شہر اسلام آباد کی سویر، وقت تقریباً ساڑھے نو بجے، میں حسب معمول ہر صبح کی مانند ٹیلی ویژن ا سٹیشن پر صبح کی نشریات کی میزبانی سے فارغ ہو کر ٹیلی ویژن کی ویگن میں سوار اپنی رہائش کی جانب لوٹ رہا تھا۔۔۔ بلیو ایریا ابھی ویران پڑا تھا اور شاہراہ پر ٹریفک بہت کم تھی، بلیو ایریا کے خاتمے پر اس چوراہے کے نزدیک جہاں سے بائیں جانب زیرو پوائنٹ تھا اور دائیں جانب فیصل مسجد کے مینار نظر آتے تھے وہاں کچھ لوگ جمع تھے، حادثے سے تباہ ہو چکی ایک کار نظر آ رہی تھی۔۔۔ میرے ڈرائیور نے ویگن روکی اور کہنے لگا تارڑ صاحب میں دیکھ کر آتا ہوں کہ کیا ہوا ہے۔۔۔ تھوڑی دیر بعد واپس آ گیا اور کہنے لگا بہت بڑا حادثہ ہوا ہے حالانکہ ٹریفک بھی زیادہ نہ تھی، لگتا ہے ڈرائیور کی غلطی تھی، کوئی خاتون بھی تھیں، اللہ رحم کرے۔۔۔ ظاہر ہے میرا دل اُس اجنبی خاتون کے لیے دُکھی ہوا جو صبح سویرے حادثے کا شکار ہو گئی تھی،کیا جانے کس حال میں ہو، زندہ بچتی ہے یا نہیں۔
اپنے کمرے میں پہنچ کر میں نے کچھ دیر آرام کیا، پھر دوپہر کے کھانے سے فارغ ہو کر پڑھنے لکھنے میں مشغول ہو گیا۔۔۔ پچھلے پہر شاید یہ اظہار الحق تھا یا مرحوم احمد داؤد، اُن کا فون آیا تارڑ ایک بہت افسوسناک خبر ہے۔۔۔ پروین شاکر مر گئی ہے۔ کیسے؟ یقین نہ آیا کہ کیا کہا جا رہا ہے آج صبح وہ اپنے ڈرائیور کے ساتھ جا رہی تھی اور بلیو ایریا کے قریب اُس کی کار حادثے کا شکار ہو گئی۔۔۔ اتنے بجے جنازہ قبرستان پہنچے گا اس دوران کشور ناہید کا بھی فون آ گیا میں اس وقت پروین کے گھر سے بول رہی ہوں مستنصر۔۔۔وہ روئے چلی جا رہی تھی بہت برا حال ہوا ہے پروین کے چہرے کا۔۔۔ اُسے ٹھیک کیا جا رہا ہے۔۔۔ وہ بدنصیب ہی رہی۔۔۔ اتنے برے اور بیکار لوگ زندہ رہتے ہیں اور پروین ایسے خوشیاں بانٹنے والے لوگ چلے جاتے ہیں۔۔۔ میں تو قبرستان نہیں آسکتی، یہیں سے رخصت کر دوں گی۔۔۔
پروین شاکر سے میری دوستی یا قربت نہ تھی۔۔۔ کبھی کسی ادبی محفل یا دعوت میں آمنا سامنا ہو جاتا تو وہ ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سلام میں پہل کرتی، کیا لکھ رہے ہیں، کیا پڑھ رہے ہیں اور خدا حافظ۔ کبھی کبھار ادب کے حوالے سے کوئی ایک آدھ خط۔۔۔ خوشبو سے اُس کی شہرت کا آغاز ہوا جسے التحریر کے خالد سیف اللہ نے احمد ندیم قاسمی کے کہنے پر شائع کیا اور یہ ایک عجیب اتفاق تھا کہ اس اشاعتی ادارے نے اپنے آغاز میں جتنی بھی کتابیں نئی یا پرانی شائع کیں وہ سب بے حد مقبول ہوئیں،میرزا ادیب کے صحرا نورد کے خطوط، ممتاز مفتی کی لبیکمیرے دو سفر نامے نکلے تری تلاش میں اور اُندلس میں اجنبی اور پروین شاکر کی خوشبو۔۔۔ اسلام آباد کے قبرستان میں پروین کو رخصت کرنے والے بہت کم لوگ تھے، اُس کی عزیز داری کراچی میں تھی اور وہاں سے یہاں آج ہی کے دن پہنچنا مشکل تھا، کچھ ادیب تھے اور اُس کے محکمے کے کچھ لوگ۔۔۔ آخری لمحوں میں اُس کے ایک بھائی بھی پہنچ گئے۔۔۔ لیکن اس سے پیشتر یہی مسئلہ در پیش تھا کہ اُسے لحد میں کون اتارے گا کیونکہ کوئی نامحرم ایسا نہیں کر سکتا۔۔۔ ہم چار پانچ لوگ قبر کی مٹی کے ڈھیر پر کھڑے تھے اور میرے برابر میں افتخار عارف اپنے آپ کو بمشکل سنبھالتے تھے۔ جنازہ تو ہو چکا تھا جو اہل تشیع کے عقیدے کی نمائندگی کرتا تھا۔۔۔ ہم نے کچھ دیر انتظار کیا اس اُلجھن کا شکار رہے کہ اگر اُن کا کوئی نزدیکی عزیز بروقت نہ پہنچا تو پروین کو لحد میں کیسے اتارا جائے گا۔۔۔
