بھی گئی تو سو برس بعد وہ بھی مغربی عورتوں کی طرح خوب پچھتائیں گی۔
بشکریہ …… عدنان خان کاکڑ
Bookmarks