ند سال پیشتر میری کنیڈین دوست اور رفیقِ کار بے ٹی ڈیوس نے مجھ سے کہا کہ وہ مجھے اپنی بچپن کی دوست ڈیبی اور اس کے شوہر ڈیرک سے ملوانا چاہتی ہیں۔ میں نے سب کو ایک اطالوی ریستوران میں دعوت دی۔ کھانے کے دوران ڈیرک نے اچانک مجھ سے پوچھا کیا آپ خدا پر ایمان رکھتے ہیں؟
پہلے تو میں نے سوچا کہ پہلی ملاقات ہے مجھے گول مول جواب دینا چاہیے لیکن پھر میں نے سوچا کہ اگر جھوٹ بولا تو ہماری دوستی کی بنیاد میں ایک جھوٹ کی اینٹ لگ جائے گی۔ میں نے سچ بولتے ہوئے کہا نہیں
نہیں سنتے ہی اچانک ڈیرک کا رنگ زرد ہو گیا۔ وہ اتنا پریشان ہوئے کہ اٹھ کر ریستوران سے باہر چلے گئے۔ کافی دیر تک سگریٹ پیتے رہے پھر واپس آ کر کہنے لگے میں زندگی میں کسی دہریہ سے نہیں ملا
میں نے کہا آج آپ کو نیا تجربہ ہو رہا ہے
کہنے لگے مجھے اس بات کا بالکل یقین نہیں آتا کہ کوئی انسان کیسے یہ باور کر سکتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خدا نہیں۔ ہر چیز جو موجود ہے اس کا کوئی خالق تو ہوگا
میں نے مسکراتے ہوئے کہا اگر میں آپ کی یہ دلیل مان لوں تو پھر مجھے آپ سے یہ پوچھنا چاہیے کہ اگر خدا موجود ہے تو اس کا خالق کون ہے؟
ڈیرک کہنے لگے کہ وہ اگلے دن فلوریڈا جا رہے ہیں لیکن واپسی پر میرے ساتھ ویک اینڈ گزارنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا میرے دل اور گھر کے دروازے آپ کے لیے کھلے ہیں۔
چنانچہ ڈیرک میرے پاس دو دن رہے۔ میں نے انہیں اپنی کتاب
from islam to secular humanism
تحفے کے طور پر دی اور ایک مخلص اور طویل مکالمے کے بعد ہم دوست بن گئے۔
میں نے یہ واقعہ اس لیے لکھا ہے کیونکہ میں بہت سے خدا کو نہ ماننے والوں کو جانتا ہوں جو انجانے خوف کی وجہ سے دوسروں کو نہیں بتاتے کہ وہ دہریہ ہیں۔ انہیں ڈر رہتا ہے کہ کہیں خدا کو ماننے والے تنگ نظر انہیں تکلیف نہ پہنچائیں اور ان کا دائرہِ حیات تنگ نہ کر دیں۔ اس لیے وہ تمام عمر منافقت کی زندگی گزارتے رہتے ہیں۔
میرے قریبی دوستوں میں مسلمان بھی ہیں عیسائی بھی ہیں اور یہودی بھی۔ وہ خدا کو ماننے والے ہیں اور وہ سب جانتے ہیں کہ میں ایک انسان دوست دہریہ ہوں۔ میرے بعض دوست کہتے ہیں کہ ہم مذہب کو بھی مانتے ہیں اور انسان دوست بھی ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں آپ ریلیجیس ہیومنسٹ ہیں اور میں سیکولرہیومنسٹ ہوں۔ پھر وہ پوچھتے ہیں کہ آپ کے سیکولرزم کے فلسفے میں مذہب اور ریاست تو جدا ہیں ہی آپ کا عقیدے کے بارے میں کیا خیال ہے اور میں کہتا ہوں کہ میں آن فریڈم آف ریلیجن اور فریڈم آف ریلیجن دونوں پر ایمان رکھتا ہوں۔ عقیدہ ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ وہ انسان اور اس کے خدا کا تعلق ہے۔ جہاں تک ریاست کی سیاست ہے اس میں سب شہریوں کو خاص طور پر عورتوں اور اقلیتیوں کو، برابر کے حقوق اور مراعات حاصل ہونے چائییں۔
جب ایک خدا کو ماننے والے اور نہ ماننے والے کو محبت ہو جائے تو معاملہ گھمبیر اور گنجلک ہو جاتا ہے۔ میرے ایک دہریہ دوست ایک مسلمان عورت کے عشق میں گرفتار ہوگئے اور اس سے شادی کر لی۔ جب وہ مجھ سے ملنے آئے تو بھابی جان نے خوش خبری سنائی کہ وہ حاملہ ہیں۔ میں نے مبارکباد دی تو کہنے لگیں سہیل بھائی دعا کریں کہ میرے ہاں بچی پیدا ہو؟میں نے حیرانی سے پوچھا وہ کیوں؟ کہنے لگیں میرے شوہر اور آپ کے دہریہ دوست ختنے پر ایمان نہیں رکھتے۔ بیٹی ہوئی تو یہ تضاد نہیں ہوگا۔
اتفاق سے ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا اور اس کے ختنے نہ ہوئے۔ بھابی کے رشتہ دار آئے اور جب انہیں پتہ چلا کہ بیٹے کے ختنے نہیں ہوئے تو انہوں نے بھابی سے کہا کہ اپنے شوہر سے خلع لے لو۔ بھابی کہنے لگیں میں اسے چھوڑ نہیں سکتی میں اس سے محبت کرتی ہوں۔ رشتہ داروں نے کہا تم حقیقی خدا کی خاطر مجازی خدا کو چھوڑ دو