مجھے مکمل تفصیل تو یاد نہیں رہی کہ اس کے بھائی کب پہنچے لیکن یہ یاد ہے کہ کسی نے سفید کفن میں لپٹی پروین شاکر کو افتخار عارف کے بڑھے ہوئے ہاتھوں میں دے دیا۔۔۔ افتخار اُسے تھامے ہوئے قبر میں اترنے کو تھے کہ یکدم اُن کا رنگ زرد پڑ گیا، ہاتھ لرزنے لگے۔۔۔ شاید انہیں انجائنا کا درد شروع ہو گیا تھا، انہوں نے یکدم مجھ سے کہا تارڑ ، پروین کو سنبھال لو۔۔۔ میں نے بازو واکیے اور پروین کے جسد خاکی کو تھام لیا۔۔۔ اور تب میں زندگی کے ایک ناقابل بیان تجربے سے دو چار ہوا جس کے بارے میں اب بھی سوچتا ہوں تو سناٹے میں آجاتا ہوں۔۔۔ پروین دھان پان سی لڑکی تھی، موت کے باوجود وہ بہت بھاری نہ تھی، میں جان بوجھ کر اُس جانب نہ دیکھتا تھا جدھر اُس کا چہرہ کفن میں بندھا تھا اور پھر میں نے محسوس کیا کہ میرے دائیں ہاتھ کی اُنگلیاں کفن میں روپوش پروین کی مردہ اُنگلیوں پر ہیں، اُنہیں چھو رہی ہیں، انہیں تھام رکھا ہے۔۔۔ میں اُن کی بناوٹ محسوس کر رہا تھا اور اُس لمحے مجھے خیال آیا کہ یہ پروین کا لکھنے والا ہاتھ ہے۔۔۔ انہی اُنگلیوں سے اُس نے وہ سب شعر لکھے جو ایک ز مانے کے دل پسند ہوئے، ایک داستان ہوئے۔ اور پھر مجھے وہ شعر یاد آیا جو ایک خاتون نے لکھ کر مجھے رسوا اور شرمندہ کر دیا تھا، وہ شعر بھی تو انہی انگلیوں نے لکھا تھا۔ اور آج میں انہیں بے جان حالت میں اپنی انگلیوں سے تھامے ہوئے ہوں۔۔۔ یہ لمحہ، یہ کیفیت آج تک میرے بدن پر ثبت ہے، میں آج بھی پروین کی اُنگلیوں کی موت کو محسوس کرتا ہوں۔۔۔
اس دوران پروین کے بھائی کراچی سے آ چکے تھے، مجھ سے لحد میں اترا نہ جاتا تھا، کسی اور شخص نے میری مدد کی اور ہم نے اس کے مردہ بدن کو قبر میں کھڑے اُس کے بھائی یا عزیز کے سپرد کر دیا۔۔۔ یہ عجیب بات ہے کہ زندگی میں ہم ایک دوسرے کو زیادہ نہ جانتے تھے، یہ موت تھی جو مجھے اُس کے قریب لے آئی۔۔۔ میں آج بھی کہیں پروین شاکر کا نام دیکھتا ہوں تو اس کی موت کے عذاب مجھ پر نازل ہونے لگتے ہیں۔۔۔ پروین کی جواں سال موت نے پوری ادبی دنیا کو رنجیدہ کر دیا۔۔۔ لوگ اُس کے شعر پڑھتے، اُس کے لیے روتے رہے اور اُن میں پروین قادر آغا بھی تھیں اُن کی سب سے عزیز دوست، ایک گُوڑی سہیلی جنہوں نے پروین کے ایک اور دوست مظہر الاسلام کے تعاون سے پروین شاکر ٹرسٹ قائم کیا جس کے زیر انتظام ہر برس پروین اور اُس کی شاعری کے چرچے ہوتے، شاعری کی نئی کتابوں پر ایوارڈ دیئے جاتے، گلوکار اور شاعر اُسے نذرانۂ عقیدت پیش کرتے۔۔۔ میں ان میں سے کسی محفل میں شریک نہ ہو سکا کہ میں شاعر نہ تھا اور پھر پروین قادر آغا اور مظہر الاسلام نے فیصلہ کیا کہ اس برس پروین شاکر اردو لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد کیا جائے۔ مجھے اور مسعود اشعر کو فکشن کی نمائندگی کرنے کے لیے بلاوا آ گیا۔۔۔ میں کیسے نہ جاتا۔۔۔ پروین کی مردہ انگلیاں مجھے بلاتی تھیں۔

بشکریہ ..مستنصر حسین تارڑ