بہر حال اس واقعہ کو طویل عرصہ گزر گیا ہے اور وہ دونوں آج بھی ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہیں اور ان کی دوستی وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ پکی ہو گئی ہے۔
میں نے یہ واقعہ بھی اس لیے لکھا ہے گہ اگر خدا کو ماننے اور نہ ماننے والوں کی دوستی مخلص ہو تو ان کےدرمیان محبت بھی پروان چڑھ سکتی ہے۔
میری نگاہ میں اگر دو انسان ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کریں اور عقیدے کو بدلنے کی کوشش نہ کریں تو ان کی دوستی پائدار ہو سکتی ہے۔ میری خوش قسمتی کہ میرے کچھ دوست کمیونسٹ ہیں کچھ انارکسٹ ہیں کچھ فیمنسٹ ہیں اور کچھ ہیومنسٹ ہیں۔
میرے خدا اور مذہب کو ماننے والے دوست مجھ سے اکثر پوچھتے ہیں کہ اگر آپ خدا اور مذہب کو نہیں مانتے تو پھر آپ خدمتِ خلق اور نیکی کے کام کیوں کرتے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ بعض لوگ خدمتِ خلق جہنم کے خوف سے کرتے ہیں۔ بعض نیکی کے کام جنت کی لالچ میں کرتے ہیں۔ میں انہیں رابعہ بصری کی کہاوت سناتا ہوں کہ ایک دن وہ بصرہ کے بازار میں ایک ہاتھ میں آگ اور دوسرے ہاتھ میں پانی لیے جا رہی تھیں۔ کسی نے پوچھا آپ کہاں جا رہی ہیں کہنے لگیں جنت کو آگ لگانے اور جنہم کو پانی سے بجھانے تاکہ لوگ نیکی اور خدمتِ خلق جنت کی لالچ یا دوزخ کے خوف سے نہ کریں۔
میں ایک سیکولر ہیومنسٹ ہوں۔ مجھے اپنے مریضوں کی خدمت کر کے بہت مسرت حاصل ہوتی ہے۔ جب ان کا ڈیپریشن کم ہوتا ہے وہ صحتمند ہوتے ہیں اور ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلتی ہے تو میرے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ اگر میرے مریضوں کو گرجے جا کر سکون ملتا ہے تو میں ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔ گرجے میں ان کے دوست بنتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔
میرے نزدیک خدمتِ خلق کرنا انسانیت کی ایک اعلیٰ کسوٹی ہے۔ چاہے وہ خدا کو ماننے والے ہوں یا نہ ماننے والے ہوں میں ان سب انسانوں کا تہہِ دل سے احترام کرتا ہوں جو انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔ میں خدا کو ماننے والے عبدالستار ایدھی مارٹن لوتھر کنگ اور مدر ٹریسا کا اتنا ہی احترام کرتا ہوں جتنا خدا کو نہ ماننے والے چارلز ڈارون سگمنڈ فرائڈ کارل مارکس اور سٹیون ہاکنگ کا کیونکہ ان سب نے انسانیت کی خدمت کے لیے بے شمار قربانیاں دیں۔
جب ہم جنوبی افریقہ کی بیسویں صدی کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ نیلسن منڈیلا اور ڈزمنڈ ٹوٹو کی دوستی نے ایک انقلاب برپا کیا۔ ایک عیسائی مذہبی رہنما اور ایک سیکولر سیاسی لیڈر نے مل کر کالوں کو آزادی دلوائی۔ ان کی دوستی ساری دنیا کے مذہبی اور سیکولر خدا کو ماننے والے اور نہ ماننے والے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کو دعوتِ فکر دیتی ہے کہ اگر ان کے انسانیت کی خدمت کے آدرش اور خواب مشترک ہوں تو وہ مل کر انسانی شعور کے ارتقا میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
جب خدا کو ماننے والے دوست مجھ سے میری زندگی کے انسان دوستی کے فلسفے کے بارے میں پوچھتے ہیں تو میں انہیں 500 قبل مسیح کے ہیومنسٹ چینی فلاسفر کنفیوشس کا گولڈن رولز بتاتا ہوں جسے بعد میں کئی مذاہب نے اپنا لیا کہ دوسروں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو جیسا کہ تم چاہتے ہو کہ دوسرے تمہارے ساتھ کریں۔ میری نگاہ میں یہ انسان دوستی کی بنیادی قدر ہے۔
میرے خدا کو ماننے والے اور نہ ماننے والے دوست میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ ان کی دوستی مجھے بہت عزیز ہے۔


بشکریہ .. ڈاکٹر خالد سہیل